تو نے بخشی ہے قوم ہند کو عمر دوام
کرتا ہے کوہ ہمالہ تیری عظمت کو سلام
انیسویں صدی ہندوستانی اقوام کی نشاۃ ثانیہ اور بر صغیر کے باشندوں کی سیاسی، سماجی، علمی اور اقتصادی ترقی کا نقطۂ عروج ہے۔ اِس صدی میں پیدا ہونے والے اور اپنی قوم و ملت کی تاریخ اپنے خون جگر سے لکھنے والے اصحاب فکر کی تعداد تو سیکڑوں میں ہے لیکن ملک و ملت کو ترقی دینے والی اور سماجی و سیاسی استحکام بخشنے والی جن شخصیات کو تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہے ان میں ایک سر سیّد احمد خانؒ کی نابغۂ روزگار شخصیت ہے۔ان کے حالات اور اوصاف سے ہر ہندوستانی شہری اور اپنے ملک سے محبت رکھنے والے ہر فرد کو سبق لینا چاہیے ۔ نیز بر صغیر کے ہندو مسلم ہم وطنوں کو ان حضرات کا مرہون منت ہونا چاہیے جنہوں نے ہندوستان میں متعدد علمی اِدارے قائم کیے اور دینی و عصری تعلیم کی روشنی میں ایک صحیح قومی شاہراہ پر چلنے کی ترغیب دی اور دوسری طرف برطانوی حکومت کے جبر و استبداد سے نجات دلا کر من حیث القوم اپنی شناخت بنائے رکھنے کے لیے راستے ہموار کئے ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ایشیاء کی عظیم دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مجھے حصول تعلیم کا موقع ملا اور اِس ادارے میں خوشہ چینی کے طفیل، میں اس لائق ہوا کہ اس معمار قوم کو ا س کی دوسوویں سالگرہ کے موقع پر ان کی گراں قدر خدمات اور احسانات کی یاد دلاؤں۔ صباؔ اکبر آبادی نے سر سیّدکے بارے میں کیا خوب کہا ہے ؎
اِک صاحب ہوش ، راہبر تھے سیّدؒ
اسلام کی چشم ِمعتبر تھے سیّد
یہ صرف خطاب ہی نہیں ہے واقعہ ہے
تھی قوم اگر جسم تو سر تھے سیّد
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی، عظیم رہنما سر سیّد احمد خاںؒ مرحوم کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔وہ برصغیرمیں مسلم نشاۃِ ثانیہ کے ایک بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے ہندوستانی قوم میں بیداری اور علمی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے ۔ انہوں نے ہندوستانی قوم کو جمود سے نکالنے اور انہیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔وہ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے ۔انہوں نے مسلم قوم کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اُس وقت اٹھایا جب زمین ان پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ اُن کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ سر سیّد دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی توقوم سائیس، خانساماں، خدمت گار کبوتر اور پتنگ باز، گھاس کھودنے والی ، اوروں کے برتن مانجھنے والی کے سوا کچھ اور نہ رہے گی ؎
مری زندگی کا حاصل کہ سبھی کو فیض پہنچے
میں چراغ رہ گذر ہوں مجھے شوق سے جلانا
سر سیّد احمد خاں ۵ ذی الحج۱۲۳۲ھ مطابق۱۷ ؍اکتوبر۱۷۱۸ء میںدلّی میں پیدا ہوئے ۔ ان کے آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے ۔سر سیّدؒنے دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ ۱۸۳۹ ء میں آگرہ میں کمشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے ۔ ۱۸۴۱ء میں امین پوری اور۱۸۴۲ء میں فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیتے رہے۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے ۱۸۴۲ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے اور دربار دہلی سے ’’جواد الدولہ سیّد احمد خان عارف جنگ‘‘ کا خطاب ملا۔دہلی کے قیام کے دوران انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’آثار الصنادید‘‘تصنیف کی۔ ۱۸۵۵ء میں ان کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران انہوں نے اپنی کتاب’’ سرکشی ضلع بجنور‘‘ لکھی۔ جنگ آزادی کے دوران وہ بجنور میں قیام پذیر تھے ۔ اس پُر آشوب دور میں انہوںنے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اوربچوں کی جانیں بچائیں۔آپ نے یہ کردار انسانی ہمدردی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ادا کیا۔
۱۸۵۷ء میںان کی والدہ ماجدہ بمقام میرٹھ رحلت فرما گئیں۔۱۸۵۸ء میںان کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اوران کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی اور۱۸۵۹ء میں مراد آباد میں ایک مدرسہ قایم کیا۔ ۱۸۶۱ء میں ان کی اہلیہ محترمہ اس دارفانی سے کوچ کر گئیں۔ ۱۸۶۲ء میںان کا تبادلہ غازی پور ہو گیا۔ ۱۸۶۴ء میں انھوں نے غازی پور میںہی ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ کا قیام عمل میں لایا اورایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جو بعد میں ترقی کر کے’’ وکٹوریہ ہائی سکول‘‘ بنا۔ ۱۸۶۴ ء میں ہی لندن کی ’’رائیل ایشیاٹک سوسائٹی‘‘ کے اعزازی ممبر مقرر ہوئے اور ان کا تبادلہ علی گڑھ میں ہوا اور سائنٹفک سوسائٹی کا دفتر بھی علی گڑھ منتقل ہو گیا۔ ۱۸۶۶ ء میں سائنٹفک سوسائٹی کا اخبار جاری کیاجو بعد میں ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔۱۸۶۷ء میں وہ علی گڑھ سے بنارس تعینات ہوئے ۔
۱۸۶۹ ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے اور انہیں لندن میں سی ایس کا خطاب ملا۔۱۸۷۰ ء میں انھوں نے ملکہ وکٹوریہ سے ملاقات کی اور لندن کے اینتھم کلب کے ممبر مقرر ہوئے۔انگلستان کی مسافرت کے دوران انھیں دو مشہور رسالوں’’ ٹیٹلر‘‘ (Tatler) اور سپکٹیٹر(Spectator)‘‘ کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علمبردار تھے ۔ ۱۸۷۰ء میںانھوں نے انگلستان سے واپس آ کر رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجرا کیا۔ اس میں مضامین سرسیدؒ نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیااورادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ ۱۸۷۵ ء میں انھوں نے علی گڑھ میں ’’مدرسہ العلوم‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ۱۸۷۶ ء میں پینشن لے کر علی گڑھ میں مستقل مقیم ہو گئے۔۱۸۷۷ ء میں انھوں نے وائسرئے ہند لارڈ لٹن کے ہاتھوں’’ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘‘ کی سنگ بنیاد رکھوائی اوراپنی باقی عمرکالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کردی۔
سر سیّد احمد خان نے ۱۸۹۸ ء میں بمقام علی گڑھ وفات پائی اور اپنے محبوب کالج (مسلم دانش گاہ)کی جامع مسجد کے صحن میں مدفن ہوئے ۔ سر سیّد کی موت کا سارے ملک میں سوگ منایا گیا۔ شروع شروع میں اکبر الہ آبادی بھی ان کے مخالفین میں تھے لیکن انجام کار انھیں اس خادم قوم کے کارناموں کا اعتراف کرنا پڑا۔ فرماتے ہیں ؎
صدمے اٹھائے، رنج سہے، گالیاں سنیں
لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا کام
دکھلا دیا زمانے کو زور دل و دماغ
بتلا دیا کہ کرتے ہیں یوں کرنے والے کام
نیت جو تھی بخیر تو برکت خدا نے دی
کالج ہوا دُرست بصد شان و احترام
سر سیّد نے اپنی مخلصانہ کوششوں اور صلاحیتوں کو کسی ایک شعبے پر مرکوز کر دیا ہوتا تو شاید اس میں سب سے بڑا ماہر ہونے کا اعزاز پایا ہوتا۔ اگر وہ صرف دینی تعلیم کی طرف توجہ کرتے تو بلند پایہ عالم دین ہوتے۔ اگر رُشد و ہدایت کے لیے خانقاہ میں بیٹھ جاتے تو ان کے مریدین کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی، سیاست کے میدان میں قدم رکھتے تو ارباب سیاست کے قافلے سالار ہوتے، صرف تعلیمی مسائل سے سروکار رکھتے تو نامور ماہرین تعلیم کی صف میں جگہ پاتے، شعر گوئی کا مشغلہ اختیار کرتے تو غالب و اقبال کے ہم پلے ہوتے مگر وہ تخصیص کا راستہ اختیار نہیں کر سکتے تھے بلکہ وہ اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے سے باہر نکالنے اور ترقی کا راستہ دکھانے کے لیے پیدا کیے گئے تھے۔ اس کام میں انہیں نہایت صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کوہ ہمالہ سے اونچی رکاوٹیں سدراہ ہوئیں مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری، ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔ سرسیدؒ کی تمام زندگی قوم و ادب کی خدمت میں گزری۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ قوم کی ترقی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے ۔ انہوںنے اپنی قوم کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اور دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوںنے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ ان کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوںنے اپنی قوم کو جدید سائنسی ادب اور معاشرتی علوم کی طرف راغب کیا۔ انہوںنے انگریزی تعلیم کو ان کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ دوسری قوموں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔ مولوی نظیر احمد ان کے بارے میں فرماتے ہیں ؎
اب اس کے بعد لشکر ہے مگر افسر نہیں کوئی
بھٹکتا پھر رہا ہے قافلہ رہبر نہیں کوئی
۱۸۵۹ء میں سرسیّد نے مراد آباد اور۱۸۶۴ء میں غازی پور میں جو مدرسے قائم کئے ، ان مدرسو ں میں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔ ۱۸۷۵ء میں انھوں نے علی گڑھ میں’’مدرسہ العلوم‘‘ کی بنیاد ڈالی جو ۱۹۷۷ء میں’’ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘‘ اور ان کی وفات کے بعد ۱۹۲۰ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انھوں نے آرچ بولڈ آرنلڈاور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔ ۱۸۸۶ء میں سر سید احمد خاں نے’’ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔ قوم کی تعلیمی ضرورتوں کے لیے قوم کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کانفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ لاہور میں اسلامیہ کالج، کراچی میں سندھ مسلم مدرسہ، پشاور میں اسلامیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس ہندوستانی قوم کے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی۔سر سیّدؒ نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر ہندوستانی قوم کا مستقبل بالکل تاریک ہے ۔ ان کی دوربین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رُخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے ۔ اس لیے انہوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا۔ اس سوسائٹی کے جلسوں میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوتے اور آلات کے ذریعہ تجربے بھی کیے جاتے ، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو بتایا جا سکے کہ بنا جدید علوم کے خاص طور پرسائنس کے میدان میں ترقی نہیں کی جا سکتی اور اسی لیے سائنٹفک سوسائٹی نے جن دو درجن کتابوں کا ترجمہ کرایا ان میں چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاضی اورسائنس سے متعلق تھیں۔ سر سیّد احمد خاں کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جا رہا ہے اور جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہی راستہ اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی روح ہے ۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درس گاہیں کیسی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے ،اسی لیے وہ خود انگلستان گئے ، وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا، تعلیمی اداروں میں رہے ، اساتذہ سے ملاقاتیں کیں اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا۔ انگلستان کے سفر میں جس راہ سے سر سیّدؒ گذرے، جس عمارت کو دیکھا، جس شخص سے ملے، جس جلسے میں شرکت کی ان کے دل نے بے اختیار اپنے وطن کو پکارا۔
سرسیّدؒنے علی گڑھ تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے ۔ مثلا ًراجہ رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے ۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یار دعمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا، تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پارہا تھا ، اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا ۔چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسیّد احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انہیں سزا دینے کے لئے ان کے خلاف نہایت ظالمانہ اقدامات کئے گئے ہندو جو کہ جنگ آزادی میں برابر کے شریک تھے ۔ انہیں بالکل کچھ نہ کہا گیا۔ انگریز کی اس پالیسی کی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان کی معاشی حالت ابتر ہو گئی۔ انگریزوں نے فارسی کے بجائے جو کہ سرکاری زبان تھی، انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان کسی صورت بھی انگریزی زبان سیکھنے پر رضا مند نہ تھے ، دوسری طرف ہندوؤں نے فوری طور پر انگریزی زبان کو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں وہ مسلمانوں سے آگے نکل گئے ۔ان اقدامات نے مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کو بہت متاثر کیا تھا۔ مسلمان جو کبھی ہندوستان کے حکمران تھے ، ادب ادنیٰ درجے کے شہری تھے، جنہیں ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔
سرسیّد احمد خان اپنی قوم کی ابتر حالت اور معاشی بدحالی کو دیکھ کر بہت کڑھتے تھے وہ اپنی قوم کو زندگی کے باعزت مقام پر دیکھنا چاہتے تھے اور انہیں ان کا جائز مقام دلانے کے خواہاں تھے ۔انھوںنے قوم کی راہنمائی کا ارادہ کیا اور انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی تلقین کی۔ سرسیّدؒ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں کے غلط رویے کی وجہ سے ہے ۔ ہندوستان کے مسلمان انگریزوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیکھنا اپنے مذہب کے خلاف تصور کرتے تھے ۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج حائل رہی، سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ جب تک مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ کریں گے ان کی حالت بہتر نہ ہو سکے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندوؤں سے پیچھے رہیں گے ۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ بدلیں کیوںکہ انگریز ملک کے حکمران ہیں۔ آپ نے اپنی تحریک کا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان غلط فہمی کی فضا کو ختم کرنے سے کیا۔سرسیّد احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے ۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت کا رویہ ترک کر کے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔ دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاصل کر کے تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے تھے اور اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر لی تھیں۔ سر سیّد نے انہیں اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کی تلقین کی اور انہیں یہ باور کرایا کہ جب تک وہ اپنا انتہا پسند رویہ ترک کر کے انگریزی علوم نہیں سیکھیں گے ،وہ کسی طرح بھی اپنی موجودہ بدحالی پر قابو نہ پا سکیں گے ۔ آپ نے قرآن پاک کے حوالے دے کر ان کو یہ سمجھایا کہ انگریزی علوم سیکھنا اسلام کے خلاف نہیں ہے ،آپ نے پسماندہ سوچ اور افلاس فکر کے نتائج سے ان کو خبردار کیا۔ اپنی قوم کی تعلیمی بہتری کے لئے آپ نے متعدد اقدامات کئے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے ؎
چشم سر سیّد نگراں ہے کہ پھر اُٹھے شاید
کوئی دیوانہ علی گڑھ کے بیابانوں سے
)بقیہ بدھ کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)