یاسر بشیر
اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ زندگی عطا کی۔اس زندگی کو گزارنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نظام و طریقہ دیا ہے،جسے ہم دین کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔’’اِنّ دِیْن عِنْداللّہِ اْلاِسْلامْ ‘‘یعنی اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔اسلام کے علاوہ جو بھی طریقہ زندگی ہے،اسلام ان کو رد کرتا ہے۔
حضرت آدمؑ سے لیکر حضرت محمدؐتک تمام انبیاء کرام یہی دین لے کر آئے۔اِنہی داعیان اسلام میں سے ایک برگزیدہ نبی حضرت ابراہیمؑ تھے،جن کی اولاد میں سے حضرت محمدؐ تشریف لائیں۔حضرت محمدؐ کے بعد جن کو زیادہ آزمائش کی گئی،وہ یہی برگزیدہ نبی حضرت ابراہیمؑ ہے۔ہم کتنے خوش نصیب ہے کہ ہم حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں سے ہے۔حضرت ابراہیمؑ سے ہر کوئی مسلمان،عیسائی یا یہودی واقف ہے۔دنیا کی دو تہائی سے زیادہ آبادی ان کو اپنا پیشوا مانتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ہی سنت کے طور پر ہم ذالحجہ میں قربانی کرتے ہیں،جسے ہم سنت ابراہیمی بھی کہتے ہیں۔سنت ابراہیمی ہر سال ہوتی ہےجو بھی کام بار بار کرنا ہوگا،وہ کام اپنے کرنے والوں کے لئے کوئی اہم پیغام دیتا ہے۔ہمیں سونچنا چاہئےکہ سنت ابراہیمی ہماری زندگیوں میں کس قسم کا انقلاب چاہتی ہے،جس کی وجہ سے یہ ہر سال ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کو ہمارے جانوروں کے خون یا گوشت ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے ہمارا تقویٰ۔
سنت ابراہیمی سماج کے ہر ایک طبقے کو کوئی خاص پیغام دیتی ہے :
۱۔حضرت ابراہیمؑ جب بلوغت کو پہنچا تو اس وقت ان کے معاشرے میں بت پرستی عروج پر تھی۔خود بت تراشتے تھے اور پھر ان ہی کو پوجتے تھے۔مگر ابراہیمؑ نے اس معاشرے اور اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید نہیں کی بلکہ انہوں نےغور و فکر کی اور اپنے رب کی تلاش میں لگے رہے۔آخر میں انہوں نے غور و فکر سے اپنے ربّ کو پہچانا۔کیا آج حضرتِ ابراہیمؑ کی اولاد(یعنی ہم)آپ ؑؑ کی تعلیمات پر غور و فکر کرتے ہیں؟ہم تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اولاد ِابراہیم میں سے ہیں مگر اُن کی تعلیمات کو ہم نے بالائے طاق رکھا ہے۔
۲۔حضرت ابراہیمؑ نے جب توحید کی آواز بلند کی تو ان سے پرایے تو کیا، اپنے بھی خفا ہوئے اور مخالفت میں لگے رہے۔مگر ابراہیمؑ نے توحید کے خاطر شاہی زندگی چھوڑ دی اور مسافرت کی زندگی اختیار کی۔کیا ہم ملت ابراہیمیؑ کے دعوےدار اس طرح کے موحد ہے،جس طرح ابراہیمؑ نے ہمیں سکھایا تھا۔
(۳) حضرت ابراہیمؑ نے بت پرستی سے علی الاعلان برأت کی اور اپنے خاندان سے الگ ہوئے تو پھر بھی ابراہیمؑ نے اپنے والد آزر(جو مشرک تھا)کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی،جس طرح اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔قرآن مقدس میں آیا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد کو دعوت دی تو ابراہیمؑ نے “یا ابتِ” کا لفظ استعمال کیا جو کہ محبت کے انتہا کے وقت بولا جاتا ہے۔مگر آج کے معاشرے میں اگر ہم دیکھیں گے ،مسلم بیٹا اپنے مسلم والد سے کیا سلوک کرتا ہے۔جس کی زیادہ وجہ مسلکی منافرت ہوتی ہے۔
(۴) حضرت ابراہیمؑ نے دعوت دین کی شروعات اپنے گھر سے کی،پہلے اپنے والد کو اسلام کی دعوت دی،داعی دین اپنے گھر سے نکالے،اپنے بھتیجے حضرت لوطؑ کو اُردن(ٹرانس جورڈینا)بھیجا،چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحٰقؑ کو فلسطین روانہ کیا،بڑے صاحبزادے حضرت اسمٰعیلؑ کو حجاز میں رکھا۔اگر آج کے دور میں ہمیں بھی داعی بننا ہے تو دعوت و اصلاح کا آغاز اپنے گھر سے کرنی ہے۔
(۵)ب حضرت ابراہیمؑ کی دعوت پر کسی نے بھی دعوتِ توحید قبول نہیں کی تو ابراہیمؑ مایوس نہیں ہوئے بلکہ ایک صالح اولاد کی دعا مانگی۔آج اگر ہماری دعوت کو کوئی ایک بار رد کردے تو ہم پر مایوسی چھاجاتی ہے۔
کیا آج کے دور میں ہم صالح اولاد کے لئے دعا مانگتے ہیں؟جس طرح ابراہیمؑ نے مانگا تھا۔ابراہیمؑ نے صالح اولاد کی تمنا اسی لئے کی تاکہ وہ دعوت دین میں میرا معاون و مددگار بنے۔مگر آج ہم اپنے اولادوں کو اس طرح کی تربیت سے محروم رکھتے ہیں۔یہی صالح اولاد روزِ محشر میں والدین کو شفاعت کا باعث بنیںگے۔حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تین قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے،ایک یہ کہ وہ صدقہ جاریہ کر جائے یا ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ،تیسرا نیک فرزند جو اس کے لئے دعا کرتا رہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی یہی دعا جب قبول ہوئی تو ابراہیمؑ نے ایک دن ان کو اپنے خواب کے بارے میں کہا کہ مجھے اللہ کا حکم آیا ہے کہ آپ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے تو اس صالح اولاد نے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا اور اپنے والد کو کہا کہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پاوگے۔
(۶)جب ابراہیمؑ اور ان کے بڑے صاحبزادے حضرت اسمٰعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کی تو پھر دعا کی کہ اے اللہ تو ہماری اس حقیر خدمت کو قبول فرما۔اگر ہم اپنی طرف دیکھیں گے تو ہم ایک وقت نماز پڑھ کر آسمان سر پر رکھتے ہیں۔مگر حضرت ابراہیمؑ نے اس بڑی خدمت کو انجام دے کر اپنی طرف سے حقیر خدمت سمجھا۔
(۷)جب سنت ابراہیمی(قربانی)کا وقت آتا ہے تو جو جانور ہمیں اس خدمت کے لئے ہوتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں کچھ نقص و عیب تو نہیں ہے۔کیا ہم نے کبھی اپنے دل کے نقائص و عیوب کی طرف نظر ڈالتے ہیں؟ کیا ہم اپنے عیوب کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ سنت ابراہیمی کا اصل پیغام یہی ہے ہے کہ جانور کو ذبح کرنے سے پہلےاپنے خواہشات کو ذبح کر ڈالو۔ اگر ہم ابراہیمی ہونے کا دعوا کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے وہ پیغام یاد رکھنا چاہیے جو ہمیں سنتِ ابراہیمی سے ملتا ہے۔پھر ہم خود دیکھیں گے کہ نارِ نمرود آج بھی گل و گلزار بن جائیں گے۔ اللہ ہمیں سنت ابراہیمی کے اصل مقصد تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
(رابطہ۔9149897428)