کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بوئے پیڑ ببول کے تو آم کہاں سے پاؤگے۔ یہ محاورہ اس وقت صحیح ثابت ہوا جبگزشتہ دنوں سلمان خان کو کالا ہرن شکار کر نےکے ’’جرم ‘‘ میں عدالت نے 5 ؍سال کی قید کی سزاسنائی ۔اکثر وبیشتر ہم خود کی حفاظت کے لئے اپنے اطراف و اکناف میں ببول کے پیڑ اُگا لیتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر آگے چل کر یہی کانٹے دار پیڑ ہماری راہوں میں بارہا چبھتے رہیںگے ۔ دیکھا جائے تو فلم ستاروں سے لے کر اہم بزنس مین اور دیگر شخصیات تک لوگ اپنے فائدے کے لئے یا اپنے مفادات اور کیرئر کو محفوظ رکھنے کی خاطر ایسے بکاؤ سیاست دانوں سے جُڑ جاتے ہیں جو ببول کے پیڑ کی مانند ہوتے ہیں ۔اسی غرض سے سلمان نے بھائی لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر اپنے گھر میں گنیش پوجا کی ، خو دکو آدھا مسلمان آدھا ہندو کہا، نر یندر مودی کے سنگ کئی پتنگیں بھی اڑائیں ،سوچھ بھارت ابھیان میں اُس ہستی کے ہمراہ راستوں کی صفائی کی جن کے انگ انگ پر 2002 کے گجرات کانڈ کے داغ دھبے بدستورلگے ہیں۔ بہر حال ایک دن کی جیل کاٹنےکے بعد سلمان کو صبح ضمانت پر رہائی ملی ۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح کالے ہرن کو ملک میں’’ انصاف‘‘ دیاگیا ، کاش اُسی طرح اخلاق احمد ، پہلو خان ، نجیب ،جنید ،افرزول کی بے چین روحوں کو بھی انصاف دیا جاتا۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ انصاف کا ترازو کبھی گائے کی طرف جھکتاہے اور کبھی کالے ہرن کی طرف ۔ لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب مرغی اور مچھروں کو بھی ’’انصاف ‘‘دلایا جائے گا یہ کہہ کر کہ یہ بے زبان مخلوق ہیں اور اُن کے ’’قاتلوں‘‘ کو کیسے بخشا جاسکتا ہے ۔ کتنے دُکھ اور افسوس کی بات ہے کہ اخلاق احمد، پہلوخان ،جنید ، افروزل جیسے بے گناہوں کے قاتل آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ پوچھا جاسکتا ہے کیاہندوستان کا قانون صرف جانوروں کے تحفظ کے لئے ہی بنا ہے کہ کسی کاگاؤ رکھشا کے نام پہ وحشیانہ قتل کیا جاتا ہے اور کہیں پولیس کارروائی کا مقصد قاتلوں کو پکڑ نا نہیں بلکہ مسلم گھرانوں کے فریج کو ٹٹولنا ہوتا ہے ۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دورِ حاضر میں یہاں جانوروں کو حقوقِ زندگی حاصل ہیں مگر مسلم اقلیت کے جان ومال کی کوئی قیمت نہیں ۔ غور طلب ہے کہ سلمان خان کو سزاہونے کے بعد کئی لوگوں کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں کیونکہ اس فلمی اداکار کی بدولت ہی ملک میں کئی ایک این جی اوز چل رہی ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں یتیم بچے پل رہے ہیں، بیماروں کا علاج ہورہا ہے ، کئی دیہاتیوں کی پیاس جھانےکے لئے ان رفاہی اداروں کی طرف سے کروڑوں روپیہ خرچ کرکے پانی مفت بہم پہنچایا جاتاہے ۔اس وجہ سے سلمان کا جیل سے باہر ہوناان لوگوں کی زندگی اورخوشیوں کے لئے زیادہ قابل ترجیح ہے بہ نسبت اس کے کہ کالی ہرن کے شکار کے’’ جرم‘‘ میںا نہیں قید وبند میں ڈالا جائے ۔ بے لاگ انصاف کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے قاتل کو از روئے قانون تختہ ٔ دار پر چڑھایا یا جائے پھر شکاری کو قانون کے مطابق ڈیل کیا جائے ۔ یہ کہان عدل ہے ، کہاں کی عقل ہے اور کہاں کی راست روی ہے کہ قاتل آئین و قانون کو ٹھینگا دکھائے اور شکاری کوپانہ زنجیر کیا جائے ؟