فہم وفراست
میم دانش
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے، وہ اس لئے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ نے شعور اور آگہی کا ادراک رکھا ، اس میں احساس اور محبت رکھی۔اس کے برعکس انسان حقیقت میں اشرف المخلوقات ہونے کے تقاضوں کو پورا نہیں کر پا رہا ہے۔ انسان پر اہم سماجی اور اخلاقی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہے۔ اگر ہم آج کے معاشرے پر نظر ڈالیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان اپنی سماجی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر ادا نہیں کر رہا ہے۔ ان ذمہ داریوں میں خاص کرمعاشرے کے ہر فرد کے ساتھ برابری اور انصاف کے ساتھ پیش آنا،سچائی، دیانت داری، ہمدردی جیسے اوصاف کو اپنانا، غریبوں، یتیموں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا، فرقہ واریت اور نفرت کو ختم کرکے امن اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنا،قدرتی وسائل کی حفاظت کرنا اور زمین کو آلودگی سے بچانا۔اگر موجودہ حالات پر نظردوڑائی جائے تو نابرابری، ناانصافی، نفرت اور خود غرضی عام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے سماجی اقدار کمزور ہو رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو بطور اشرف المخلوقات پورا کرنے میں ناکام ہے۔
اسلام میں مسلمانوں کے لئے سینکڑوں مواقع فراہم کئے گئے ہیں جن سے وہ خود کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات ثابت کر سکتے ہیں۔ ان میں سب سے افضل ترین موقع ماہِ رمضان کا بابرکت مہینہ ہے۔رمضان المبارک روحانی غور و فکر، خود پر قابو پانے اور تقویٰ میں اضافے کا وقت ہے۔ یہ صرف صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک روزہ رکھنے کا مہینہ نہیں بلکہ مسلمانوں کو اپنی وسیع تر سماجی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کی اصل روح محض انفرادی عبادات تک محدود نہیں بلکہ اس میں خاندان، ہمسایوں اور معاشرے کے لئے گہرے احساسِ ذمہ داری بھی شامل ہے۔ یہ مہینہ ایمان والوں کو نیکی، خیرخواہی اور سماجی انصاف کے کاموں میں حصہ لینے کی دعوت دیتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد میں موجود ہمدردی اور رحم دلی کے جذبات کو مضبوط کرتا ہے۔اس مقدس مہینے میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق اور معاشرے میں اپنے کردار پر غور و فکر کی مہلت ملتی ہے۔ روزہ رکھنے کا عمل محض کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ یہ خود پر قابو پانے، صبر کرنے اور دوسروں کی مشکلات کو محسوس کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ قرآنِ کریم ضرورت مندوں کے ساتھ مہربانی اور ان کی دیکھ بھال کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینے میں جب خیرات اور ہمدردی کی فضیلتیں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ مہینہ صرف ایک ذاتی روحانی سفر ہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی تجربہ بھی ہے جو سماجی رشتوں کو مضبوط کرتا ہے اور اتحاد کے جذبے کو فروغ دیتا ہے۔
ہم اکثر سماجی ذمہ داریوں پر زور دیتے ہیں جیسے دوسروں کی مدد کرنا، ہم آہنگی کو فروغ دینا اور اخلاقی و سماجی اصولوں کی پابندی کرنا۔لیکن ہم ان سماجی رویوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو معاشرتی فلاح و بہبود اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ رویے، جو اکثر روزمرہ زندگی میں دیکھنے کو ملتے ہیں آہستہ آہستہ ایک مربوط اور مؤثر معاشرے کی بنیادوں کو کمزور کررہے ہیں۔مثال کے طور پر شہری علاقوں میں فٹ پاتھوں اور عوامی جگہوں پر قبضہ ایک عام مسئلہ بن چکا ہے۔ ریڑھی بان، دکاندار اور یہاں تک کہ رہائشی اکثر اپنے کاروبار کو فٹ پاتھ تک پھیلا دیتے ہیں جس سے پیدل چلنے والوں کے لئے جگہ کم یا مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ یہ صورتحال بزرگوں، بچوں اور معذور افراد کے لئے مشکلات پیدا کرتی ہے اور حادثات کے خطرے میں اضافہ کرتی ہے۔ اس قسم کے قبضے عوامی فلاح و بہبود کی خلاف ورزی کی علامت ہیں ۔اسی طرح سڑکوں پر غیر قانونی پارکنگ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے اور ٹریفک جام کا باعث بنتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی جیسے سرخ بتی پر گاڑی گزارنا، غلط سمت میں گاڑی چلانا اور خطرناک انداز میں اوور ٹیک کرنا،نہ صرف زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں بلکہ اجتماعی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ ٹریفک کے ضوابط کی پابندی نہ کرناجیسے سیٹ بیلٹ نہ باندھنا، ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنا یا رفتار کی حد کو نظر انداز کرناذاتی اور عوامی تحفظ کے حوالے سے لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ غفلت شعاری حادثات اور اموات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔رشتہ داروں، ہمسایوں اور برادریوں کے درمیان رنجشیں اور تنازعات نفرت اور تقسیم کو جنم دیتے ہیں۔ اختلافات کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کے بجائے تلخیوں کو برقرار رکھنا سماجی اعتماد اور باہمی تعاون کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔اپنے محلے کے حوالے سے عدم ذمہ داری جیسے صفائی کا خیال نہ رکھنا، کمیونٹی کے منصوبوں میں حصہ نہ لینا اور غربت کی زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی ضروریات کو نظر انداز کرنابے حسی اور لاپرواہی کی فضا پیدا کرتا ہے۔ ایک کمیونٹی اسی وقت ترقی کرتی ہے جب اس کے ارکان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں، مشترکہ مقامات کی دیکھ بھال کریں۔دیگر سماجی اور شہری مسائل جیسے کچرے کا انتظام، آلودگی اور صحت کے اصولوں کو نظر انداز کرنا اجتماعی فلاح و بہبود کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ جب افراد سماجی مسائل سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں تو یہ رہائشی حالات کی خرابی اور مجموعی معیار زندگی میں کمی کا سبب بنتی ہے۔مزید برآں حکومتی ضوابط اور عوامی ہدایات چاہے وہ صحت کے اصولوں، ماحولیاتی تحفظ یا شہری ذمہ داریوں سے متعلق ہوں،کی خلاف ورزی قانون اور عوامی تحفظ کو کمزور کرتی ہے۔ صحت عامہ کے بحرانوں یا ماحولیاتی ہدایات کو نظر انداز کرنا معاشرتی سطح پر طویل المدتی خطرات پیدا کرتا ہے۔اسلام زندگی کے ہر پہلو میں انصاف اور دیانت داری کی تعلیم دیتا ہے۔ رمضان المبارک میں مسلمانوں کو اپنے معاملات کو دیانت داری، ایمانداری اور انصاف کے ساتھ چلانے کی تلقین کی جاتی ہے۔انصاف اور سماجی ہم آہنگی اسلامی تعلیمات کا لازمی جزو ہیں اور یہ بابرکت مہینہ ذاتی اور اجتماعی سطح پر ایسے اقدامات پر غور کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے جو عدم مساوات کو فروغ دیتے ہیں۔
ضرورت مندوں کی مدد، انصاف کی فراہمی اور خاندانی و عوامی رشتوں کو مضبوط بنانے سے مسلمان نہ صرف اپنی دینی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں بلکہ ایک زیادہ منصفانہ اور ہمدرد معاشرہ بھی تشکیل دیتے ہیں۔ سماجی ذمہ داریاں ایک مربوط اور مؤثر معاشرے کی بنیاد ہیں لیکن غیر قابو شدہ سماجی رویے اس کے نظم و ضبط کو کمزور کرتے ہیں۔ ناجائز قبضے، ٹریفک کی خلاف ورزیوں اور دشمنی جیسے مسائل کو اجتماعی کوششوں اور انفرادی جوابدہی کے ذریعے حل کرنا ضروری ہے۔اس مہینے میں پروان چڑھنے والی ہمدردی، سخاوت، سماجی رویے اور انصاف کی قدریں پورے سال مسلمانوں کی زندگیوں کی راہنمائی کرتی ہے۔انسان کو اپنی اصل حیثیت اور ذمہ داریوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم انصاف، محبت اور بھائی چارے کے اصولوں کو اپنانے کی کوشش نہیں کریں گے، معاشرے میں حقیقی ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں ہوگی۔اس سلسلے میں مذہبی اور سرکاری سطح پر ایک منظم لائحہ عمل اختیار کرنا بھی بہ درجہ اتم ضروری ہے۔
[email protected]