شبنم بنت رشید
آج میرے پوتے کا جنم دن تھا۔ عجیب منتظر تھا۔ میرا دل بڑا بھاری ہو رہا تھا۔ میں آج بہت کچھ کہنا چاہ رہی تھی اپنے ماضی کے بارے میں، اپنے بیتے ہوئے دنوں کے بارے میں مگر کہوں کسے اور کون سنے گا یہ میری داستان ۔کافی سوچنے کے بعد یہ خیال آیا کہ کہنے سے تو بہتر ہے لکھنا کیونکہ ابھی بھی انگلیوں میں لکھنے کی تھوڑی بہت طاقت اور قوت تھی۔ اسلئے اپنے تکیے کے نیچے رکھے قلم اور ڈائری نکالی اور سوچنے لگی کہ کیا لکھوں؟ کہاں سے شروع کروں ؟مجھ سے تو ہر کسی کو کوئی نہ کوئی شکایت ضرور رہتی ہے شاید میرے مزاج کو آج تک کوئی نہ سمجھ سکا۔ بیتے دنوں کو یاد کرتے کرتے نہ جانے کیا کیا یاد آیا۔ خیر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ کون میرے بارے میں کیا سوچتا ہے، کیا کہتا ہے لیکن کبھی کبھار دل بھر جاتا تھا جس سے میری آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھر جاتیں اور تمھیں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب یہ آنسوؤں کے قطرے موم کی طرح گالوں پر جم جاتے تھے۔
رب تو رب ہوتا ہے اُس نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر نوازا تھا۔ ایک منفرد ہمسفر، ایک فرمانبردار بیٹا اور انتہائی شریف طبیعت کی بیٹی بھی عطا کی۔ بہو بھی بڑی بھولی ملی۔ بظاہر اُسکے اندر کوئی خرابی نہ تھی اور آج تک گھر کی کوئی اچھی یا بری، بڑی یا چھوٹی بات گھر کی چار دیواری سے باہر نہ گئی۔ اُسکے ہاتھ میں بڑا ذائقہ تھا اور گھر کو ترتیب سے رکھنے میں بڑی ماہر اور تجربہ کارتھی۔ کسی بنت حوا کے اندر اتنے گن ہوں، بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ یہ تو میں اچھی طرح سے جانتی تھی مگر وہ بھی میرے اندر کیڑے نکالنے کی عادی ہو چکی تھی۔ خیر بیٹے نے تو اپنے ابا کی زندگی میں ہی ہم دونوں کو اپنے خرچے پر بیعت اللّٰہ کی زیارت کرائی۔ ابا کے چلے جانے کے ایک سال بعد میرا عمرہ بھی کرایا۔ خیر میں تو اپنے ہمسفر کے چلے جانے کے بعد بالکل اکیلی اور تنہا سی ہوگئی۔ مانو تو جیسے میری دنیا فنا ہوگئی مگر میں نے خود کو سنبھالا، سمجھایا کیونکہ میرے اندر ابھی بھی جینے کے خواب موجود تھے۔ اسلئے پہلے ، کی طرح میں گھر کے اکثر کام بڑی زمہ داری، ہمت اور خوشی سے نپٹا لیتی تھی۔ شاید اسلئے میں سب کے لئے ضروری بھی تھی اور سب کو مجھ لگاؤ بھی تھا اور محبت بھی۔
سنا تھا زندگی ایک مشکل سفر ہے اور انسان ایک مسافر، وہ تو میں نے زندگی کو جی کے دیکھ لیا زندگی بڑی خوبصورت بھی ہوتی ہے لیکن کبھی کبھار اسکا دائرہ اتنا تنگ ہو جاتا ہے جو واقعی تنگ کرتا ہے۔ میں نے تو زندگی کے اس سفر کی شروعات میکے کے سہانے سفر سے کی جہاں بچپن میں ڈوپٹہ اوڑھ اوڑھ کر سہیلیوں کے ساتھ گھر گھر کھیلنا پھر آئینے کے سامنے کاجل لگا کر سجنا سنورنا پھر دل کے اندر خود ہی خود کی تعریف کرنا، کبھی شرمانا پھر اپنے نرم ملائم ہتھیلیوں میں مہندی کے نقوش کے اندر کسی کا لکھا نام محسوس کرنا، کبھی پھر خوش ہو ہو کر اداس ہونا تو پھر اس سہانے سفر کے ماحول کو پیچھے چھوڑ کر اپنے آپ کو رب کے سپرد کرکے وہاں سے رخصت ہونا پھر سسرال کے ماحول کو سمجھنے کا سفر۔ اس سفر کے اندر پھر اس سفر کے ماحول میں اپنی اہمیت جتانے کا سفر، اس کے اندر اپنی ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کا سفر۔ اس سفر کے اندر اپنے ہمسفر کے ہر حکم کی تعمیل کرنے کا سفر اور اس سفر کے اندر بچے جننے، انہیں پالنے، پوسنے انہیں پڑھا نے اور بڑا کرنے اور چار پیسے کمانے کے قابل بنانے کا سفر۔ اس سفرکے اندر کئی کئی جسمانی اور ذہنی تکالیف جھیلنے کا سفر پھر اپنے گھر کو مزید درست کرنے اور ترتیب دینے کا سفر۔ اس سفر کے اندر ماں باپ کے چلے جانے کا سفر پھر اس سفر کے اندر نئی ذمہ داریوں کا سفر یعنی کسی اجنبی کو اپنے جگر کا ٹکڑا سونپ دینے اور کسی کے جگر کے ٹکڑے کو اپنے جگر کے ساتھ پیوست کرنے کا سفر۔ پھر اپنے ہمسفر کے چلے جانے کا اذیت ناک سفر ان تمام سفروں کے بیچ کبھی ٹھہراؤ اور سکون کے دو پل بھی نصیب نہ ہوئے۔ ان تمام سفروں نے وقت سے پہلے تھکادیا اور وقت سے پہلے میرے جسم کے اعضاء جواب دینے لگے، نظر یں تو دھندلی ہوگئیں ساتھ ساتھ کالے سیاہ بالوں پر برف پڑھنے لگی۔ میرا مضبوط وجود آہستہ آہستہ ڈھیلا پڑنے لگا اور اب نہ کہیں آنا نہ جانا ،دھیرے دھیرے زندگی سکڑ کر ایک کمرے تک محدود ہوگئی جس وجہ سے گھر کے اندر میری ذات کی اہمیت کم اور بےدام اور فالتو سی ہوگئی۔ کمروں اور الماریوں پر تالے چڑھنے لگے ۔ یہ تو ایک مشکل ترین سفر کی پہلی سیڑھی تھی ایک آزمائش تھی جسکو میں آسانی سے نہ سمجھ سکی اور نہ قبول کرسکی۔ اسلئے شاید میں یاد رکھنے والی باتوں کو بھولنے لگی اور بھولنے والی باتوں کو یاد کر کر کے بتانے لگی اور خود کلامی کرنے لگی۔ گزرتے وقت کے ساتھ زندگی نے جب طول پکڑ لیا تو زندگی ایک بوجھ لگنے لگی، شاید اس عمر میں ماضی کی محنت جوانی کے کارنامے اور کامیابیاں زمین جائدادیں سب کچھ بے معنی ہو جاتیں ہیں۔ انسان کی ذات قابل رحم ہو جاتی ہے۔ اپنے جسم کے اعضا بے وفاء ہو جاتے ہیں۔ سگے رشتوں کے جذبات اور احساسات کی روحیں نکل جاتی ہیں۔
قدم قدم پر بے رخی کے سائے اور آزمائشوں کے گہرے گڈھے ملتے ہیں ۔ اپنے ہی گھر میں انسان کی حالت در کے مسافر کی طرح ہو جاتی ہے ۔ زندگی کے یہ انمول دن قید میں گذارنے پڑتے ہیں۔ اسی وقت ایک انسان کو کسی کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انسان دو میٹھے بول سننے کے لئے ترستا ہے۔ کوئی سیدھے منہ بات کرے تو یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ خیر آج میرے پوتے کا جنم دن تھا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ڈھیر ساری چیزوں کی لسٹ بنا کر کئی دن پہلے ہی منگا کر دھوم دھام سے منایا جارہا تھا۔ اندر باہر عجیب منظر تھا۔ باہر سرد موسم اپنے عروج پر تھا۔ سرد ترین لمبی راتوں اور کٹھن سرکش دن محو رقص تھے۔ دوپہر کو ہی برف کے گہرے اور دل کو گھبرانے والے سائے شام کا منظر پیش کر رہے تھے۔ میرے کمرے کے اندر بھی چار سو ویرانی اور سکوت طاری تھا لیکن کمرے کے باہر پورے گھر میں بہو کے میکے سے آئے ہوئے بچوں اور محلے کے بچوں نے کافی ہلہ گلہ اور دھما چوکڑی مچا رکھی تھی۔ شاید پورے گھر کو اندر سے سجایا اسلئے جارہا تھا تاکہ بڑے ہاو بھاو اور لوازمات کے ساتھ کیک کاٹا جائے گا۔ میں بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ صبح سے میں نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ ٹھنڈ کے ساتھ کافی بھوک محسوس ہورہی تھی جس سے میرا سر درد سے پھٹا جارہا تھا اور میری حالت غیر ہوجا رہی تھی۔ نہ جانے آج کھانے کے دو نوالے دینے میں اتنی دیر کیوں لگا دی گئی۔ صبح سے کسی نے میرے کمرے کا دروازہ کھولنے کی زحمت تک نہ کی۔ جیسے تیسے ڈھلتی شام کو دروازہ کھلا تو میرا پوتا پلیٹ میں ایک کیک کا پیس میرے سامنے رکھ کر واپس چلا گیا۔ اس سے پہلے کہ میں اسکے ماتھے کو چوم کر اسے جنم دن کی مبارکباد دیتی رزق دیکھ کر میں اتنی خوش ہوئی کہ ایک ہی لقمے میں میںنے سارا کیک کھالیا مگر بھوک تب بھی نہیں مٹی۔ کچھ اور کھانے کی خواہش ہورہی تھی اسلئے آوازیں دے دے کر پوتے کو بلایا تو بدلے میں بہو نے دروازہ کھول کر پوچھا ایسی کون سی آفت آن پڑی ہے کہ آپنے آسمان سر پر اٹھا لیا؟ بہو برا نہیں ماننا مجھ کو زوروں کی بھوک لگی ہے۔ اگر کچھ سالن روٹی کچھ بھی رسوئی میں موجود ہو تو۔۔۔؟ میں نے ڈرتے ڈرتے بہو سے کہا۔ کیوں ایک چھوٹے بچے کی طرح تنگ کر رہی ہو؟ ہماری خوشی کا تو نہیں اپنی عمر کا ہی لحاظ کرو۔ آپکو معلوم نہیں صبح سے ہم کتنے مصروف ہیں۔ بہو کھری کھری سنا کر واپس دروازہ بند کر کے چلی گئی۔ مگر میرا وجود دہل اٹھا۔ شاید اب میری ذات سے کسی کو کوئی دلچسپی نہ رہی۔ آئندہ خیال رکھوں گی اور اب یہ بات کبھی نہ دہراؤں گی۔ اپنے آپ سے وعدہ کیا۔ مجھے اپنا درد صبر کے ساتھ اچھی طرح چھپانا آتا تھا اور بچپن سے اپنا دکھڑا کسی کے سامنے سنانے کی بالکل بھی قائل نہ تھی۔ اسلئے شدومد سے اپنے رب سے صبر کی دعا مانگی کیونکہ در بدر بھٹکنے کی رسوائی سے بہتر ہے کہ دل پر صبر کا پتھر رکھا جائے۔ صبر ہی تو اس آخری سفر کو اختتام تک پہچانے کا واحد راستہ ہے اور میں کر بھی کیا سکتی تھی۔ اسلئے ایک چھوٹے بچے کی طرح ہاتھوں کی پشتوں سے اپنے آنسوں صاف کئے۔ دھیرے دھیرے میری گرفت قلم پر سے ڈھیلی ہوتی جارہی تھی۔
نہ اب وہ لڑکپن ہے نہ اب وہ جوانی ہے
وہ الگ کہانی تھی اب یہ الگ کہانی ہے۔
���
پہلگام اننت ناگ ،کشمیر
فون نمبر 9419038028