بلال فرقانی
سرینگر// سنتور ہوٹل ملازمین نے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پیرکو سرینگر میں احتجاج کیا۔ ملازمین نے نعرہ بازی کی اور انکے روزگار کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر اپنے مطالبات کے حق میں نعرے درج تھے۔ سنتور ہوٹل ملازمین ایسو سی ایشن کے صدر جائوید پنڈت نے کہا کہ ماضی میں جموں کشمیر انتظامیہ کے اعلیٰ افسراں نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ انکے روزگار پر شب خون نہیں مارا جائے گا،تاہم گزشتہ2روز سے سرکار نے اس معاملے میں خاموشی کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں انہیں خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ3دہائیوں سے وہ سنتور ہوٹل میں کام کر رہے ہیں اور اچانک بہ یک جنبش انہیں روزگار سے بے دخل کیا گیا۔ جائوید پنڈت نے کہا کہ اگر انکے روزگار کی سبیل نہیں کی گئی تو وہ اہل و عیال سمیت دہلی میں آئندہ ہفتہ دھرنا دینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ گزشتہ دنوں انہوں نے اس معاملے کو شہری ہوائی بازی کے مرکزی وزیر جوتی رادھتیا سندھیا سے بھی اٹھایا اور انہوں نے یقین دہانی کرائی،مگر ابھی تک زمینی سطح پر کچھ نہیں کیا گیا۔ احتجاج میں شامل فیاض احمد نامی ایک ملازم نے بتایا کہ گزشتہ30برسوں تک اس ادارے میں کام کرنے کے بعد انہیں غیر متوقع طور پر باہر کردیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ ذہنی تذبذب میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس دوران سیول سوسائٹی جموں کشمیر کے چیئرمین عبدالقیوم وانی نے پیر کو سری نگر میں سنتور کے ملازمین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے احتجاج میں شرکت کی۔ وانی نے بعد میں کہا کہ اگر سنتورمیں ان کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں بے دخل کر دیا جائے جبکہ انہیں کسی محکمہ میں شامل کیا جانا چاہے۔وانی نے کہا’’حکومت کو بے دخلی کے اپنے حکم پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور متاثرہ 160 ملازمین کو کسی دوسرے متعلقہ محکمے میں شامل کرنا چاہیے۔