ہندوستان کی معیشت بھلے ہی سات یا ساڑھے سات فیصد کی شرح نمو سے آگے بڑھ رہی ہو لیکن یہ اب بھی دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں غریب عوام کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تقریباً 30کروڑ ہندوستانی شہریوں کی یومیہ آمدنی 1.25 امریکی ڈالر سے بھی کم ہے۔ اتنا ہی نہیں ملک میں غذائی قلت کی سطح بلند ہے۔ دنیا میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی کل تعداد کا 40فیصد ہندوستان میں بستے ہیں۔ ملک میں ہردن2,400بچو ں کی موت ہوجاتی ہے یعنی اوسطاً فی منٹ تین بچے زندگی کی جنگ ہارجاتے ہیں اس کا سبب کوئی جان لیوا بیماری کاقہرنہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ غذاکی کمی،نقص تغذیہ اورخون کی کمی ہے۔غذاکی کمی اور ناقص تغذیہ کے مسئلے سے صرف ہندوستان ہی نہیں دوچارہے بلکہ تقریباً تمام ترقی پذیرممالک اس پریشانی میں مبتلا ہیں۔ دنیا میں تقریباً 3 ارب افراد بھوک یا غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسکا انکشاف اقوام متحدہ کے غذا سے متعلق ادارے نے اپنی غذائی عدم تحفظ کی صورتحال رپورٹ (The State of Food Insecurity in the World 2015) میں کیا ہے۔ بھوک اور غذائیت کی کمی کا چولی دامن کا تعلق ہے۔ ہندوستان میں 19کروڑ 7لاکھ لوگ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق، ملک میں روزانہ 19کروڑ لوگ بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔ عیاں ہو کہ باڈی ماس انڈیکس یعنی بی ایم آی(BMI) بھوک کی پیمائش کا ایک بین الاقوامی معیار ہے۔ یہ کسی شخص کے قد کے حساب سے اسکے وزن کی قابل قبول حد بتاتا ہے۔ ایک عام انسان کے لئے بین الاقوامی قابل قبول بی ایم آی کی حد 18.5 ہے۔ 17 سے 18.4 کی بی ایم آی والے کو ناقص غذائیت کا شکار کہا جاتا ہے اور 16.0 سے 16.9 کے درمیان والے کو شدید ناقص غذائیت کہا جاتا ہے۔ اسی طرح 16 سے کم بی ایم آی والے کو بھوک کا شکار کہا جاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 35.6 فیصد خواتین اور 34.2 فیصد مردوں کا بی ایم آی 18.5 سے کم ہے۔
وہیں گلوبل ہنگر انڈیکس 2015(Global Hunger Index) رپورٹ— جسے انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ، کنسرن ورلڈ وائیڈ اور ویلٹ ہنگرالف نے تیار کی ہے— کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے مسلح تصادم کے باعث 800 ملین لوگوں تک پوری خوراک نہیں پہنچ رہی ہے۔ ان ممالک میں آٹھ ممالک ایسے ہیں جہاں پر صورتحال خوفناک حد تک ہے اور ان میں سینٹرل افریقن ریپبلک 46.9 پوائنٹس کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔ اس فہرست میں ہندوستان 25 ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان گیارہویں نمبر پر جہاں صورتحال تشویشناک ہے۔ انڈیکس کے مطابق 2005ء کے مقابلے میں بھوک کی صورتحال میں 9.5 پوائنٹس کمی آئی ہے۔
بھوک اور کم غذائیت کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے خوارک کے شعبے میں کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے نودانیا ٹرسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان تیزی سے دنیا کے ’ہنگر کیپیٹل‘ (Hunger Capital)کے طور پر ابھر رہا ہے۔ وہیں عالمی بینک نے ناقص غذائیت کی اس سطح اور اسکے اثرات کو دیکھتے ہوئے اس کا موازنہ ’بلیک ڈیتھ‘ (Black Death)سے کیا ہے۔ افلاس و بھوک کی آگ سماجی تانے بانے کو بھی تار تار کر دیتی ہے، یہاں تک کہ عزت وعصمت اورایمان کا سودابھی اس کے لئے اہمیت کی حامل نہیں رہ جاتا۔ بقول شاعر ؎
بھرا ہو پیٹ تو انسان مسکراتا ہے
لگی ہو بھوک تو ایمان ڈگمگاتا ہے۔
سماجی تحفظ کے تحت روزگار فراہم کرنے کے معاملے میں عالمی بینک نے منریگا کو دنیا میں پہلے مقام پر مانا ہے۔ بینک نے کہا ہے کہ منریگا ہندوستان کے پندرہ کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ مڈ ڈے میل کے لئے بھی عالمی بینک نے ہندوستان کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا کہ یہ دنیا میں چلایا جانے والااپنی طرح کا سب سے بڑا سکولی پروگرام ہے، اس سے ہندوستان کے 10.5 کروڑ بچے فیض یاب ہوتے ہیں۔ لیکن، یہ توسکے کا ایک رخ ہے۔ دوسرا پہلو دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کی منریگا اور مڈ ڈے میل بدعنوانی کا اڈہ بن چکے ہیں۔ ملک میں ایک طرف ’سمارٹ سٹی‘ اور ’ڈیجیٹل انڈیا‘ کی بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف قریب 27 کروڑ لوگ خطِ افلاس کے نیچے رہ رہے ہیں۔
غربت، ناخواندگی، غذائی قلت کسی بھی ملک کی ترقی کے راستے کی رکاوٹیں ہیں۔ مشہور ماہر اقتصادیات ریگنر نرکسے (Ragnar Nurkse) نے کہا ہے کہ ’’کوئی شخص غریب ہے، کیونکہ وہ غریب ہے۔‘‘ یعنی غریب شخص اپنی غربت کی وجہ سے مناسب خوراک خرید نہیں پاتا اچھا کھانا نہیں کھا پاتا، چنانچہ اس کی صحت ٹھیک نہیں رہتی، جس کی وجہ سے وہ غذائی قلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ ٹھیک سے کام نہیں کر پاتا۔ جب کام نہیں کر پاتا تو اسکو مزدوری بھی نہیں ملتی۔ اور پھر وہ خوراک پر خرچ نہیں کر پاتا، اس طرح غربت کا تباہکن دائرہ چلتا رہتا ہے اور غریب شخص غریب رہتا ہے۔
ہماری حکومت غربت کو کم کرنے کے لئے ہمیشہ خود کو پر عزم دکھاتی رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً طرح طرح کے منصوبوں کے نفاذ کرتی رہی ہے۔ پانچویں پنج سالہ منصوبہ کے دوران اسکے خاتمے کا پروگرام چلایا گیا ایک اہم قدم تھا۔ غربت کے تخمینے اور پیمائش کے لئے حکومت طرح طرح کی کمیٹیوں کی تشکیل کرتی رہتی ہے۔ لیکن ان سب کے درمیان سب سے بڑا سوال یہی ہے کیا حکومت واقعی میں غربت کو کم کرنے کے لئے سنجیدہ و کمربستہ ہے؟ کیونکہ کئی بار حکومت کی طرف سے جاری اعداد و شمار ہی ان سرگرمیوں کی پول کھولتے ہیں۔ قومی نمونہ سروے تنظیم (این ایس ایس او) کی رپورٹ کے مطابق1999-00 میں جہاں ملک میں غربت کا تناسب 26.1 فیصد تھا وہ 2004-05 میں گھٹ کر 21.8 فیصد رہ گیا تھا۔ لیکن 2008ء میں حکومت کی طرف سے قائم تیندولکر کمیٹی نے مانا تھا کہ غربت کا تناسب 37.2 تھا۔
2013ء میں جاری آمدنی اور اخراجات سے متعلق این ایس ایس او سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ تقریبا 60 فیصد دیہی آبادی روزانہ 35؍ روپے سے بھی کم پر گزر بسر کرنے پر مجبور تھی۔ ان میں سے بھی دس فیصد لوگوں کی حالت تو اور بدتر تھی۔ رہنے کے لئے وہ صرف پندرہ روپے ہی روزانہ خرچ کر پاتے تھے۔ یو پی اے حکومت تمام منصوبوں کے ذریعے غربت دور کرنے کے دعوے کر رہی تھی، لیکن خود اسی کے اعداد و شمار ہی ان دعووں کی پول کھول رہے تھے۔
این ایس ایس او کی جانب سے جولائی 2009ء سے جون 2010 ء کے درمیان کرائے گئے سروے کے مطابق دیہی علاقوں میں ایک شخص کا اوسطاً ماہانہ خرچ 1,054؍(ایک ہزار چوون) روپے تھا۔ وہیں شہری علاقوں میں یہ اعداد و شمار 1,984؍ (ایک ہزار نو سو چوراسی) روپے ماہانہ تھا۔ اس حساب سے شہری لوگ اوسطاً 66؍ روپے روزانہ خرچ کرنے کے قابل تھے۔ ویسے دس فیصد شہری آبادی بھی صرف بیس روپے میں گزارا کر رہی تھی۔ یہ رقم دیہی علاقوں سے تھوڑی ہی زیادہ تھی۔ اسی سروے کی مانیں تو ماہ کے اس خرچ کے معاملے میں بہار اور چھتیس گڑھ کے دیہی علاقے کے لوگوں کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی، جہاں لوگ قریب 780؍ روپے مہینے پر اکتفا کر رہے تھے۔ یہ رقم محض چھبیس روپے روزانہ بیٹھتی تھی۔ اس کے بعد اڑیسہ اور جھارکھنڈ کا مقام تھا جہاں فی شخص 820؍ روپے مہینے کا خرچ تھا۔ اخراجات کے معاملے میں کیرالہ سرفہرست تھا۔ یہاں کے دیہی علاقوں کے لوگ 1,835؍ (ایک ہزار آٹھ سو پینتیس) روپے ماہانہ خرچ کرتے تھے۔ شہری آبادی کے ماہانہ اخراجات میں مہاراشٹر سب سے اوپر تھا۔ یہاں فی شخص خرچ 2,437 ؍روپے تھا۔ بہار اس معاملے میں بھی سب سے پیچھے تھا۔ یہاں کی شہری آبادی محض 1,238؍(ایک ہزار دو سو اڑتیس)روپے مہینے پر پیٹ پالتی تھی۔
یو پی اے ادوم حکومت کے وقت 2013ء میں این ایس ایس او کے اندازہ پر ہی منصوبہ بندی کمیشن نے شہری علاقوں میں 28.65 روپے اور دیہی علاقوں میں 22.42 روپے روزانہ کمانے والوں کو غربت کی لکیر سے نیچے رکھا تھا۔ خرچ کی اس سطح کو لے کر اہم اپوزیشن پارٹی نے خوب ہنگامہ مچایا تھا۔ لیکن 2014ء میں بی جے پی قیادت والی این ڈی اے کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد منصوبہ بندی کمیشن نے 32؍ روپیہ دیہی اور 47؍ روپیہ شہری علاقوں میں روزانہ خرچ طے کیا۔ یہ بھی کسی مذاق سے کم نہیں تھا۔ فی الحال دال، سبزی تیل وغیرہ کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ ان سب کے درمیان یہ اعداد و شمار ان غریبوں کا مذاق اڑانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
آج ہندوستان میں دنیا کی سب سے زیادہ افرادی قوت (work force) موجود ہے لیکن وہ بے روزگار ہیں۔ ان کی صلاحیت کا استعمال نہیں ہو پا رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار جیسے جرائم کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ ان کے پاس کوئی جمع پونجی بھی بن نہیں پاتی۔ کل کو جب یہ آبادی بزرگ ہو گی اور ان کے پاس کام کرنے کی طاقت بھی ختم ہو جائے گی، تب ان کی پرورش کون کرے گا۔ سڑک کے کنارے، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ وغیرہ کتنی ہی جگہوں پر بھیک مانگنے والوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسے حالات میں ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک کی قطار میں لانا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ملک کو ترقی کے راہ پر گامزن کرنے کے لئے ملک کے لوگوں کو غذا و تغذیہ کی کمی سے نجات دلانا اور سماجی تحفظ کا نظم و نسق کرنا بہت ضروری ہے۔ آج حکومت کو مضبوط ارادوں اورایمانداری کے ساتھ ان مسائل سے نمٹنے کے عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامع ترقی پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بھوک اور غربت اقتدار کی چولیں ہلا دیگی۔ طنز و مزاح کے مقبول شاعر ساغرؔ خیامی نے کہا ہے ؎
روٹی اگر پائی نہ تو پتھر اٹھائیں گے
بھوکے نہ کبھی بھوک میں ملہار گائیں گے
ریسرچ اسکالر (معاشیات)
ایی میل [email protected]
موبائل9711795373