ستارہ بانو۔جے پور
اس سال کے شروع میں، ہندوستان کے سب سے بڑے بینک ایس بی آئی نے گھریلو استعمال کے تازہ ترین سروے پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے شہری اور دیہی علاقوں میں غربت پہلے کی نسبت کم ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں غربت 2011-12 میں 25.7 فیصد سے کم ہو کر 2022-23 میں صرف 7.2 فیصد رہ گئی ہے۔ اسی عرصے کے دوران شہری غربت میں بھی کمی آئی ہے جو 13.7 فیصد کے مقابلے کم ہوکرمحض 4.6 فیصد رہ گئی ہے۔ اس رپورٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے شہری علاقوں میں رہنے والے غریبوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی ہو گی۔ اس سے ان کے بچوں اور خواتین کو فائدہ ہواہو گا جو کم آمدنی کی وجہ سے غذائیت سے بھرپور خوراک حاصل نہیں کر پاتے اور غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس سے بہت دور ہے۔ ملک کے اب بھی بہت سے شہری علاقے ہیں جہاں غریب گھرانوں میں رہنے والی خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
راجستھان کے دارالحکومت جے پور میں واقع کچی (سلم)بستی ’’راون کی منڈی‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ سیکرٹریٹ سے تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس کالونی میں 40 سے 50 گھر ہیں۔ جس میں تقریباً 300 لوگ رہتے ہیں۔ اس کالونی میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے خاندان رہتے ہیں۔ جس میں جوگی، کالبیلیہ اور میراسی کمیونٹیز بنیادی طور پر شامل ہیں۔ ہر سال وجے دشمی کے موقع پر یہاں راون دہن کے لیے راون، میگھناد اور کمبھکرن کے مجسمے تیار کیے جاتے ہیں۔جسے خریدنے کے لیے جے پور کے باہر سے بھی لوگ آتے ہیں۔ اس وجہ سے اس بستی کو راون کی منڈی کے طور پر جانا جاتاہے۔ وجے دشمی کے علاوہ، سال کے دوسرے دنوں میں، یہاں کے باشندے اسکریپ، بانس سے بنی اشیاء بیچ کر یا یومیہ اجرت پر کام کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔
شہر میں آباد ہونے کے باوجود اس کالونی میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ ان میں صحت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں خواتین اور بچوں میں صحت اور غذائیت کی کمی سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ یہاں کی زیادہ تر خواتین خصوصاً حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔چھ ماہ کی حاملہ 27 سالہ شاردا کی پیلی آنکھیں، سفید زبان اور کمزور جسم اس کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس کا شوہر یومیہ اجرت پر مزدور ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک مہیا کرنے کے لیے آمدنی کافی نہیں ہے۔ رہائش کا سرٹیفکیٹ اور دیگر ضروری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں ان کے ٹیسٹ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہسپتال والے مجھ سے شناختی ثبوت مانگتے ہیں۔ جو اس کے پاس نہیں ہے۔ ایسے میں وہ بغیر کسی قسم کی تفتیش کیے اسے واپس کر دیتے ہیں۔ شاردا کہتی ہیں،’’ہسپتال میں ہمارا معائنہ نہیں کیا جاتا ہے۔ وہیں کبھی کبھی اے این ایم اس کالونی آتی ہیں،لیکن وہ ہمیں دیکھے بغیرصرف کاغذات بھرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔‘‘ درحقیقت اس کچی آبادی میں سب سے بڑا مسئلہ شناختی ثبوت کی کمی ہے۔ تاہم کئی خاندان ایسے ہیں جو یہاں 20 سال سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں۔ لیکن ضروری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے آج تک کسی کا سرٹیفکیٹ نہیں بن سکا۔ اس کی وجہ سے خواتین بھی گھر میں بچے کو جنم دیتی ہیں جس سے بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ بھی نہیں بن پاتاہے۔ اس طرح نئی نسل میں بھی کسی کا شناختی کارڈ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اس کالونی کی خواتین اور بچے سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔
بستی کی 38 سالہ لالی دیوی کا تعلق کالبیلیہ برادری سے ہے۔ اس کمیونٹی کو خانہ بدوش سمجھا جاتا ہے۔ جوزیادہ تر چند مہینوں کے لیے اپنا عارضی ٹھکانا بنا تے ہیں۔ تاہم اس کالونی کے بیشتر کالبیلیا گزشتہ کئی سالوں سے مستقل طور پر یہاں آباد ہیں۔ لالی کے شوہر اور ان کے اہل خانہ بھی گزشتہ کئی سالوں سے یہاں مقیم ہیں۔ لالی بتاتی ہے کہ اس وقت وہ آٹھ ماہ کی حاملہ ہے۔اس کے پہلے سے پانچ بچے ہیں۔ 2 سال قبل شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کی۔ لالی کے سابق شوہر کی عارضی رہائش کی وجہ سے آج تک اس کے لیے کوئی دستاویز یا ماں بچے کا کارڈ نہیں بناہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف انہیں بلکہ ان کے کسی بھی بچے کو آج تک ویکسین نہیں لگی ہے۔ حمل کے دوران خوراک کی کمی کی وجہ سے لالی جسمانی طور پر کافی کمزور ہو گئی ہے۔ اس کا پورا جسم پیلا پڑ گیا ہے۔ جو اس میں خون کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خراب مالی حالت کی وجہ سے وہ کبھی بھی غذائیت سے بھرپور خوراک حاصل نہیں کر پاتی ہے۔ رہائشی سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہسپتال سے آئرن کی گولیاں یا کوئی اور فائدہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ لالی کے مطابق کوئی نہیں جانتا کہ کالونی میں ڈیلیوری کے لیے آنے والی دائی تربیت یافتہ ہے بھی یا نہیں؟ لیکن وہ ڈیلیوری کے ڈھائی سے پانچ ہزار روپے لیتی ہے۔ جو اس کالونی کے معاشی طور پر کمزور لوگوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔
کالونی کی ایک اور خاتون گڈی دیوی کا کہنا ہے کہ غذائی قلت اور بیماری کی وجہ سے ان کا نوزائیدہ بچہ پیدائش کے 15 دن کے اندر ہی مر گیا۔ وہ خود حمل کے دوران کافی غذائیت کا شکار تھی جس سے اس کا بچہ متاثر ہوا اور وہ پیدائش سے ہی بہت کمزور تھا۔ لیکن آدھار کارڈ یا کوئی اور دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچے کا سرکاری اسپتال میں علاج نہیں کروا سکی، جبکہ کمزور مالی حالت کی وجہ سے وہ اسے پرائیویٹ اسپتال نہیں لے جاسکی۔ گڈی بتاتی ہے کہ اس کالونی کی تمام حاملہ خواتین غذائی قلت کا شکار ہیں۔ حکومت کے علاوہ کچھ رضاکار تنظیمیں بھی وقتاً فوقتاً یہاں آتی ہیں لیکن غذائی قلت سے لڑنے کے لیے ان خواتین کی کوئی مدد نہیں کرتا ہے۔تاہم حکومت کو راون کی منڈی جیسی کچی آبادیوں کی غذائی قلت کا شکار خواتین کی صحت کے حوالے سے مزید طاقتور منصوبے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی عورت کسی بھی قسم کی دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے غذائیت اور اسکیموں کے دیگر فوائد سے محروم نہ رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں کام کرنے والی سوسائٹی اور رضاکارانہ تنظیموں کو بھی اپنی ذمہ داریاں سنجیدگی سے ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کی مشترکہ کاوشیں زمین پر نظر آئیں اور شہری غربت میں رہنے والی اس کچی بستی کی طرح دیگر سلم آبادیوں کی خواتین بھی غذائیت سے پاک صحت مندزندگی گزار سکیں۔ (چرخہ فیچرس)