سرینگر//وادی کی صورتحال کو بد سے بدتر قرار دیتے ہوئے سابق وزیر خارجہ اور سینئر بی جے پی لیڈر یشونت سنہا نے کہا ہے کہ بھاجپا کو حریت سمیت جموں کشمیر میں تمام متعلقین اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا اپنا وعدہ پورا کرنا چاہئے کیونکہ صرف یہی مسئلہ کشمیر کے حل کا واحد راستہ ہے۔انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ اگر بی جے پی اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے تو ریاستی حکومت میں اس کی حصہ دارپی ڈی پی بدستور اس کا ساتھ کیوں نبھا رہی ہے؟۔ گذشتہ برس کی پر تشدد ایجی ٹیشن کے تناظر میں وادی کے کئی دوروں کے دوران یشونت سنہا اور ان کے دیگر ساتھیوں نے مختلف الخیال لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور بعد میں کشمیر سے جڑے مسائل کے حل کیلئے اپنی سفارشات پر مشتمل رپورٹ مرکزی سرکار کو پیش کی۔سابق وزیر خارجہ نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کشمیر کی صورتحال اور اس کولیکر مرکز اور بھاجپاکے اپروچ کے حوالے سے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنے اُس وعدے کو عملی جامہ پہنانا چاہئے جس کے تحت پارٹی نے جموں کشمیر میں تمام متعلقین بشمول حریت، یہاں تک کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کی یقین دہانی کرائی تھی۔انہوں نے یہ بات دہرائی کہ صرف مذاکرات ہی کشمیر مسئلے سے جڑے تمام پہلوئوں کو حل کرسکتی ہے۔یشونت سنہا نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا حوالہ دیکر بات چیت کا وعدہ کرنے کے بعد کسی کو یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ مرکزی سرکار جموں کشمیر میںپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کے ساتھ طے شدہ ایجنڈا آف الائنس سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟اس ضمن میں ان کا کہنا تھا’’ہمیں ایجنڈا آف الائنس کے تحت ان (بھاجپا)کو ان کا اپناوعدہ یاد دلانا چاہئے جس میں انہوں نے تمام اندرونی متعلقین کے ساتھ مذاکرات کی بات کی ہے، واجپائی نے جو کچھ کیا، اس کی تعریف کرنے کے بعد یہ لوگ کہتے تھے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں گے ، کسی کو ان سے پوچھنا چاہئے کہ وہ اپنے وعدے سے پیچھے کیوں ہٹ رہے ہیں‘‘۔ یشونت سنہا نے کہا’’ہم نے وادی میں قیام امن کیلئے حکومت ہند کے سامنے اپنی سفارشات پیش کی تھیں،جہاں اب صورتحال بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے کیونکہ لوگ زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ ہوتے جارہے ہیں‘‘۔سابق وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا ’’سب سے اہم تجویز یہ تھی کہ پی ڈی پی اوربی جے پی کے درمیان طے شدہ ایجنڈا آف الائنس کے تحت قومی مصالحت اور حریت سمیت تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت شروع کرنے جیسے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے‘‘۔انہوں نے کہا کہ کچھ تجاویز پر عمل تو کیا گیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا۔اس بارے میں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’’اگر کوئی پیشرفت ہوئی ہے تو ہم اس کا سہرہ اپنے سر نہیں باندھتے، مثال کے طور پر پیلٹ گن کا استعمال لیجئے، اب اس کا استعمال پہلے سے بہت کم کیا جارہا ہے اور لوگوں کے بینائی سے محروم ہونے کے واقعات پر قابو پالیا گیا ہے‘‘۔تاہم سابق مرکزی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت بات چیت کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے کیونکہ کوئی مذاکرات کی بات نہیں کرتااور وادی میں صرف فوجی کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں یشونت سنہا نے کہا کہ یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ علیحدگی پسندوں کو پاکستان سے رقومات حاصل ہوتی ہیں کیونکہ یہ ایک ایسی بات ہے جو پہلے سے ہی واضح ہے۔انہوں نے کہا’’انہیں علیحدگی پسند کہا جاتا ہے کیونکہ وہ علیحدگی چاہتے ہیں، ورنہ ان کو علیحدگی پسند کیوں کہا جاتا؟ان کے بارے میں سب کچھ صاف ہے ، میرے خیال میں گزشتہ دو سے اڑھائی برسوں کے دوران ایسی کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی ہے جو حکام کو ایجنڈا آف الائنس سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرے‘‘۔ یشونت سنہا نے زور دیکر کہا’’کشمیر مسئلے کا حل صرف اور صرف بات چیت میں مضمرہے، نہ صرف داخلی متعلقین بلکہ کنٹرول لائن کی دوسری جانب لوگوں کے ساتھ بھی، جس کا مطلب پاکستان ہے اور جیسا کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین طے ہوا تھا‘‘۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’’اگر ہم پاکستان کو وقتی طورباہر رکھتے ہیں تو ہمیں جموں کشمیر کے اپنے لوگوں کے ساتھ بات کیوں نہیں کرنی چاہئے ؟ہم ناگالوگوں کے ساتھ بات کررہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کی صورتحال باعث تشویش ہے اور مسئلے کو مزید وقت ضائع کئے بغیر حل کیا جانا چاہئے۔سابق وزیر خارجہ نے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا’’حکام اور بھارت کے عوام کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ہمیں صرف جموں کشمیر کی زمین کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا ہے بلکہ ہمیں لوگوں کے دل و ذہن جیتنے کی کوشش کرنی ہے جو بیگانگی کے احساس میں مبتلا ہیں،یہ ہمارے لئے ایک بڑا چیلنج ہے جس سے ہم صرف لوگوں تک پہنچ کر نمٹ سکتے ہیں، ہمیں بات چیت کی پیشکش کرنی چاہئے اور اگر پیشکش قبول ہوتی ہے تو ہمیں یقینی طور پر مسئلے کے حل کے بارے میں بات کرنی چاہئے‘‘۔یہ پوچھے جانے پر کہ بھاجپا وادی میں قیام امن کے حوالے سے ناکام ہونے والی مخلوط حکومت کا حصہ کیوں ہے؟یشونت سنہا کا کہنا تھا’’سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ محبوبہ مفتی کی قیادت والی پی ڈی پی ہی بی جے پی کے ساتھ کیوں ہے؟‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا’’بی جے پی اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور اس پر سب سے پہلے کس کو اپنا رد عمل ظاہر کرنا چاہئے؟پی ڈی پی کو، پی ڈی پی نے اُس وقت بھاجپا کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ مذاکرات ہونے چاہئے، اگر بی جے پی اُس وقت آمادہ تھی اور اب اس سمجھوتے سے پیچھے ہٹ رہی ہے تو کس کو رد عمل ظاہر کرنا چاہئے؟پی ڈی پی کو، میں ان کے بدلے ردعمل ظاہر نہیں کرسکتا‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ وادی میں امن عمل کی شروعات کیلئے ان کے پاس کیا تجویز ہے؟سینئربی جے پی لیڈر نے صاف کیا کہ ان کے پاس کشمیریوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا’’صرف حکومت جموں کشمیر اور مرکزی سرکار ہی کوئی پیشکش کرسکتی ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ وقت آگیا ہے جب ہندوستان کے عوام کو کشمیری عوام تک پہنچنے کی سعی کرنی چاہئے‘‘۔یشونت سنہا نے کہا’’عوام اورعوام کے درمیان زیادہ سے زیادہ تبادلہ خیال ہونا چاہئے، جموں کشمیر کے لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا جانا چاہئے کہ بھارت کے لوگ ان کے لئے احساس رکھتے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے،یہ تو مستقبل میں ہی پتہ چل جائے گا‘‘۔