لاس اینجلس شہری علاقے میں دلچسپی سے بھر پورٹار پٹس Tar Pits میوزیم ہے جس میںبرفانی عہد سے منسلک کئی حجریے Fossils موجود ہیں۔اس علاقے کی تاریخ دلچسپی سے خالی نہیں۔اصل میں اس کے نیچے سے کولتار موجود پایا گیاہے اور یہاں سے تیل نکالنے کا کام سالہا سال تک جاری رہا ۔اس سے پہلے یہاں نیچے گیس اور تیل موجود رہنے کے سبب بلبلے اٹھتے تھے اور آس پاس جانور پانی سمجھ کر اس جانب چلے جاتے ۔تاہم دلدلی زمین ہونے کے سبب اس میں دھنستے چلے جاتے جو سینکڑوں سال گزرنے کے ساتھ فاسلز میں تبدیل ہوگئے۔آج بھی ان گڑھوںسے بدبو دار گیس خارج ہوتی ہے ۔تفصیلات کے لئے ایک بڑا بورڈ نصب کیا گیا ہے جس پر لا برے اور ٹار پٹس میوزیم کی طرف سے آنے والوں کے لئے خوش آمدیدی ا لفاظ درج ہیں ۔ مزید تفاصیل کے مطابق ٹار پٹس نے ہزاروں برس تک لاس اینجلس کے نباتات اور حیوانات کو ہڑپ لیا ہے ۔ہم اب بھی ان پٹس میں کھدائی جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ فاسلز نکال کر انہیں محفوظ کیا جائے۔ان پٹس سے فاسلز نکل کر ہمیں روزبروز حیران کرنے والی دریافتیں میسر رکھتے ہیں۔برفانی عہد میں ختم ہونے اور باقی رہنے والی چیزوں کے بارے میں اہم تفاصیل موجود ہیں۔ اس مسلسل تحقیقی کاوش سے ہمیں موسمی تبدیلیوں کے بارے میں بھی دریافتیں دستیاب ہوتی ہیں۔
ان پٹس کے بیچ میں دیو ہیکل ماڈل رکھے گئے ہیں جو بڑے ہاتھیوں وغیرہ کے مجسمے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ہاتھی ابھی ابھی دلدل میں پھنسے جا رہے ہیں۔ اس علاقے سے حال حال تک تیل نکالا جاتا جاتا تھا ۔بعد میں میوزیم بنانے کے لئے تیل کے ایک معروف تاجر نے زمین میونسپل حکام کو تفویض کردی تاکہ میوزیم تعمیر ہو۔ ان پٹس کے آس پاس ھینکاک پارک تعمیر ہوئی ہے۔
واپس ایرزونا کے شہر ٹمپے جانے کا پروگرام بنا تو گرے ہائونڈ بس سروس کا ٹکٹ پہلے موجود تھا ۔اپنے مقررہ وقت پر بس اسٹینڈ پہنچے تو عجب بات کا پتہ چلا جو بڑے شہروں میں نہیں ہوتا ۔جہاں روانگی میں منٹوں کی دیر بھی نہیں ہوتی ،وہاں کوئی چار گھنٹے کی دیر سے بس چلنے والی تھی اور حد یہ کہ یہی حال کئی دوسرے روٹوں کی بسوں کا تھا ۔اس پر حیرانگی یہ بھی ہوئی کہ کوئی بھی اہل کار مکمل تفصیل دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔جو لوگ نینو سکینڈوں کا حساب جانتے ہیں ،وہاں چار گھنٹے سے زیادہ کی دیری اچھنبے والی تھی ۔الغرض دیر گئے تک تھکا دینے والے انتظار کے بعد بس چلی اور انہی راستوں سے واپس ایریزونا پہنچایا جہاں سے چار دن پہلے لاس اینجلیس لائے تھے۔رات گئے ہوٹل پہنچنے سے پہلے شام کا کھانا کھایا ۔حلال گایز Halal Guys نام سے ریستوران چین مقبول ہے اور وہاں سے نکل کر ہوٹل پہنچے۔اگلا دن کمرے کے اندر ہی گزرا کیونکہ ایرزونا کے ریگستانی علاقے میں درجہ حرارت چالیس درجے سے اوپر پہنچ گیا تھا اور ایر کنڈیشنڈ کمرے سے باہر نکل کر ٹہلنا یا کوئی اور کام کرنا حفظان ِصحت کے تعلق سے ٹھیک نہیں تھا ۔رات میں نیو یارک کے لئے فلائٹ تھی اس لئے شام ہوتے ہوتے فینکس ہوائی اڈے پہنچے ۔امریکہ میں کوئی بھی خدمت مفت نہیں ملتی ۔اگر ایک بیگ ہوائی جہاز میں لے جانے کی اجازت ہے تو دوسرے بیگ کے لئے کوئی بیس پچیس ڈالر ادائیگی کرنا پڑتی ہے بلکہ بعض ہوائی ادارے ہر سامان کے لئے ادائیگی کرواتے ہیں ۔امریکی ہوائی اڈوں پر تلاشیوں کا سلسلہ بھی سخت ہوتا ہے اور جوتوں ، بیلٹ، رومال وغیرہ اتارتے وقت یہ الفاظ منہ سے نکل ہی جاتے ہیں کہ امریکہ بھلے ہی دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہو لیکن امریکی انتظامیہ کے لوگ ڈرے ڈرے سہمے سہمے سے رہتے ہیں ۔شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ امریکی سرکاروں کی اپنی پالیسیوں نے ان کے لئے دنیا بھر میں کافی دشمن پیدا کردئے ہیں اور اس خوف سے نمٹنے کے لئے انہیں ضرورت سے زیادہ حفاظتی تدابیر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
جہاں امریکہ میں تیار شدہ ملک ہتھیار دنیا بھر میں استعمال ہوتے ہیں، وہیں مقامی طور چھوٹے خود کار ہتھیار امریکی انتظامیہ اور سوسائٹی کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔خبروں میں یہ باتیں آتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ کسی سر پھرے نے اسکول یا ہوٹل وغیرہ پر حملہ کیا اور کئی بے گناہوں کی جانیں گئیں۔پھر شور مچتا ہے کہ امریکہ میں ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگے اور یہ بھی کہ ہتھیار بنانے والے سیاست دانوں کی الیکشن امداد میں حصہ لیتے ہیں، اس لئے انہیں کوئی نہیں چھیڑتا۔تاہم مقامی طور ان لوگوں کی سوچ مختلف ہے۔کسی بھی لائسنس یافتہ شخص نے اس طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ غیر قانونی طور حاصل شدہ ہتھیار استعمال کئے گئے۔اس لئے بقول اُن کے قانون کی پاسداری کرنے والوں کو اس سلسلے میں تنگ نہ کیا جائے۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے امریکی ریاستوں کے درمیان سفر کافی لمبا ہوتا ہے ،اس لئے فینکس سے نیو یارک کا ہوائی سفر بھی کوئی سات گھنٹے کا ہوا اور فینکس اور نیو یارک کے درمیان مقامی وقت میں بھی کوئی اڑھائی گھنٹے کا فرق ہے۔صبح ہوتے ہوتے نیو یارک پہنچے ۔ یہ علاقہ بحر اوقیانوس کے آبی لہروں کے کناروں پر واقع ہے اور ہوائی جہاز سے اس بحر کی بیکراں وسعتیں صاف نظر آتی ہیں۔برقی بکنگ کے ذریعے نیو آرک علاقے میں جو کینیڈی ائر پورٹ سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ ٹیکسی سفر کے فاصلے پر ہے پہنچ گئے۔یہ دو علاقے وسیع سڑک رابطے سے جڑے ہیں ،تاہم اس راستے پر بھی ٹریفک جام ہوجاتا ہے ۔اس لئے میرے پاکستانی ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ واپسی کے وقت ذرا سویرے نکل جائیں کیونکہ اس راستے پر کب ٹریفک کا نظام سست ہوکر دیر کردے، پتہ نہیں چلتا ۔حالانکہ امریکی شاہراہوں پر سیٹلائٹ نظام موجود ہے جس کے ذریعے وقفے وقفے سے اطلاع ملتی ہے کہ سڑک کی نوعیت کیا ہے اور اگر متبادل راستہ اختیار کرنا پڑے تو کہاں سے نکل جائیں۔
ہوٹل پہنچے تو کرائے کی ادائیگی کرنی تھی تاہم پتہ چلا کہ کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ دونوں نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔یہ پتہ کرنے پر کہ کیا نقد ادا ئیگی ممکن ہے منیجر نے ہوٹل میں ہی لگے اے ٹی ایم کی جانب اشارہ کیا ۔وہاں سے نقد رقم تو نکالی لیکن جیسا کہ اوپر بتایا ہے امریکہ میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ، رقم نکالنے پر تین ڈالر کاٹے گئے۔ ادائیگی ہوئی، کمرے کا برقی کارڈ ملا کسی بھی ورکر کی مدد کے بغیر سامان ٹرالی پر چڑھا اور ہم لفٹ کے ذریعے ہوٹل کی ساتویں منزل پر پہنچے ۔شفاف کمرے میں ڈیرا ڈالا۔تھوڑی دیر سستانے کے بعد نہا یادھو یا تو خیال آیا کہ جمعہ کی نماز کا وقت نزدیک ہے ۔مسجد شریف کا محل وقوع جاننے کی بابت گوگل سے رابط کیا تو پتہ چلا ہوٹل سے مسجد تک جانے کے لئے کوئی بیس منٹ کا فاصلہ طے کرنا ہے۔مارٹن لوتھر کنگ جونیر ایوینو سے ہوتے ہوئے اور گوگل نقشے کی مدد سے مسجد پہنچا تو پتہ چلا کہ ابھی نماز میں وقت ہے،کیونکہ یہاں ایرزونا کے مقابلے ایک کے بجائے ڈیڑھ بجے نماز ہونی ہے۔مسجد کے اندر جگہ نہیں تھی، اس لئے باہر فٹ پاتھ پر دریاں ، ترپال وغیرہ نمازیوں کی سہولت کے لئے بچھائے جا رہے تھے، وہ بھی اس سلیقے سے کہ فٹ پاتھ پر سے گزر کر ساتھ والی کالونی کا راستہ کھلا رکھا جا رہا تھایعنی نماز تو نماز لیکن کسی اور کے لئے عبادت باعث ِتکلیف نہ بن جائے۔زندگی میں البتہ پہلی بار یہ دیکھا کہ بعض لوگ یہاں جوتوں سمیت نماز پڑھ رہے تھے اور ان میں سیاہ فام ہی نہیں بلکہ سفید فام لوگ بھی شامل تھے۔ کوئی کسی پر اعتراض نہیں کررہا تھا بلکہ اپنے اپنے طریقے سے نماز پڑھی جا رہی تھی۔ نمازجمعہ کی ادائیگی کے بعد دائیں بائیں دیکھنے کا اشتیاق ہوا تو پتہ چلا کہ مسجد سے جڑی ہوئی ایک عمارت علاقے کا گرجا گھر ہے۔بھلے ہی موجودہ امریکی انتظامیہ سے لاکھ اختلاف ہی سہی لیکن امریکی میں مقیم مختلف مذاہب کے لوگ رواداری اور بھائی چارے سے جینے کا سلیقہ خوب جانتے ہیں۔واپسی پر مارٹن لوتھر کنگ ایونیو پر ایک کتبے پر اس کا قول کندہ ملا،پسند آیا تو اس کی تصویر قید کرلی۔آ پ کی دلچسپی کے لئے یہاں تحریر ہے۔
’’انسانی ترقی خود بخود ہوتی ہے ،نہ یہ نا گزیر ہے۔ حصول انصاف کی طرف ہر ایک قدم قربانی ، برداشت ، جدوجہد ، وقف کردہ انسانوں کی بنا تکان کوششوںاور جنونی کیفیات کا تقاضا کرتا ہے۔"
اگلے روز اقوام متحدہ کی عمارات دیکھنے کا شوق چرایا تو ٹیکسی لے کر وہاں پہنچا۔اوبر ٹیکسی سروس کے ساتھ مختلف لوگوں نے اپنی مہنگی گاڑیاں وابستہ رکھی ہیں جنہیں اُن کے مالک چلاتے ہیں ،جو ضروری نہیں کہ ڈرائیور ہی ہوں بلکہ بڑے عہدوں پر کام کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ریٹائر منٹ لئے لوگ بھی ہوتے ہیں اور کاروبار سے وابستہ افراد بھی۔یہ سن کر کہ میں پیشے سے ایک انجینئر ہوں ،میرے اس ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ میں رئیل اسٹیٹ Real Estateبزنس سے وابستہ ہوں ۔اپنے پرائیویٹ دفتر جاتے ہوئے مجھے کہیں چھوڑنے کا موقعہ ملا تو ہولیا ۔اپنا کام تو کرنا ہی تھا، ساتھ میں کچھ ڈالر کمائی بھی ہو گئی۔مجھے اقوام متحدہ کی عالیشان عمارات کے سامنے چھوڑ دیا ۔یہ اٹھارہ ایکڑ زمین پر پھیلا ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے جو مین ہٹن میں مشرقی دریا کے پاس واقع ہے۔ان دیدہ زیب عمارات کا خاکہ معروف ماہرین طرزتعمیر نے مرتب کیا جن میں آسکر نیمر،لے کاربیوزر اور والس کے ہیرسن شامل تھے۔چار میں سے سب سے بڑی عمارت یعنی سیکر ٹریٹ اُنتالیس منزلہ بلڈنگ ہے جس کی اونچائی پانچ سو چوالیس فٹ ہے۔ساتھ ہی جنرل اسمبلی کی عمارت ہے جس میں بڑے ہال میں ایک ہزار آٹھ سو نشستیں موجود ہیں۔عمارات کے سامنے یواین ممبر ممالک کے پرچم پیہم لہرا تے رہتے ہیں۔
یہاں درجنوں سیاح ادھر ادھر گھوم رہے تھے ،اگرچہ بارشیں صبح سے ہو رہی تھیں اور تیز تھیں۔ سیاح ساتھ والے پسنجر شیڈ کے نیچے پناہ لئے بارش رکنے کا انتظار کر تے رہے لیکن بارشوں نے رکنے کا نام نہ لیا۔ڈرائیور نے بتایا تھا کہ پاس میں ٹائمز اسکوئر دیکھنے کے لائق جگہ ہے جو معروف تجارتی علاقہ اور سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔اس طرف نکل پڑا تو پورا لباس گیلاہوا۔بچتے بچاتے کہیں پناہ لینے کا خیال آیا تو گرینڈ مرکزی ریلوے اسٹیشن پہنچا۔اندر داخل ہوا تو کچھ گرمی کا احسا س ہوا۔کافی دیر تک اندر ہی اندر نظارہ کرتا رہا۔ اسٹیشن سے مشینوں کے ذریعے کہیں کا بھی ٹکٹ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ وسیع و عریض سنٹرل ریلوے میں کاروباری علاقہ موجود ہے جہاں سے خریداری کرنا ممکن ہے ۔اقوام متحدہ کمپلیکس کے باہر جو تصویر فیس بک پر ڈالی اس کے دلچسپ کمینٹ پڑھنے کوملے۔کسی دوست نے مشورہ دیا کہ وزیٹر پاس بنوا کر اندر کی سیر کروں لیکن بارش نے چونکہ پہلے ہی مزہ کرکرا کر دیا تھا، اس لئے معذرت ظاہر کی ۔کئی ایک ودستوں نے از راہ مذاق مشورہ دیا کہ اب جب وہاں پہنچے ہی ہو تومسلٔہ کشمیر سے متعلق بات کی جائے ۔میں نے بھی جوابی مذاق کا ہی سہارا لیا کہ چونکہ آج ہفتہ ہونے کے سبب چھٹی ہے، اس لئے سیکریٹری جنرل سے نہیں مل سکتا ۔کچھ وقت یہاں چہل قدمی گزرنے کے بعد واپس ہوٹل پہنچا تھا کہ اتفاق سے اُسی وقت اقوم متحدہ بشری حقوق سرشتے کی وہ رپورٹ جاری ہوئی جس میں پہلی بار بشری حقوق کے حوالے سے کشمیر کا ذکر عالمی ادارے نے کیا ۔ میں نے فیس بک دوستوں کو از راہ ِ مذاق یاد دلایا چونکہ میں وہاں گیا تھا ، لہٰذامسلٔہ اجاگر ہو نا ہی ہونا تھا ۔ یہ میری ہی کاوش کا گویاثمرہ ہے۔
بارشوں اور ٹھنڈ سے بچنے کے لئے سنٹرل ریلوے کے وسیع ہال میں گھوم رہا تھا کہ اچانک درجن بھر لوگ جمع ہوئے جن کے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ موجود تھے جن میں اس طرح کے نعرے تحریر تھے َ
فلسطینیوں کو آزادی و عزت کے ساتھ جینے کا حق ہے۔
فلسطینیوں کو گھر واپس جانے کا حق ہے۔
فلسطین کو آزادی دو اور اسرائیل کو امریکی امداد بند کرو۔
فلسطینیوں کی زندگیاںاہم ہیں۔
آناً فاناً مظاہرین کایہ مجمع بڑھ گیا اور قریب سو لوگ اس میں شامل ہوئے،ان میں سفید فام ، سیاہ فام، یورپین، چینی جاپانی سبھی شامل تھے ۔ میں بھی اس مجمع میں یونہی شامل ہو گیا ۔ فلسطینیوں کی حالت ِزار کو یاد کر کرکے میری بھی پلکیں بھیگ گئیں۔قریب ہی تین لوگ ، دو مرد اور ایک خاتون، اسرائیل کے حق میں نعرے بازی کرنے لگے ۔یہ تین لوگ’’ دہشت گرد، حماس دہشت گرد ‘‘کے نعرے لگا رہے تھے۔فلسطین کے حق میں نعرے بازی کرنے والی ایک خاتون سامنے کھڑے ہو کر دلچسپ انداز میں گانا گا تی اور باقی مجمع لالا، لا لا کر کے اس کا جواب دیتے۔پولیس کے سپاہی ایک طرف کھڑے رہے ۔قریب پونے گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا ،تاہم پولیس کو کوئی مداخلت نہیں کرنا پڑی کیونکہ اسرائیل کے حق میں لوگوں پر کسی قسم کا حملہ نہیں کیا گیا، نہ ہی انہوں نے کسی شدت پسندی کا مظاہرہ کیا۔مجھے اپنے ہم وطن اور بر صغیر کے عوام یاد آئے، جہاں اپنی اپنی بات ایک ہی جگہ علی الاعلان کہنا کسی بھی صورت ممکن نہیں ۔ اس قسم کا واقعہ یہاں پیش آئے تو کم تعداد والے افراد کے جان کی خیر نہیں۔
اندر کافی وقت گزارنے کے بعد جب بارش رُک گئی اور میرے کپڑے قدرے سوکھ گئے، تومیں باہر آکر شہر کے بازاری حصے میں گھومنے لگا۔ایک فٹ پاتھ پر اشیائے خوردنی بیچنے والے ایک خوبصورت سے کیاسک میں موجود لڑکے سے سوال کیا کہ تم نے یہاں حلال میٹ کا بورڈ لگایا ہے ،یہ تم کہاں سے حاصل کرتے ہو ؟اس نے جواب دیا کہ میں مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھتا ہوں اور یہاں باقاعدہ اس کی سپلائی ممکن ہے۔روٹی اور بیف کا آرڈر دیا ،جتنی دیر یہ تیار ہوا اُتنی دیر اس نے میرا موبائل چارج پر رکھا اور پھر سیر ہوکر’’ ٹائمز اسکوئر‘‘دیکھنے چلا۔اس جگہ کو پہلے’’ لانک ایکر اسکوئر‘‘ کہتے تھے لیکن ۱۹۰۴ میں ’’نیو یارک ٹائمز ‘‘کا دفتر منتقل ہونے کے بعد اس کا نام ون’’ ٹایمز اسکویر‘‘ پڑا۔اس جگہ نئے سال کی شروعات پر گیند نیچے آنے کا منظر دس لاکھ لوگ دیکھتے ہیں۔یہ گیند ایک پول کے ذریعے ساٹھ سیکنڈ میں ایک سو اکتالیس فٹ نیچے آکر نئے سال کا اعلان کرتی ہے۔ البتہ رنگ برنگی روشنیوں سے مزین یہ اسکوئر دیکھنے کا مزا شام کے بعد ہی ہوتا ہے لیکن میں اتنی دیر انتظار نہیں کرسکا کہ مجھے واپس نیو آرک جانا تھا۔شام کو نیو آرک میں ایک ٹیکسی میں سفر کے دوران پاکستان نژاد ڈرائیور نے بتایا کہ اوبر کے ذریعے میری آمدنی اچھی خاصی ہوتی ہے اور مجھے کچھ اور کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
’’آپ کا امریکہ کے بارے میں کیا خیال ہے ‘‘؟اس نے پوچھا۔
’’یہ تو مواقع کی نگری ہے۔جو چاہے حاصل کرے‘میں نے اپنا مختصر تجزیہ پیش کیا۔
’’نہیں پہلے تھی اب نہیں ہے۔پہلے مجھ جیسے کم پڑھے لکھے لوگ بھی موقع حاصل کرتے ۔اب کافی پڑھے لکھے لوگوں کے لئے ہی یہ ممکن ہے‘‘۔ـ اس نے جواب دیا ۔ شاید اس کا اشارہ ٹرمپ سرکار کے بن جانے کے بعد کی امریکی سماج میں تبدیلیوں کی طرف تھا۔
امریکہ میں مجسمہ آزادی Statue of Liberty سیاحوں کی دلچسپی کا خاصا مرکز ہے ۔ یہ بلند مجسمہ جس میں ایک خاتون کو ہاتھ میں مشعل اونچا کرتے دیکھا جا سکتا ہے، اس بات کی نشاندہی ہے کہ امریکی سماج انسانی آزادی کا علمبردار ہے ۔اصل میں رومیوں کی
آزادی کی دیوی کا تصور اس مجسمہ میں عیاں ہے۔ اس کی کل اونچائی تین سو پانچ فٹ ایک انچ ہے۔ یہ اسٹیچو پانی کی جھیل کے اندر ہے اور وہاں تک پہنچنے کے لئے چھوٹے آبی جہاز کا استعمال ہوتا ہے جو نزدیک کے ایک اسپاٹ سے مقررہ وقت کے مطابق چلتے ہیں۔یہاں سے واپسی پر میں اوبر ٹیکسی کو نہ بلا سکا کیونکہ کسی وجہ سے میرے کریڈٹ کارڈ نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔کچھ دیر میں یونہی چلتا رہا یہ سوچ کر کہ شاید نیٹ ورک کا کوئی مسلٔہ ہو اور ہولے ہولے چل کر ایک کراسنگ پر پہنچا اور انتظار کرتا رہا۔ایک سفید فام نے جب سرخ روشنی کے سبب گاڑی روک لی تو میں نے اسے کسی نزدیکی جگہ تک لفٹ دینے کی گزارش کی ،جہاں میں اے ٹی ایم استعمال کرسکتا ۔اس نے خوشی خوشی مجھے گاڑی میں بٹھایا اور کوئی دس منٹ چل کر مجھے شاپنگ ایریا کے پاس اُتار دیا ۔اندر جا کر پتہ چلا کہ وہاں اے ٹی ایم موجود ہے اور اس میں سے پیسہ نکالنے پر کوئی فیس نہیں لگتی۔کم از کم یہاں تک مجھے لفٹ بھی مفت ملی تھی اور ساتھ میں اے ٹی ایم سروس بھی بلامعاوضہ، میں نے اطمینان کی سانس لی۔اس شاپنگ ایریا ء میں ایک طرف کرسیاں رکھی تھیں جہاں بیٹھ کر کچھ کھایا پیا جا سکتا ہے ۔ ہم جس سوچھ بھارت کی ہم بات آج کل سنتے ہیں ،وہ امریکیوں نے نہ جانے کتنی دہائیاں قبل اپنایا ہے ۔ٹائیلٹ کی موجودگی باقی جگہوں کے علاوہ بسوں اور چھوٹے چھوٹے شاپنگ ایریا زمیں بھی موجود ہوتی ہے۔ بہر حال کچھ دیر سستانے کے بعد میں باہر آیا اور پیلے رنگ کی پرائیویٹ ٹیکسی میں بیٹھا جس کا ڈرائیور مصری نوجوان تھا ۔اس نے مجھے چہرے سے ہی پہچان لیا کہ میں برصغیر سے آیا ہوں ۔ کرایے کے طور اوبر کے مقابلے دوگنی رقم کا تقاضا کیا اور کوئی گھنٹہ بھر سفر کرکے نیو آرک ہوٹل پہنچادیا۔
یہ وہاں میرا آخری دن تھا کیونکہ اگلے رو میرا پروگرام واپس دلی لوٹنے کا تھا ۔شام کو میں یونہی بازار میں گھومنے نکلا ،یہ سوچ کر کہ ڈنر بھی وہیں سے کیا جائے۔واپس مڑتے وقت اندھیرا چھا چکا تھا، حالانکہ امریکی شہروں میں روشنی کا ایسا انتظام ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا رات ہو چکی ہے۔ تاہم سڑکوں اور بازاروں میں انسانی آمدورفت اورچہل پہل کم ہونے کے سبب اس بات کا احساس ضروری ہوتاہے کہ اب رات کا وقت ہے۔فٹ پاتھ پر سے ٹہل کر واپس آتے ہوئے کچھ بھکاری ملے جو ڈالر ڈالر پکار کر بھیک مانگ رہے تھے۔عام طور پر امریکی گٹار بجا کر بھیک مانگتے ہیں یا اپنے سامنے ایک بورڈ پر گزارش لکھ کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر راہ گیر ُانہیں کچھ دے دیتے ہیں ۔تاہم اس راستے پر ایک دو لوگ جو مجھے بھیک مانگنے کے لائق لگے ،اُن کے ہاتھ میں نے کچھ ریز گاری تھما دی۔تھوڑی دوری پر ایک جوان اور طاقت ور دِکھنے والا شخص بھی خیرات کا تقاضا کرنے لگا ۔میں انکار کرتے آگے چلا تو اس نے پیچھے سے آواز لگائی ۔
’’میں دکھاتا ہوں میں کس قدر تیز دوڑ سکتا ہوں ‘‘۔مجھے لگا وہ شراب کے نشے میں دُھت ہے اور میں نے جو تیز قدمی سے کام لیا تو وہ رُکنے پر مجبور ہوگیا ۔پھر بھی دل میں گھبراہٹ سی محسوس ہو رہی تھی جس کے نتیجے میں غلط راستے پر آگے نکل گیا ۔اس بات کا احساس ہوتے ہی میں نے گوگل سے مدد مانگی جو گائیڈ کرتا رہا اور صحیح راستے پر لا کر مجھے ہوٹل پہنچا گیا ۔
رات گزرگئی اور صبح ٹیکسی منگا کر کینیڈی ائر پورٹ کی جانب چل نکلا ۔راستے میں ڈرائیور اس بات پر حیران تھا کہ پیر ہونے کے باوجود ہائے وے پر کوئی زیادہ ٹریفک نہیں اور نہ ہی کہیں ٹریفک جام کی صورت نظر آئی۔ائر پورٹ پر کچھ گھنٹے انتظار کے بعد ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی باری آئی ۔امریکی ہوئی اڈوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں جہاز انتظار گاہ کے بالکل قریب آکر رُکتے ہیں اور کسی بس سروس یا دور تک پیدل مارچ کی نوبت نہیں آتی ۔ مجھے جہاز اور انتظار گاہ کے درمیان اس کم فاصلے پرایسا لگا جیسے ہم نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور باہر جہاز کھڑا تیار پایا ۔تاہم مسافروں کو طیارے کے عملے سے بلاوا اُس طرح آتا ہے کہ پہلے بزنس کلاس کے مسافر چڑھتے ہیں یعنی ٹکٹ کی ادائیگی کے حساب سے مسافروں میںEconomic Racism معاشی بھید بھائو کا جانے انجانے ارتکاب ہوتا ہے۔کوئی تیرہ گھنٹے کے سفر کے دوران کھانا پینا وغیرہ طیارے میں پیش کیا جاتا ہے اور سیٹ کے عین سامنے لگے ٹی وی اسکرین پر من پسند پروگرام دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ انتظام مسافروں کی اُکتاہٹ کم کر نے کے لئے موزون ہے تاکہ طویل سفر آرام وسہولت کے ساتھ کٹ سکے۔
اُنیس دن طویل امریکہ کی مختصر سیاحت کے بعد یہ سفر دلی پہنچ کر اختتام کو پہنچا۔ اس سفر کی حسین یادیںدل میں نقش ہیں کہ بڑے شہروں کی باتیں بھی بڑی ہی ہوتی ہیں!! .
(ختم شد)
(رابط[email protected]/9419009169 )