کم سِن مقتول———-معصوم مظلوم———ننھے شہید———-ہر طرف غم کی آندھی چھائی ہوئی ہے ۔گھر ماتم کدہ نہیں کھنڈر بناہوا ہے ۔ہر طرف سینہ کوبی کا عالم ہے ۔مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دیتا گرچہ لوگ مسلسل بولتے جارہے ہیںکیونکہ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا لگتا ہے اور کان سُن ہوکے رہ گئے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ساری وادی ماتم کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی مسرور ہے کہ تم نے شہادت پائی ہے ۔ بڑا مرتبہ حاصل کیا ہے اور دنیا میں انسانی جستجو کے مدعا و مقصد کو حاصل کرلیا ہے ۔ واقعی یہ ایک بڑی خوشی کی بات ہے ۔
مگر———–مگر میں کیا کروں ،کیسے اس دل کو سمجھائوں ——–میںایک باپ ہوں میرے دل پر جو چرکہ لگا ہے ،میرے جگر پر جو گھائو آیا ہے، اُسے کوئی سہارا کوئی تسلی اور کوئی مرہم بھر نہیں سکتا ،مندمل نہیں کرسکتا ۔
تمہیں شاید یہ بات معلوم نہیں اور اگر ہوتی بھی تو اب اُس کا کیا فائدہ ۔میں نے تکالیف اور سختیاں اٹھاکر اور پیسہ پیسہ جوڑ کر بلکہ تقریباً نصف سے زیادہ اُدھار اُٹھاکر تمہارا کپڑا لتہ ،کتابیں کاپیاں اور ٹیوشن فیس جٹائی تھی ۔ہم دونوں میاں بیوی کے بڑے اَرمان تھے ۔ میری یہ خواہش نہیں تھی کہ تم کل ڈاکٹر بن کر ڈھیر سارا روپیہ کماکر میری گود میں ڈال دوگے ۔میرے وارے نیارے ہوجائیں گے اور میں بڑا آدمی کہلائوں گا ۔۔۔نہیں———میرا ہرگز کوئی ایسا مقصد نہیں تھا ،البتہ جس طرح میں نے عمر بھر خدمت ِخلق کی ہے ،غریبوں کی اپنی استطاعت کے مطابق سخنے،قدمے مدد کی ہے ،روتوں کے آنسو پونچھ کر اُنہیں ہنسانے کی کوشش کی ہے ،بیماروں کی دل جوئی کی ہے ،اُسی طرح ہم دونوں کی یہ خواہش تھی کہ تم ڈاکٹر بن کر ملک و قوم کی خدمت کروگے ،صحیح معنوں میں ایک ڈاکٹر بن کر دکھائوگے اور خصوصاً اُس پیشے کے ساتھ جڑی بدنامیاں اور تہہ در تہہ جمی دھول کو اپنی حسن ِکارکردگی ،اچھے اخلاق اور بہترین تعاون سے صاف کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگے، مگر لگتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ زیادہ ہی خوابوں کے تانے بانے بُنے تھے۔
یہ دُرست ہے کہ جنت صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی عطا ہوسکتی ہے مگر اُس کے لئے تم نے کڑی محنت اور جدوجہد کئے بغیر ہی شہادت پائی اور شہادت کا عوض بلا شبہ جنت ہے ۔یہ کتنی بڑی فخر ومباہات اور سرشاری کی بات ہے مگر———–مگر میں کیا کروں ،میں نے تمہارے جسم پر گولی سے بنا سوراخ اور پیلٹ چھروں کی ایک کہکشاں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے ۔وہ سرخ سرخ اُبلتا ہوا خون جس سے تمہارا اپنا ہی بدن لالہ زار بنا ہوا تھا ،میری آنکھوں کے سامنے رقصاں ہے ،میں اُس دُھندلے دُھندلے اُفق اور پھیلے پھیلے شفق کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہوں——–کرہی نہیں سکتا ۔
تمہارا پیلا پیلا نورانی چہرہ ،نیم و ا آنکھیں ،سکڑے سکڑے ہونٹ اور تنا ہوا دراز بدن میری نظروں کے سامنے ہے ۔میں کیسے اُس بے جان و بے حرکت جسم کو بھول سکتا ہوں۔اُس پر موت کی مُردنی چھائی ہوئی نہیں تھی لگتا تھا کہ یہ جسم ابھی اُٹھ کے میری گردن میں بانہیں ڈال کر شرارتیں کرنے لگے گا مگر افسوس یہ سب خام خیالی اور دل کو بہلانے والی طفل تسلیاں تھیں ۔
تم ایک مقصد بلکہ ایک مقدس مقصد کے ساتھ ایک پُر امن بلا تشدد احتجاج میں اپنی قومی سا لمیت اور امن و آزادی کا نغمہ خوان بن کر نکلے تھے مگر قابض حکمران نے جب منہ پر تالے ،قلم پر قدغن ،سر اُٹھاکر چلنے پرپابندی ،میڈیا ممبران کی مارپیٹ اور تذلیل اور کسی بھی جائز مطالبے کے لئے تعزیر لگادی ہو تو اُس تناظر میں کیا لاٹھی ، کیا پتھر ،کیا تشدد اور کیا پُرامن احتجاج ،سب کو ایک ہی ڈانڈے سے ہانکا جاتا ہے ۔ سب پر ایک ہی مارپڑتی ہے اور سب کے لئے ایک ہی دہانے سے ،ایک ہی نال سے گولیاں اُبھرتی ہیںاور وہ گولیاں پھر عہدہ اور عمر نہیں دیکھتی۔
بہت سارے لوگ تمہارے جنازے کے ساتھ تھے ۔لوگوں کا ایک سیل ِ رواں ،ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ،تمہارا جنازہ میرے کندھے پر تھا مگر مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میں اپنی ہی لاش اپنے کندھوں پر اُٹھاکر لے جارہا ہوں۔بچپن میں ———میں نے تمہیں گود وں کھلایا تھا ۔پیٹھ پر سوارکر کے میں تمہارا گھوڑا بناکرتا تھا مگر یہ کیا ستم ظریفی ہے ،یہ کیسی آزمائش ہے اور یہ کتنا بڑا کٹھن امتحان ہے کہ آج میں نے تمہارا جنازہ کندھے پر اُٹھا رکھا ہے ۔یہ تو بالکل خلاف معمول اور غیر فطری بات ہوئی نا ؟ میں نے تمہیں پالا پوسا ،جوان کیا ۔ اُمید یہی تھی کہ میرے بوڑھاپے میں تم میری لاٹھی بنو گے ،مجھے سہارا دو گے اور اپنے وقت پر مجھے کاندھا دے کر سپرد خاک کرو گے ۔تمہارے جوان اور مضبوط کندھوں پر مجھے کتنی راحت اور سکون ملتا مگر یہ کیسا ظلم ہے کہ تم نے میرے کمزور ، ناتواں اور جھکے ہوئے کندھوں کو اور جھکادیا ——-
میرے ننھے شہید ذرا سوچو اُس وقت میرے دل پہ کیا بیتی ہوگی جب میں نے تمہیں سپرد خاک کیا —–دفنایا ——–منوں مٹی کے نیچے چھپادیا —–اور تم اُسی بوجھ کے نیچے دب گئے ——————–سوگئے———-کھو گئے———-اب تمہیںکوئی نہیں دیکھ سکے گا —————-اب تم کسی کو نظر نہیں آئو گے ——— مگرجو مشعل تم نے روشن کی ہے ،وہ کئی راہوں کو روشن کرے گی ۔آزادی ایک جائز مطالبہ اور ازلی وابدی بشری حق ہے ۔وہ ایک دن ضرور مل کے رہے گی ۔حاصل کرلی جائے گی۔جس صبحِ روشن کا ہمیں انتظار ہے وہ صبح کبھی تو آئے گی مگر آئے گی ضرور ۔اُس کا ہمیں یقین کامل ہے ۔
باپ ہونے کے ناطے میرا زخم کتنا گہرا ہے ۔میرے جسم و جاں کی کیا حالت ہے ۔میرے دل پر کیا بیت رہی ہے وہ کوئی نہیں جان سکے گا ۔زبان میں دَم نہیں کہ اپنے خیالات و جذبات کا کھل کر اظہار کرسکوں ،مگر تصورِ شہادت اور اس کے عوض ملنے والی جنت کے تصور میں روشن ہونے والے چراغ میرے دل میں ہمیشہ تاب ناک اور فروزاں رہیں گے ۔میں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔
میرے بچے الوداع———-الوداع——–خدا حافظ ؎
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ ٔنورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے (اقبالؔ)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995