ہندوستان میں مسلمانوں کی تقدیر کوتعلیمی سطح پر جن لوگوں نے بدلنے کا کام کیا ان میں سب سے اہم نام سیرسیّد احمد خاں کا ہے۔ انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے اسے رہتی دنیا تک امت مسلمہ فراموش نہیں کر سکتی کیونکہ سر سید علیہ رحمہ نے نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی قسمت کو سنوارا بلکہ پورے ملک کو علم کی شمع سے روشن کرنے کا کام کیا۔سرسید سے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ وہ مسلمانوں کے لئے نشاۃ ثانیہ کی علامت ہیں، جدید ہندوستان کے معمار، عظیم مصلح قوم، ادیب، صحافی، دانش ور، مفکر قوم، مدبر اور نہ جانے کن کن خوبیوں کے مالک تھے محض قومی خدمت اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے دنیا میں آئے تھے تو غلط نہ ہوگا۔ ہر لمحہ ان کو ایک ہی فکر تھی کہ کس طرح ملت اسلامیہ کی تعلیمی بدحالی کو دور کیا جائے تاکہ وہ جدید تعلیم کی روشنی میں اپنے مسائل کا تدارک کر سکے کیونکہ سر سید نے اپنی آنکھ سے جہالت کی زنجیروں میں قید مسلمانوں کوظلم زیادتی برداشت کرتے بے بسی کی حالت میں دیکھا تھا اوربعد میں یہی تاریخ خون سے رقم کی گئی۔سرسید ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اپنی قوم کی حالت پر محض آنسو بہاکر رہ جاتے۔ انہیں قوم کو اس بدحالی سے نکالنے اور موجودہ حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے صرف تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار نظر آیا جس کو مسلمانوں کو عزت کی زندگی بسر کرنے اور ان کو کھویا ہوا وقاردلانے کے لئے انگریزوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا تھا۔ سرسید کا یہی تصور محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام کا سبب بنا ۔اس دانش گاہ کے قیام سے سرسیدکا مقصد صرف قوم کو تعلیم یافتہ بناکر عزت کی زندگی بسر کرنے کے لائق بنانا نہیں تھا بلکہ قوم کو اس قابل بنانا بھی تھاکہ اس کے فرزندجہاں جائیں اپنی منفرد شناخت قائم کریں، وہ جس مقام پر ہوں وہاں ان جیسا دوسرا کوئی نہ ہو۔سر سید کا یہ فلسفہ حیات کس قدر قوی و مضبوط تھا کہ وہ اپنی قوم کے ہر نوجوان کے ایک ہاتھ میں سائنس اور فلسفہ تو دوسرے ہاتھ میں قرآنِ پاک اور ماتھے پر لا الہ اللہ کا تاج جگمگاتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے اور اپنے اس خواب حقیقت کو انہوں نے اپنی زندگی ہی میں پورا کرکے دیکھااور آج سر سید کے انتقال کے ایک سو اکیس برس گزر جانےکے بعد بھی ہر نو نہال امت ان کے اسی فلسفہ کی جانب نہ صرف مسلسل گامزن ہے بلکہ اپنے بزرگ محسن کو ہر گام پر خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔اس عظیم الشان درسگاہ کے بانی سرسید آل رحمۃ کو درسگاہ کی بنیاد رکھتے وقت یہ یقین ضرور رہا ہوگا کہ ایک نہ ایک دن یہ ادارہ وسیع پیمانے پر ملک وقوم کی خدمات انجام دے گا اور قوم و ملت کے مفلوک الحال افراد کو تعلیم کے زیور ات سے آراستہ کرکے ان کی زندگی بہتر بنائے گا اور ان کو علم کی تشنگی سے سیراب کرے گا۔ قوم نے بھی سرسید کے اس یقین پرلبیک کہا سر سید کے اس خواب کی پہلی تعبیر 1920 میں یونیورسٹی کی منظوری کی شکل میں مسلمانان ہند کو حاصل ہوئی اور اس کے بعد سرسید کے رفقاء اور مقلدین نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو چار چاند لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔حالانکہ اس عظیم الشان ادارہ کی ترقی و ترویج میں بہت سارے محسنوں کو سیاسی چقلسوں اور ہنگاموں کا سامنا بھی کرنا پڑا خود سرسید ؒپر کفر و الحاد کے فتوے لگائے گئے ،یہ بھی کہا گیا کہ سیرسیدکی تحریک نوجوانوں کو تعلیم کے نام پرمذہب سے دور گمراہی کی جانب لے جا رہی ہے اور یہ تعلیم ہندوستانیوں کو اپنی تہذیبی اقدار سے محروم کردے گی اور قوم کو ایک مصنوعی زندگی اور نمائشی اخلاق کا عادی بنادے گی ۔سر سید کی مخلصانہ کاوشوں پر اس قدر تنقید یں کی گئیں کہ الاماں والحفیظ۔ ان پر نکتہ چینی کی گئی سرسید اپنے کالج کے ذریعہ مغربی تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں لیکن انہوں نے ملت اسلامیہ ٔ ہند کو تعلیمی روشنی سے جہالت کی تاریکی سے باہر نکالنے کا جو عزم کیا اس کو تمام مخالفتوں کے با وجود جاری رکھ کرپورا کیا ۔سر سید نے اپنا سر چشمۂ علم سر زمین علی گڑھ سے جاری کیا تھا، ان کا خواب تھا کہ اس علم کے چشمہ کے سوتے دور دور تک پھو ٹیں اور آنے والی ہزاروں لاکھوں نسلیں اس سرچشمہ علم سے سیراب ہوکر دنیا کے گوشہ گوشہ میں تعلیم وآگہی کے پیغام کو عام کریں۔ انہوں نے مفلوک الحال مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے مختلف مقامات جیسے بریلی،اٹاوہ،بدایوں غرض کے بہت سے مقامات پر اسکولوں اور کالجوں کا قیام کیا تھا تاکہ ہماری قوم کے زیادہ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل کرکے معاشرے سے جہالت کی تاریکی کومٹا سکیں۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ ایم اے او کالج سے مسلم یونیورسٹی تک اس ادارے کے فرزند جہاں بھی گئے انہوں نے نہ صرف علی گڑھ بلکہ ملک کا پرچم بلند کیا ان میں ملک کے نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری کا نام دور حاضر میں مثالی طور پر سر فہرست رکھا جا سکتا ہے ۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں دانش گاہِ سید کے فرزندان نے وہ وقار و افتخار حاصل نہ کیاہوجو کسی دیگر ادارہ کا نصیب نہ بن سکا۔تہذیب و تمدن ،ثقافت وروایات کی نشرو اشاعت کی کوئی عملی شکل نہیں ہوتی۔بنگالی،ملیالم،مراٹھی،تمل ، تیلگو،اڑیہ زبانوں والے افراد کے صوبوں یا شہروں تک سر سید کا پیغام پہنچانے کی مخالفت سر سید تحریک اور ان کے مشن سے انحراف ہے۔جب ان کی تحریک عام ہوگی اور بچے تعلیم یافتہ ہوں گے تو تہذیب خود بخود ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو جا ئے گی۔سر سید اور ان کے مشن سے محبت رکھنے والوں کو چاہئے کہ وہ سر سید کی تقلید کرتے ہوئے قوم کو جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کے لئے دوسرے صوبوں تمل ، تیلگو،مہاراشٹر،بہار، پنجاب،بنگال و کرناٹک جیسے صوبوں میں مزید تعلیمی مراکز قائم کر ہیں تاکہ سر سید کے تعلیمی مشن کو فروغ حاصل ہو سکے اور اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں ۔ ایسے ہی باوقار اور سنجیدہ لوگوں کو مورخ سر سید کا سچا ہمدرد اور علی گڑھ تحریک کا سپاہی لکھے گا۔ ملت اسلامیہ اس وقت نہایت نازک دور سے گزررہی ہے اور ہر جانب ان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، ایک ذراسی بات کو لے کر مسلمانانِ عالم کو طرح طرح سے بدنام کیا جارہا ہے ۔ان سب مسائل کا علاج سرسید کے پیغام میں پو شیدہ ہے یعنی دین کے ساتھ ساتھ علوم دنیا کا حصول ۔ یہ چیزہماری قوم کے بہت سے امراض دور کرسکتی ہے، ہر اس جگہ جہاں ہماری قوم وملت کے افراد وسائل واسباب نہ ہونے کے سبب جہالت کی زندگی بسر کررہے ہیں، ان کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔یہ کمال تھا سرسید کی اس فکر کا جس میں تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیا گیا تھااور یہی وجہ تھی کہ ایک دور میں یہاں کے اساتذہ تہذیب و تمدن کا سرچشمہ اور طلباسعادت مندی کے ساتھ علم و ہنر کی زندہ مثا ل تصور کئے جاتے تھے۔دیگر افرادان کی شائستگی سے سبق لیا کرتے تھے اور ان کی سعادت مندی کی مثالیں پیش کی جاتی تھیں۔آج ہم یکسر بھول چکے ہیں کہ سرسید نے اس عظیم الشان دانش گاہ کے قیام کے لئے کس قدر مصیبتوں کا سامنا کیا۔ ہمیں یہ بھی یاد نہیں کہ انہوں نے کس طرح قطرہ قطرہ جمع کرکے سمندر بنایا ۔ اپنی تمام ضروریات، تمام عیش و آرام کوخیر باد کہہ کر ملت کی فلاح کے لئے اس مدینۃالعلم کوقائم کرنے میں انہیں کیسے کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ سب انہوں نے صرف اور صرف قوم کے لئے کیا تھا۔ اس قوم کے لئے جس کا درد ان کے دل میں دھڑکنوں کے ساتھ بسا ہوا تھا ۔سرسیّد قوم کے اندر ایک ایسا جذبہ بیدار کرنا چاہتے تھے جس کے ذریعہ قوم میں حقوق کو حاصل کرنے کی طاقت اورصلاحیت پیدا ہوجائے بقول سر سید ’’ہندوستان کی ایسی تعلیم چاہتاہوں کے اس کے ذریعے اُن کے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہوجائے ، اگر گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک ہم کو نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہوتو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیزہے کہ خواہ مخواہ طوعاً کرہاً ہم کو دلا دے گی۔غرض کہ سر سید علیہ رحمہ اپنی قوم کے تئیں ہمشہ نہایت فکر مند رہتے تھے، ہر لمحہ انہیں ملت اسلامیہ کے فرزندان توحید کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر لے جا کر کھڑا کرنے کی فکر لاحق رہتی تھی تاکہ مسلمان دوسری اقوام کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں قدم سے قدم ملا کر شان کے ساتھ چل سکیں۔سر سید نے مسلمانوں کو جدید و اعلیٰ تعلیم سے روشناس کرانے و ملت میں اس کے فروغ کے لئے ملک کے متعدد علاقوں میں اسکول کھولنے اور علمی سوسائٹیاں قائم نے کا کام کیا، وہ جہاں بھی رہے انہوں نے مسلمانوں میں جدید تعلیم کو فروغ دیا کیوں کہ سر سید دل سےچاہتے تھے ملک بھر کا ہر مسلم نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرے تاکہ تر قی کا جو راستہ جدید تعلیم (سائنس و ٹیکنا لوجی) سے ہوکر گزرتا ہے اس کو مسلمانوں میں عام کیا جائے۔سر سید کی ان تمام کاوشوں اور مثبت عمل کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ مرشدآباد اور ملا پورم میں واقع مسلم یونیورسٹی کے تعلیمی مراکز سر سید کے سارے ہندوستان میں تعلیمی مشن کو فروغ دینے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے تو غلظ نہ ہوگا۔ سر سید جب ملک کے ہر فرد کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتے تھے، اس لئے ان کا مشن اس وقت تک قطعی پورا نہ ہوگا جب تک کہ ملک کا ہر مسلم نوجوان تعلیم یافتہ ہوکرترقی کی منازل طے نہیں کر لیتا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ جن علاقوں میں تعلیمی اداروں کا فقدان ہے وہاں مثبت اقدامات کئے جائیں اور دور دراز کے علاقوں میں نا خواندگی کی زندگی بسر کرنے والے مسلم افراد کو تعلیم دے کر سر سید کے تعلیمی مشن کو فروغ دینے کی سخت ضرورت ہے۔