ماسٹر طارق ابراہیم سوہل
بدل کے بھیس پھر ہر زمانے میں آتے ہیں
اگر چہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجددوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
(علامہ اقبالؔ)
جب تخلیق کے اس شہکار،اولاد آدم کی رگ و پے میں سفلی صفات اور بہیمانہ عادات کا مہلک مرض سرایت کر جاتا ہے تو انسانی بصیرت اور بصارت کی تماتر قوی مفلوج اور مسدود ہو جاتی ہیں،عقل سلیم کی سرحدیں سکڑ جاتی ہیں،آنکھوں میں چاند اتر آتا ہے،حق و باطل کی تمیز دل و دماغ کی گرفت سے باہر ہو جاتی ہے۔حالت جب اسقدر تنزل کا شکار ہوتی ہے تو سماج میں اضطراب و بے چینی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جس سے طبقہ اہل دل و دانش عین اسی طرح ،نہ صرف رنجیدہ خاطر بلکہ دلبرداشتہ اور آزردہ بھی ہوتے ہیں،جس طرح ہمارے آخری پیغمبرؐ دعوت حق کے رد عمل میں بد عقیدہ منکرین حق کی سرد مہری کی وجہ سے دل گرفتہ اور مایوس ہوتے تھے۔گر کہیں نہ کہیں وہ اس فکر میں سر گرداں ہوتے ہیں کہ اس مرض کا تدارک کیا جائے۔ہر زمن اور ہر زماں،سماجی اصلاح اور کردار سازی کی مشعلوں کو روشن رکھا گیا اور آج بھی انسانیت کا ایک طبقہ سماجی اصلاح اور کردار سازی کی بے لاگ کاوشیں کر رہا ہے۔ البتہ عصر حاضر میں فرنگی تہذیب اور مادی ہوس نے انسانیت کی اکثریت کے اعصاب پے اپنا قبضہ خوب جمایا ہے۔ بایں طور معاشرے پے خرافات کی یلغار کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کی ذمہ داری اور بھی بڑھ چکی ہے۔خاصکر امت مرحومہ کا،اس فرض کو نبھانے کی فکر کا ،دامنگیر ہونا،ایمانی قوت کا مظہر ہے۔خیر امت کے منصب کا تقاضا یہی ہے کہ جب بھی کہیں مخرب الاخلاق واقعات رونما ہوں تو پوری شدت اور حدت کے ساتھ ان واقعات کے محرکات کا تدارک کیا جائے تاکہ انسانی سماج کی تشکیل اعلی اخلاقی اقدار کے سانچے میں ڈھالی جا سکے۔اس ہدف تک رسائی تب ہی ممکن ہے جب ہم اسلامی ضابطہ حیات کے ضوابط و قواعد سے مسلح بھی اور عامل بھی ہوں۔ فی الحال معاشرے کی اکثریت میں پائے جانے والے ایک مرض پے،دلائل کی روشنی میں بحث انشاء الله مفید ثابت ہو سکتی، اس لئے آج ’’کبر‘‘کی نسبت لب کشائی مطلوب ہے۔
’’کبر‘‘فی نفسہ کوئی برائی نہیں ہے بلکہ ایک صفت ہے،ایک وصف ہے جو رب ذوالجلال کے سوا کسی اور کو سزاوار نہیں۔’’کبر‘‘کا لفظی معنی بڑھائی ہے اور بڑھائی صرف اور صرف خالق کائنات کو زیبا ہے۔لیکن کبھی کبھی اور کہیں کہیں جب الله رب العزت اپنے بندوں کو اپنی نعماء سے نوازتا ہے،اقتدار کی مسند نصیب ہوتی ہے،مال کی فراوانی ہوتی ہے،دولت کی ریل پیل ہوتی ہے،علم کا دبدبہ نصیب ہوتا ہے یا سیم و زر کی بہتات مقدر بن جاتی ہے یا پھر اولاد کی لیاقتوں کی بدولت تفوق مل جاتا ہے تو پھر ابلیس کا لشکر داؤ پے داؤ کھیل کر ایسے انسان کے دل میں ایک وسوسہ ڈال دیتا ہے، جس سے وہ انسان اپنی خوش نصیبی کو اپنی برتری سے تعبیر کر کے اپنے سے فروتر افراد کو حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہیں سے اسکے قلب و نگاہ پے ’’کبر‘‘ کے بادل چھا جاتے ہیں اور وہ اپنی اصل اور اپنے ا نجام,دونوں سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ سماج کو ایسے انسانوں سے گھن آتی ہے،مالائکہ متنفر ہو جاتے ہیں،زمین لرزنے لگتی ہے،یگانے اور بیگانے آزردہ ہو جاتے ہیں اور عذاب الٰہی انتظار میں ہوتا ہے ۔وعید سن لیجئے۔
الکبر یاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن ناز عنی فیھما قصمتہ(الحدیث)’’ کبرائی میری چادر ہے عظمت میرا ازار ہے،جو شخص ان دونوں میں مجھ سے نزاع کریگا،میں اسے توڑ دونگا ۔‘‘
لہٰذا کبر یعنی تکبر کرنا گویا الله سے منازعت ہے یعنی لڑنا جھگڑنا ہے۔اس لئے اسکا انجام بلاشبہ عبرت ناک,تکلیف دہ اور کربناک ہے۔
’’ من کان فی قلبه مثقال حبۃ فی خر دل من کبر اکبه الله فی النار علی وجھه‘‘(الحدیث)’’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا ،اسے الله تعالی منہ کے بل جہنم میں ڈالے گا۔‘‘
تکبر واقعی ایک مرض مہلک ہے۔طا ؤس ملائکہ ،ابلیس کے سجدوں نے زمیں و آسماں کی وسعتوں کو بھر دیا اور ابلیس کی امنگیں چہار آتشہ ہوگئیں تھیں مگر بلندی کی انتہا پے پہنچ کر دل میں خیال گذرا کہ میں آدم سے برتر ہوں تو رب ذوالجلال نے قعر ذلت کی اتھاہ گہرایوں کی طرف ملعون و مقہور دھکیل دیا۔
تکبر عزازیل را خوار کرد
بہ زندان لعنت گرفتار کرد
ہمارے معاشرے کے اندر برائیوں کی بھر مار ،مرکز سے دوری یعنی عقیدہ الوہیت سے بے خبری اور قرآنی تعلیمات کے روح پرور پیغامات سے بیگانگی کا نتیجہ ہے ،چونکہ اکثر لوگ اپنے اندر پائی جانے والی صفات و عادات کو محمود و مطلوب تصور کرتے ہیں ،یوں ہر برائی رفتہ رفتہ اسکے باطل معبودوں کی تعداد میں اضافہ ہی کرتی جاتی ہے اور اسی تگ و دو میں زندگی کے شب و روز گذر جاتے ہیں۔مال و منال ،جاہ جلال اور اہل و عیال یہیں چھوٹ جاتے ہیں ،صرف اعمال کی دستاویز گلے میں لٹکی پڑی رہتی ہے اور پھر نہ رکنےوالا اگلا سفر تنگ و تاریک لحد سے شروع ہو جاتا ہے۔
سچ پوچھئے تو تکبر کی برائی ہر مذہب میں مذموم و ملعون ہے جو انسان کے لئے ابدی ذلت کا سامان ہے۔ قارئین بالکل سلیس زبان اور سادہ الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب انسان خود کو دوسروں سے افضل و برتر سمجھنے لگتا ہے تو جان لینا چاہئے کہ اسکے سینے میں تکبر کا پودا ہرا ہو رہا ۔
اس مرض سے محفوظ رہنے کے لئے الله کی وحدانیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے جو کہ نا ممکن ہے تا وقتیکہ شارع علیہ السلام کو الله کا امین سمجھ کر بار امانت کے تقاضوں کی ہر وقت اور بر وقت تعظیم کی جائے کیونکہ یہ ایک سجدہ ہے، جسے تو گراں سمجھتا ہے مگر دیتا ہے ہزار سجدوں سے نجات۔
(رابطہ نمبر 8493990216.)