شکاگو آگ کی دلچسپ خبر
اس آگ کے بارے میں اس وقت ایک اخباری نمایندے نے شکاگو ٹریبون میں رپورٹ چھاپی کہ یہ آگ مسز اولیری کی گائے نے لگادی اور یہ کہ کسی جلتی شئے(لالٹین) کو اپنی ٹانگوں سے ٹکر مار کر آگ پھیلنے میں مدد ملی جب اس گائے کو دوہا جا رہا تھا۔اخبار میں رپورٹ آنے کے بعد عام لوگ اس بات پر بھروسہ کرتے رہے کہ اصل ذمہ دار گائے ہی ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اولیری خاندان مفلس بھی تھے اور آئر لینڈ کے تارکانِ وطن بھی۔انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں شکاگو بلکہ پورے امریکہ میں آئر لینڈ مکینوں کے خلاف غم و غصہ عروج پر تھا ۔تاہم سالہا سال بعد مائیکیل اہیرن نامی اس رپورٹر نے بستر مرگ پر یہ انکشاف کیا اور ا طلاع دی کہ اس نے اخبار کی اشاعت بڑھانے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا تھا ۔آج کل کی ٹی وی چینلوں پر مباحثے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ کئی صحافی اس قسم کی حرکات کرتے ہیں اور ملکی باشندوں کے مختلف گروہوں کے درمیان منافرت پھیلانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ تاہم بہت دیر بعد یعنی ۱۹۹۷ میں اولیری خاندان کو اس الزام سے بری الذمہ گردانا گیا۔ اس آگ کے دوران شہر کی صرف دو عمارتیں خاکستر ہونے سے بچ گئیں ،ان میں ایک چرچ اور آ ب رسانی کا ہیڈ کوارٹر تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں عمارتیں پتھر سے بنی ہوئی تھیں ۔لہٰذا آگ کا کوئی خاص اثر ان پر نہیں ہوا۔تاہم شکاگو انتظامیہ نے یہ فیصلہ لیا کہ دونوں عمارات کو اپنی اصل حالت میں ہی کھڑا رکھا جائے۔کنکریٹ کی فلک بوس عمارتوں کے درمیان پتھر کی بنی ہوئی یہ نسبتاً کم اونچی عمارتیں شانِ رفتہ کے ساتھ ایستادہ ہیں اور تاریخی پس منظر کے نتیجے میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔
چور اچکوں کے میوزیم
امریکی طبعاً دلچسپ قسم کے لوگ واقع ہوئے ہیں ۔وہ جہاں اپنی تاریخی شخصیات اور مواقع کی باتیں یاد رکھتے ہیں، وہیں علاقوں میں کسی بھی زمانے میں موجود رہے ڈکیتوں ، جرائم پیشوں افراد کی معلومات بھی محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔اس کے نتیجے میں شکاگو، جو کبھی دنیا کی جرائم راجدھانی کے نام سے منسوب تھا ، میں پیش آئے یادگارجرائم کی تاریخ کو بھی محفوظ کئے ہوئے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں سیاحتی دلچسپی کے علاقے دکھاتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ جرائم سے وابستہ علاقے یا عمارات یا جائے وقوع دکھانے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔حد تو یہ کہ ایک ٹور کا نام ہی انہوں نے شکاگو کرائم ٹور Crime tour رکھا ہے جس کے دوران ان علاقوں کی سیر کرائی جاتی ہے جہاں جرائم سے وابستہ واقعات پیش آئے۔کالی سی گاڑی میں بٹھا کر شہر کے ان حصوں کی سیر کے دوران جو علاقے دکھائے گئے ان میں سے دو تین کی تفصیل یہاں درج کی جا رہی ہے۔
جان ڈلنجر بدنام زمانہ ڈاکو تھا جو زیادہ تر بنکوں کو لوٹتا تھا اور غریب یا عام لوگوں کو تنگ طلب نہیں کرتا بلکہ ان کی معاشی امداد کیا کرتا ۔اس نقطے پر وہ غریب عوام کا مسیحا بنا ہوا تھا اور اسے رابن ہڈ جیسا مقام حاصل تھا۔چونکہ پولیس کے لئے درد سر بنا ہوا تھا ،اس لئے وہ بھی پوری کوشش میں تھے کہ کسی طرح اسے زیر کیا جائے۔اس دوران ڈلنجر نے کمال چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اصل شکل و صورت چھپانے کے لئے پلاسٹک سرجری کا سہارہ لیا تھاجس سے پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیاتھا۔کئی سال کی کوششوں کے بعد وہ اس کی معشوقہ سے رابط بنانے میں کامیاب ہوئے ۔انا سیج نامی یہ خاتون اصل میں رومانیہ سے آئی تارک وطن تھی جس نے اس وعدے پر پولیس کی مدد کرنے کی حامی بھری کہ اسے دس ہزار ڈالر ادا کئے جائیں اور یہ کہ اسے واپس رومانیہ نے دخل کرنے کی کوشش نہ ہو۔اس استفسار پر کہ پولیس اسے کیسے پہچانے گی، انا نے شمالی علاقے میں ایک فلم دیکھنے کے بعد نکلتے ہوئے کاروائی کا مشورہ دیا اور پہچان کے لئے اپنا سرخ جوڑا اور ڈلنجر اس کے دائیں طرف چلتے ہوئے ہوگا والا پلان ترتیب دیا۔تھیٹر کی مخالف سڑک پار درجن بھر پولیس والے چاق و چوبند کھڑے تھے کہ سرخ جوڑے میں ملبوس انا کے دائیں طرف چلنے والے شخص کو سرینڈر کرنے کے لئے کہا گیا۔ظاہر ہے ان حالات میں لکڑی کے ہتھے والا پستول بردار ڈلنجر کے لئے تین راستے موجود تھے۔یا وہ ہار مان کر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتا، واپس حملہ کرتا یا بھاگ جاتا۔اس نے تیسرا راستہ اپنا کر دوڑ لگائی اور تھوڑی دور جاکر ایک گلی میں گھس گیا لیکن پولیس نے بھی پھرتی کا مظاہرہ کرکے اسے گولی مار دی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈلنجر کی موت کی خبر سنتے ہی علاقے کے لوگ جمع ہوگئے جو ڈلنجر کی ایک جھلک دیکھنے کو ہی بے تاب نہ تھے بلکہ اس کے پاس کی چیزیں حاصل کرکے تحفوں کی صورت رکھنا چاہتے تھے۔ا ن میں گاگل، ملبوسات کے بٹن، گھڑی وغیرہ تو تھیں ہی لیکن جسے کچھ نہ ملا اس نے اپنے رومال نکال کر ڈلنجر کے بہتے لہو میں ڈبوئے۔جیسا کہ ہماری گائڈ نے بتایا خواتین نے اپنے اسکرٹ نیچے کر کے ڈلنجر کے خون کے قطروں سے اپنے دامن بھگو دئے۔المختصر جو کچھ ملا وہ ڈلنجر کی یاد گار کے طور شکاگو کے عوام اپنے ساتھ لے گئے۔تاہم انا سیج کے ساتھ پولیس نے بعد میں انعام کے معاملے میں بے ایمانی سے کام لیا۔دس ہزار کے بدلے پانچ ہزار ڈالر دیکر کام چلایا گیا کہ اگر تم خود ڈلنجر کو زیر کرتی تو پورا انعام ملتا ۔اور بعد میں اسے واپس رومانیہ بھیجا گیا۔
ہیری کیرے ریستوران کا اپنا ایک بڑا سلسلہ ہے ۔اس نام سے کئی علاقوں میں مشہور و معروف جگہیں موجود ہیں جہاں مزیدار کھانے ملتے ہیں۔ڈائون ٹائون شکاگو سات ایونیو پر بلندو بالا عمارت کی پہلی منزل پر یہ وسیع و عریض ریستوراں موجود ہے جہاں کھانے پینے کے لئے گاہک ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں۔تاہم بلڈنگ کے ایک طرف چھوٹے سے دروازے میں سے سیاحوں کو لایا جاتا ہے۔یہ عمارت ہمیشہ سے معروف ریستوران کا محل وقوع نہیں تھی بلکہ تیس چالیس کی دہائی میں بدنام زمانہ ڈاکو فرینک نٹی کا ہیڈ کواٹر تھا۔اندر جاتے ہی سیڑھیاں پڑتی ہیں جن کے ذریعے زیر زمین سرنگ کا کچھ حصہ دیکھا جاسکتا ہے۔اس میں ایک بڑا سیف ہے اور ایک چھوٹی سی کھڑکی کے پاس ڈائری رکھی ہوئی ہے۔ اس ڈائری میں فرینک کے ان تمام دوستوں، خیر خواہوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے نام پتے اور فون نمبرات درج ہیں ْ یہ لوگ اس کے خاص ساتھی تھے۔اس ٹنل میں دیواروں پر اخبارات کے صفحات چسپان ہیں جن میں اس وقت کی خبریں چھپی ہیں جب کئی ڈاکو پولیس مقابلوں میں ڈھیر کئے گئے۔فرینک کی خود کشی کے بعد اس سیف کا بھی پتہ چلا جس میں فرینک نے چوری کئے گئے جواہرات، زیورات اور نقدی وغیرہ جمع رکھی تھی۔
ایک اور نامی گرامی ڈاکو ہایمی ویس تھا جو شمالی علاقے کے گینگ کا سربراہ بنا ۔پولینڈ میں جنما یہ گینگسٹر ۱۹۲۶ء میں ہالی نیم کیتھڈرل کے سامنے مقابلے میں یہ مارا گیا۔کیتھڈرل کی دیوار میں گولی لگنے سے ایک سوراخ پیدا ہوگیا جو اب تک موجود ہے۔
شکاگو شہر کے ڈاوئن ٹائون علاقے میں زیر زمین سرنگوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے جن کی لمبائی کو ئی ساٹھ میل ہے اور یہ چالیس فٹ زمین کے نیچے ہیں۔ان سرنگوں نے شکاگو شہر کے لئے کئی خدمات انجام دیں جن میں زیر زمین ٹیلیفون رابطے، شہر کی بلند عمارتوں سے کوڑا کرکٹ ہٹانے اور ائر کنڈیشن کی ایجاد سے پہلے ٹھنڈی ہوا کا اخراج ہوتا۔یہ سرنگیں ۱۸۹۸ اور ۱۹۰۴ کے بیچ تعمیر ہوئیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کے سراغ رساں ادارے کے علاقائی دفتر اسی علاقے میں واقع ہیں ۔ذیلی عدالتیں بھی اسی علاقے میں موجود ہیں ۔ہمارے گائڈ نے بتایا کہ تفتیشی اداروں اور عدالت کے درمیان خاص الخاص ملزمین انہی سرنگوں کے ذریعے کمرہ ٔ عدالت تک پہنچائے جاتے۔ان ملزمین میں کئی گورنر بھی شامل تھے جس کے سبب انہیں گورنر ٹنل بھی نام دیا گیا۔تاہم اب اس ٹنل نیٹ ورک میں فقط تیس فیصد لمبائی ابھی باقی ہے اور کار آمد بھی ہے۔
شکاگو میں کچھ سال پہلے موجود میونسپل پارک کی تجدید کی گئی اور اسے صدی بدلنے کے واقعے کی مناسبت سے ملینیم پارک Millennium Park نام دیا گیا۔ یہ پارک ساڑھے چوبیس ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور موجودہ صورت میں ۱۶ جولائی ۲۰۰۴ میں کھولی گئی۔اس پارک کو دیکھنے سالا نہ اڑھائی کروڑ لوگ آتے ہیں۔اس کے نیچے پارکنگ اور ریل اسٹیشن بھی ہے اس لئے یہ ایک طرح کا چھت نشین باغ ہے جس کی تعمیر کے لئے درکار رقم کا آدھا حصہ بعض مخیر حضرات نے دان کیا جو کوئی دو سو ملین ڈالر تھے۔تیل کمپنی بی پی کی امداد سے بنا ہوا ۹۳۵ فٹ لمبا پیدل پل سانپ جیسی شکل اختیار کئے ہے ،جو اس پارک سے گزرتا ہے ۔اس میں لوہا اور شیٹ میٹل استعمال ہواہے ۔یہ پارک اور باہر کولمبس شاہراہ کے پار علاقوں کے ساتھ جوڑ کا اہم ذریعہ ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ اس وسیع پارک میں کھیل کود کے کئی حصے ہیں جن میں لان ٹینس، سیکٹینگ وغیرہ کے لئے مخصوص جگہیں قائم ہیں ۔اس پارک سے نکلنے کے بعد میں گاڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک دلچسپ نظارہ دیکھنے کو ملا۔ بلدیاتی امور کے بارے میںاحساس ذمہ داری اور ٹریفک قوانین کی پاسداری امریکی عوام کا خاصا ہے اور اس تعلق سے امریکی کافی باشعور ہیں۔ ٹریفک کا نظام وہاں سختی کے ساتھ عملایا جاتا ہے ۔نزدیک کے چوراہے پر سمت بدلنے کے لئے ایک گاڑی والا جب اپنی باری کا انتظار کرتے کر تے تھک گیا تو اچانک سڑک کے درمیان بنے ڈیوائڈر پر گاڑی چڑھا کر دوسری طرف ہولیا ۔اس طرح اس نے اپنا وقت تو بچالیا لیکن اس پرمجھے اپنے علاقے کے ٹپر ڈرائیور یاد آئے جو اس قسم کی حرکات کرتے رہتے ہیں۔
امریکہ میں بڑی گاڑیوں کا رواج بہت عام ہے ۔یہاں کئی علاقوں میں تیز ہوائیں چلتی ہیں جس کے سبب چھوٹی گاڑیوں کے اُلٹنے کا خطرہ بھی رہتا ہے اور شاہراہوں پر ایک خا ص تیز رفتاری قائم رکھنا پڑتی ہے جو چھوٹی گاڑیوں سے ممکن نہیں ہوپاتی ۔البتہ سوا دو ڈالر میں ایک گیلن تیل ملنے کے سبب ان کی جیب پر زیادہ اثر نہیں پڑتا یعنی ایک لیٹر کی قیمت کوئی چالیس روپے بنتی ہے۔امریکی ابھی بھی فاصلے کے لئے میل، وزن کے لئے پائونڈ اور لمبائی کے لئے فٹ اور گز کا استعمال کرتے ہیں۔ امریکی تین چیزوں کے زبردست مداح ہیں:بیر یا دوسری مشروبات، پالتوکتے اور سائیکل سواری۔سائیکل کا شوق اس قدر عام ہے کہ ہر بڑی چھوٹی سڑک کے ایک طرف سائیکل ٹریک پائی جاتی ہے جس پر شہری سائیکل پر شوق سے سفر کرتے رہتے ہیں۔چونکہ وہاں ہمارے ممالک کے برعکس دائیں طرف چلنے کا رواج ہے، اس لئے ایک دن میں مغالطے میں پڑ کر کسی کی سائیکل سے ٹکرا کر گر گیا۔میرا ہاتھ زخمی ہوا لیکن سائیکل سوار جس کی کوئی غلطی نہیں تھی رکااور مجھ سے خیر و عافیت پوچھ کر یہ اطمینان کرکے ہی کہ زخم زیادہ گہرا نہیں، آگے بڑھا۔امریکی بسوں کے آگے ایک آہنی پلیٹ فارم جیسا بندھا ہوتا ہے جس پر بس میں سفر کرنے والے سائیکل آگے باندھ کر رکھتے ہیں۔سمندری ساحل اور دوسرے سیاحتی مقامات پر جانے کے دوران بھی یہ لوگ اپنی بڑی گاڑیوں میں سائیکل ساتھ لے جاتے ہیں اور وہاں سائیکل چلانے کا مزہ لیتے ہیں۔پالتو کتے بھی ان کی کمزوری ہیں اور ان پر کافی پیسہ خرچ کرتے ہیں ،بلکہ ان کے ساتھ با قاعدہ افراد خانہ جیسا برتائو کرتے ہیں۔مشروبات جن میں الکوہل بھی شامل ہے، کا مزہ لیتے ہوائی یہ لوگ بس اڈوں، ریستورانوں، سیاحتی مقامات یا دوران ِسفر نوش کرتے دکھے جاتے ہیں۔
امریکہ زمینی رقبے کے لحاظ سے وسیع و عریض ملک ہے اور دنیا بھر کے ممالک میں اسے روس اور چین کے بعد تیسرا مقام حاصل ہے۔متحدہ ہائے ریاست امریکہ باون ریاستوں پر مشتمل ہے اور ایک ریاست سے دوسری ریاست جانے میں ہوائی سفر بھی کئی کئی گھنٹے کا ہوتا ہے۔شکاگو میں چار دن گزارنے کے بعد میرا اگلا پڑائو ایریزونا ریاست کے شہر فینکس اور ٹیمپے تھے۔شکاگو کے او ہیر ہوائی اڈے جاتے ہوئے میں اوبر ٹیکسی میں سوار ہوا جس کا ڈرائیور ایک پاکستانی نژاد شہری تھا۔باتوں باتوں میں جب میں نے کشمیر کی بات کی تو وہ فوراً پوچھ بیٹھا کہ کس کشمیر سے۔مظفر آبا د کشمیر سے یا سری نگر والے کشمیر سے ؟ ۔ ہمارے کشمیر کو اپنی زبان میں بھارت کا زیر انتظام ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں کے حالات کے متعلق دریافت کرتے ہوئے اس نے پوچھا کہ آخر کشمیریوں کی ا کثریتی رائے کیا ہے ؟میں نے مختصراً لوگوں کی چاہت کے بارے میں چند جملے کہے ۔کراچی سے آئے اس شخص نے آہ بھرتے ہوئے کہا "ہاں پاکستان کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں۔"
"کشمیر کا مسلہ اس قدر کیوں اُلجھا ہوا ہے؟" اس نے مزید کریدا ۔
" کشمیر افغانستان کی طرح عالمی گیم کا حصہ ہے " میں نے جواباً کہا۔
"کیا ایک چھوٹی سی جگہ بین الاقوامی توجہ کا باعث بن سکتی ہے؟" یہ اس کا اگلا سوال تھا۔
" افغانستان بھی چھوٹا ملک ہی تو ہے لیکن عالمی طاقتوں کی نظریں اس پر جمی ہیں اور علاقے میں اپنی موجودگی قائم رکھنے کے لئے یہ طاقتیں تن من دھن سے مشغول ہیں۔" میں نے جواباً بتایا۔
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی
میرااگلا پڑائو ایریزونا ریاست تھی ۔ فینیکس یہاں کی راجدھانی ہے اور ٹیمپے میں معروف ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی قائم ہے۔ اس کے پانچ کیمپس اور چار علاقائی کیمپس ہیں۔داخلے کے لحاظ سے یہ امریکہ کی بڑی دانش گاہوں میں شامل ہے جہاں ۲۰۱۷ ء میں بہتر ہزار شاگرد زیر تعلیم تھے۔ اسی یونیورسٹی سے منسلک ڈبلیو پی کیری بزنس اسکول ہے جہاں میرا فرزند زیر تعلیم تھا۔مسٹر کیری علاقے کا ایک مشہور بزنس مین تھا جس نے یہ اسکول قائم کرنے کے پچاس ملین ڈالر کا عطیہ دیا اور آج یہ ادارہ دنیا کے مشہور ترین بزنس اسکولوں میں سے ایک ہے۔اسی یونیورسٹی کے فزیکس ڈپارٹمنٹ میں مریخ پر جانے والی گاڑی کا ماڈل تیار کیا گیا جس کا اصل روپ بعد میں ناسا کی جانب سے خلا میں روانہ کیا گیا۔اس گاڑی کا ماڈل یونیورسٹی کے عجائب گھر میں موجود ہے جو ادارے کی اہمیت کا غماز ہے۔
یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کا گریجویشن پروگرام کئی دن تک چلتا رہا ۔بزنس اسکول کا پروگرام ایک نزدیکی اسٹیڈیم میں منعقد ہوا جس دوران بعض ثقافتی پروگرام دیکھنے کو ملے ۔بعد میں ایک ایک کرکے تمام اسٹوڈنٹس کو اسٹیج پر آ کر گزرنا پڑا اور وہاں موجود مقتدر شخصیات نے سندیں ان کے ہاتھوں میں تھما دیں۔سند یافتہ شاگردوں کا نام پکارتے ہی ان کے دوست احباب اپنی خوشی کا اظہار تالیا ں بجا کر یا شور مچا کر کرتے ، بچے اپنے طور جھوم کر خوشی کا اظہار کرتے۔اسکول میں ان چند افراد کا زیر تعلیم ہونا دلچسپی سے خالی نہیں جو اصل میں فوج میں اپنی خدمات انجام دے چکے تھے۔ایک ایسا بھی شخص تھا جس نے افغانستان اور عراق جنگ میں حصہ لیا تھا اور اسے گولی بھی لگی تھی۔ایسے افراد کی امریکہ انتظامیہ اور سوسائٹی میں قدر و منزلت ہے اور انہیں ہر قسم کی سہولیات میسر ہوتی ہیں، جن میں تعلیمی ادروں میںداخلہ اور فیس وغیرہ مفت ملتا ہے ۔پتہ چلا کہ فوج میں شامل افراد اگرچہ ذاتی طور جنگوں میں حصہ لینے کے خلاف ہیں لیکن سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کوئی نہیں کرتا اور جہاں مرنے مارنے کا سرکاری حکم ملے، وہاں وہ تعمیل کرتے ہیں ۔ بحث مباحثے کے دوران یہ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ سرکاری پالیسی کے مطابق بھاشا ادلتی بدلتی ہے لیکن نچلی سطح پر لوگ کچھ نہیں کر سکتے سوائے احکامات کی تعمیل کے ۔
ایریزونا ریگستانی علاقہ ہے، اس لئے یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور موسم گرما میں گرمی کی شدت پچاس ڈگری تک پہنچتی ہے۔سردیوں کے دوران بھی یہاں شدت کی سردی ہوتی ہے۔اگرچہ مئی مہینے میں ابھی اس قدر گرمی نہیں تھی پھر بھی سرد علاقے سے وابستہ مجھ جیسے فرد کے لئے دن میں چلنا پھرنا مشکل ہوجاتا تھا ،تاہم سورج ڈھلتے ہی ہوا پر سکون ہوتی۔ایریزونا علاقے کا ریگستانی نیچر اس وقت امریکی فوجیوں اور عہدیداروں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا جب انہیں عراق کی فوجی مشقوں پر جانے کے لئے افراد کو تیار کرنا تھا ۔ چونکہ عراق میں ریگستانی علاقہ موجود ہے اور علاقے کی نسبت سے فوجیوں کو مشقیں کرنے کے لئے ایریزونا کا انتخاب کیا گیا تاکہ امریکی فوجی حالات سے اچھی طرح مانوس ہوں ۔ عراق کے ریگستانی علاقوں میں پیش آنے والی تپش کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں امریکہ کا اپنا ریگستانی علاقہ سود مند ثابت ہوا ۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکی انتظامیہ اپنے ہر نئے کام کے لئے کس قدر تیاری کے کام کو یکسوئی کے ساتھ انجام دیتی ہے اور کمال مہارت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتی۔
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے علاقے میں چھوٹی ہی سہی لیکن ایک شاندار مسجد آباد ہے جہاں ہم جمعہ کی نماز ادا کرنے چلے گئے۔صاف و شفاف مسجد کے اندر صبر و سکون سے جمعہ کا خطبہ سنا جس کے لئے مسجد کے اندر لاوڈ اسپیکر رکھے گئے ہیں، تاہم مسجد کے باہر ان کی آواز نہیں جاتی ۔اس کے لئے امریکی قانون اور امریکی باشندوں کی صوتی آلودگی سے متعلق بہت زیادہ حساسیت کارفرما ہے ۔یہ لوگ اپنے مذہبی یا دوسرے پروگراموں کے دوران کسی بھی فریق کو پریشان کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔نماز ادا کرنے کے بعد ہم نے صحن ِ مسجد میں کسی میت کے جنازے میں شرکت کی ۔ میر ایک ٹرالی پر رکھی ہوئی تھی جسے بعد میں گاڑیوں کے ایک جلوس میں قبرستان لے جایا گیا۔مسجد کے قریب ہی تجارتی ادارہ قائم ہے جس میں ریستوران اور دوکان وغیرہ شامل ہیں۔مجھے بتایا گیا کہ ایک دن یہاں آکر ایک سفید فام خاتون نے ہلہ غلہ مچایا اور مسجد کے بارے میں نازیبا کلمات کے ساتھ کچھ پتھر بھی مارے ۔پھر مسجد سے وابستہ تجارتی علاقہ دیکھ کر وہ مزید بپھر گئی لیکن ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی مسلمان نے اس خاتون پر حملہ وغیرہ نہیں کیا بلکہ پولیس نے موقعے پر آکر اسے گرفتار کر لیا۔یہ بات سن کر مجھے اچنبھا اس لئے ہوا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ بر صغیر میں پیش آئے تو پولیس آنے سے پہلے اس عورت پر حملہ ہوتا اور پولیس آنے کے بعد اس پر اس حساب سے کیس بنتا کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ سن کر مجھے وہ ویڈیو یاد آیا جو فرانس کے شہر پیرس سے متعلق تھا ۔اس میں کوئی درجن بھر مشتعل افراد جمعہ کی نماز ادا کرنے والوں کے خشوع و خضوع میں مخل ہونے کے لئے سامنے آئے اور شور مچانا شروع کیا۔امام صاحب نہایت اطمینان سے نماز پڑھاتے رہے ۔چند ہی منٹوں میں یہ لوگ تھک ہار کر خاموش ہوگئے اور نماز مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی اپنی راہ لی۔
ایریزونا علاقے میں وہ وادیاں اور کھائیاں بہت مشہور ہیں جو پہاڑوں کے درمیان موسمی تبدیلیوں کے سبب وجود میں آئی ہیں۔ انہیں انگریزی میں Canyonکہتے ہیں۔وہاں کی گرینڈ کنیان پارک کوئی پانچ ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور سرخ رنگ کی تہیں ہزار ہا سال کی موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔تاہم اس علاقے میں جانے کے لئے پہلے سے ہی بکنگ کرنا پڑتی ہے اور مخصوص تعدادمیں سیاحوں کو وہاں جانے کی اجازت ملتی ہے۔
چند دن ایریزونا کے شہروں فینیکس اور ٹمپے میں گزارنے کے بعد لاس اینجلیس جانے کا پروگرام بنا۔یہ کیلی فورنیا ریاست کا ایک اہم شہر ہے ۔ فینکس شہر اور لاس اینجلیس کو ملانے کے لئے شاہراہ موجود ہے ۔یہ شاہراہیں جدید خطوط پر تیار کی گئی ہیں جن پر سفر کافی آسانی سے طے ہوتا ہے ۔ان پر چلنے والی بسیں آرام دہ ہیں اور ان میں ٹائلٹ کی سہولیات بھی میسر ہیں۔اس قسم کی شاہراہوں کی تعمیر اب بھارت میں ہونے لگی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اور بھارت میں ترقی کے لحاظ سے کتنا فرق ہے۔اس شاہراہ پر مختلف جگہوں پر تھوڑی دیر سستانے اور کھانے پینے کے شفاف اسٹال موجود ہیں جب کہ بھارتی شاہراہوں پر یہ سہولیات بڑے ہی بھونڈے طریقے پر موجود ہیں۔ یہاںخود بس اسٹیشنوں پر صفائی ستھرائی کا اعلیٰ انتظام ہے اور بس ٹکٹ آن لائن بھی دستیاب ہوتی ہے بلکہ اس پر چند ڈالر کی رعایت بھی ملتی ہے ۔وقت پر بس اپنے نمبر پر لگتی ہے اور قطار میں مسافر کھڑے ہوکر بس میں سوار ہوتے ہیں۔گرے ہائونڈ نامی بس سروس میں لاس اینجلیس تک کا سفر چار گھنٹے میں طے ہوا جس کے دوران ایک دو جگہ چائے وغیرہ پینے کے لئے میسر تھے۔
(بقیہ اگلے سوموار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
(رابط[email protected]/9419009169 )