ستمبر 1948میں نہ صرف آصف جاہی سلطنت کا حیدرآباد میں خاتمہ ہوا بلکہ متحدہ یا منقسم ہندوستان میں مسلم حکمرانی کی آخری نشانی کا بھی خاتمہ ہوا۔ ایک لحاظ سے آصف جاہ اول کی 1724 ء میں قائم کردہ سلطنت آصفیہ مغل سلطنت کا بھی تسلسل تھی جب کہ ہندوستانی افواج نے 1948ء میں اپنی فوجی طاقت کے بل پر مملکت آصفیہ حیدرآباد پر اپنا قبضہ و تسلط جمالیا۔
560سے زیادہ دیسی یا شاہی ریاستوں میں حیدرآباد سب سے بڑی اور اہم ترین ریاست تھی۔ حیدرآباد کی خوشحالی اور عوام کے بہتر حالات نے اسے ملک کی بہترین ریاست بنادیا تھا۔ آصف جاہی سلطنت کے حکمرانوں جو ’’نظام‘‘ کہلاتے تھے، اندرونی خودمختاری حاصل تھی ۔اس لئے نظام کی پوزیشن دوسرے نوابوں اور مہاراجوں میں مختلف اور منفرد تھی۔ ریاست حیدرآباد کی آبادی ایک کروڑ 64 لاکھ تھی جن میں مسلمان صرف 18 فیصد یا 30 لاکھ تھے۔ اس طرح مسلم اور غیر مسلموں میں آبادی کا تناسب تقریباً 15 اور 85 فیصد تھا۔ گو کہ آصف جاہی سلطنت سیکولر نہیں تھی لیکن غیر مسلموں کے ساتھ کوئی تعصب نہیں برتا جاتا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ 1931ء کی مردم شماری کے مطابق فوج اور پولیس میں غیر مسلموں اور مسلمانوں کا تناسب 74اور 22فیصد تھا اور سرکاری ملازمتوں میں یہ تناسب 65 اور 32 فیصد تھا ،جب کہ آج ان ریاستوں میں جہاں مسلمان خاصی تعداد میں ہیں، وہاں زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے بہت ہی کم ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نظام کے دربار میں نظام اور مملکت کے غیر و خواہ اور وفادار کم تھے اور انگریزوں اورہندوئوں کے وفادار زیادہ تھے ۔ان میں سے چند نام تاریخ کا جز بن چکے ہیں: مثلاً زین یار جنگ، مہدی جنگ، مہدی نواز جنگ، اکبر یار جنگ، عماد جنگ، شہید یارجنگ، ہوش یار جنگ اور منظور جنگ وغیرہ۔ ریاستی انتظامیہ سے وابستہ علی یاور جنگ اور حیدرآبادی افواج کے کمانڈر انچیف حبیب العیدروس نظام سے زیادہ انگریزوں کے وفادار تھے۔ ان غداروں خاص طور پر حبیب العیدروس، علی یاور جنگ اور زین یار جنگ نے نظام اور حیدرآباد کو غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ یہ شاید محض اتفاق ہے کہ جن لوگوں نے حید آباد کو اپنی غداریوں سے تباہ کیا وہ ایک مخصوص مسلک سے وابستہ تھے۔
نظام ہفتم کو سب سے زیادہ عزیز ان کا اقتدار دولت اور خاندان تھا۔ جس طرح آج کل اہم مسائل سے مودی حکومت غیر اہم مسائل کی طرف توجہ باٹنے کی کوشش کرتی ہے، اسی طرح نظام اور ان کے درباری اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے غیر اہم مسائل چھیڑ دیتے ۔ 1940ء میں جب ملک میں تحریک آزادی عروج پر تھی اور ملکی آزادی سے مملکت حیدرآباد کا مستقبل بھی وابستہ تھا لیکن خوشحال ریاست کے درباریوں اور امرأ کو مستقبل کی کوئی فکر نہیں تھی۔ نظام ایک ایسے بادشاہ تھے جن کو مسلمانوں کے مفاد اور مسلم سلطنت کی بقاء کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ اس لئے آزادی کے بعد مملکت آصفیہ کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں کی بلکہ اپنی عیاشیوں میں ڈوبے رہے۔اس سقم کے باوجود نظام نے ریاست کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان ہی حالات کے پیش نظر چند دردمندمسلمانوں نے 1928ء میں مجلس اتحادالمسلمین کا قیام عمل میں لایا۔ 1939ء میں حالات کو دیکھتے ہوئے نواب بہادر یارجنگ مرحوم اور ان کے ساتھیوں نے سیاسی امور میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس طرح مجلس اتحادالمسلمین نے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور شعور پیدا کرنے میں اہم حصہ لیا۔ بہادر یار جنگ کی موت نے (جوبڑے مشکوک اور پراسرار حالات میں ہوئی) نہ صرف حیدرآباد بلکہ ملک بھر کے مسلمانوں کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ۔نظام کی دو بھیانک غلطیوں کا ذکر ضروری ہے : پہلی غلطی تو سرعلی امام جیسے مدبر اور دوربین کو وزارتِ عظمیٰ سے علیحدہ کرنا تھا۔ سر علی امام ریاست میں مسلمانوں کی آبادی بڑھانے کے لئے ریاست کے غیر آباد علاقوں میں ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے مسلمان لاکر مسلم آبادی میں اضافہ کرنا چاہتے تھے لیکن درباری سازشوں اور مہاراشٹرا (ممبئی) سے آنے والے آریہ سماجیوں کی شورشوں اورسازشوں نے سر علی امام کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ حضور نظام کی دوسری غلطی سرمرزا اسمٰعیل جیسے مسلم دشمن اور ہندو پرست قائد اعظم محمد علی جناح کے منع کرنے کے باوجود ریاست کا وزیر اعلیٰ بنانا تھی۔
آزاد اور خودمختار بادشاہ کی حیثیت سے حیدرآباد پر حکمرانی کا خواب تو نظام نے دیکھا تھا لیکن اس کے لئے کوئی تیاری نہیں کی، یہی حیدرآباد کی تاریخ کا سب سے بڑا حزنیہ ہے۔
Ph: 07997694060 [email protected]