مسئلہ کشمیر کی بھول بھلیوں میںیہ حقیقت عیاں ہے کہ بھارت نے اِس مسلے کو بھارتی جمہوریت اور چناؤ کی سیاست کو در پیش رکھ کے اپنے حق میں حل کرنے کی کوشش کی لیکن حال ہی میں ہوئے پارلیمانی چناؤ کے نتائج نے انتخابی سیاست سے متعلق بھارتی دعوؤں کا پول کھول دیا۔بھارت کا دعویٰ رہا ہے کہ انتخابات میں لوگوں کی شمولیت ریاستی دعوؤں کی پشت پناہی ہے ۔ ریاست کا دعو یٰ ہے کہ لو گوں کی اکثریتی شمولیت کا مفہوم بھارتی جمہوری اداروں پہ لوگوں کے اعتماد کی دلیل ہے۔ ثانیاََ لوگوں کی شمولیت سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق لوگوں کی رائے جاننے کیلئے جس رائے شماری کا تعین ہوا تھااُس کی نفی ہوتی ہے ۔بالفاظ دیگر انتخابی عمل رائے شماری کا قابل قبول نعم البدل ہے ۔کوئی مانے یا کوئی نہ مانے اور سچ تو یہ ہے کہ عالمی سیاسی و سفارتی بازار میں جمہوریت و الیکشن کا یہ سکہ اِس حد تک چل نکلا کہ گر چہ سبھی نہیں البتہ اُس کے خریدار بھی خاصی تعداد میں نظر آئے ۔آج یہ سوال پوچھا جا رہا کہ اگر لوگوں کی اکثریتی شمولیت کو ریاستی سیاسی دلیل کی تصدیق مانا جاتا ہے تو کیا سرینگر کے ضمنی پارلیمانی انتخابات میں صرف اور صرف 7.14فیصد لوگوں کی شمولیت کو ریاستی دعوؤں کی نفی نہیں مانا جانا چاہیے؟ انتخابی عمل پہ یہی ایک سوال نہیں بلکہ کئی سوالات ہیں جو عصر حاضر سے ہی وابستہ نہیں بلکہ اِس عمل کی ابتدا سے ہی پوچھے جا رہے ہیں اور اِن سوالات کی لمبی فہرست سے کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی عمل شروع سے ہی مشکوک تھا۔
انتخابی عمل 1951 ء میں آئین ساز اسمبلی کیلئے شروع ہوا ۔75ممبراں کی اِس آئین ساز اسمبلی کے صرف دو یا تین نشستوں کیلئے انتخابات عمل میں لائے گئے باقی سب بلا مقابلہ منتخب ہوئے ۔کہا جاتا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ اتنے محبوب تھے کہ اُنکے نامزد افراد کے مد مقابل کوئی کھڑا ہونے کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔دنیا کے اُن ممالک میں جہاں جمہوری عمل کا انعقاد ہوا یا ہو رہا ہے وہاں کتنے ہی محبوب لیڈر وں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا لیکن آج تک یہ دلیل کہیں منظر عام پہ نہیں آئی کہ محبوب لیڈر کے نامزد امیدواروں کے مد مقابل کسی کو کھڑے ہونے کی نہیں سوجھی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بھر پور انتخابی مقابلے کے بعد محبوب لیڈر کی حزب اور اُس حزب کے نامزد افراد بھاری اکثریت سے جمہوری ایوانوں کے ممبر بنے اور ایسے میں جمہوریت کی تاریخ میں اپنا نام کسی قسم کے شک و شبہہ کے بغیر ثبت کر گئے۔ایسی لیڈروں اور ایسے احزاب کی فہرست لمبی ہے لیکن آج تک ریاست جموں و کشمیر کے بغیر کہیں بھی یہ دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا کہ کسی رہبر کی ہمہ گیر محبوبیت نے کسی میں یہ سکت باقی نہیں رکھی کہ وہ اُس کے نامزد امیدواروں کے مقابلے میں کھڑا ہو سکے ۔اِس حساب سے پرکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر کی جمہوریت ایک انہونی جمہوریت ہے جسے بلا مقابلہ امیدواروں کی جمہوریت کا عنواں دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔ 1951 ء کے انتخابات کے بارے میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ اپوزیشن کو پہلے ہی جموں و کشمیر کی خونی لائن کے اُس پار دھکیلا گیا تھا اور اُس کے بعد ریاست میں کسی کو دم مارنے کی اجازت نہیں تھی حتّی کہ گھروں کے اندر بھی ریڈیو سے کہاں کی خبر سنی جائے اُس پر بھی سرکاری کنٹرول عائد کیا گیا تھا۔
1951 ء میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی یہ رائے رہی کہ اِس اسمبلی کی کار گذاری سلامتی کونسل کی قراردادوں کو متاثر نہیں کر سکتی بہ معنی دیگر حق خود ارادیت کے اظہار کیلئے رائے شماری کا تعین مسلہ کشمیر کے حل کیلئے موثر رہے گا۔ 1957ء میں آئین ساز اسمبلی کی کار گذاری کے اختتام پہ سلامتی کونسل کا نظریہ وہی رہا جس کا اظہار 1951 ء میں کیا گیا تھا۔اتفاقاََ 1951 ء سے 1957ء تک جموں و کشمیر کی بچھی کھچی جمہوریت پر وہ شبخوں مارا گیا تھا جس کے درپے آئین ساز اسمبلی کے معمار شیخ محمد عبداللہ کی سرکار نہ صرف بر طرف کی گئی تھی بلکہ جس لیڈر کی محبوبیت جمہوری تجربے میں لا ثانی قرار دی گئی وہ بھارت کے قیدی بن گئے تھے اور بھارت نے اُنکا نعم البدل بخشی غلام محمد کی صورت میں تلاش کر لیا تھا۔جموں و کشمیر کی خونیں جمہوریت میں یہ حقیقت بھی ثبت رہے گی کہ شیخ محمد عبداللہ کی بر طرفی سے ہفتہ بھر پہلے بخشی غلام محمد نے اُنہیں اپنا چٹھا ایمان مان لیا تھا صرفنظر از اینکہ مسلمانوں میں ایمان کے اراکین کی فہرست پانچ تک محدود ہے ۔اتفاقاََ 1957ء ایک اور الیکشن ڈراما رچایا گیا اور گنی چنی سیٹوں میں مقابلے کے بغیر بلا مقابلہ کامیاب امیدواروں کی لمبی فہرست میں کچھ اور ناموں کا اضافہ ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ نقلی الیکشن ڈرامے پہ بھارتی حلقوں میں بھی اتنی لے دے ہوئی کہ بقول راوی بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو یہ کہنے پہ مجبور ہوئے کہ کچھ سیٹیں گر اپوزیشن کو دی جاتی تو کیا فرق پڑتا ؟
بخشی غلام محمد جموں میں سنگھی خیالات سے وابستہ کچھ افراد کے علاوہ جن میں پنڈت پریم ناتھ ڈوگرہ اور رشی کمار کوشل جیسے افراد شامل تھے کسی اور کو کوئی بھی انتخابی رعایت و سیاسی مراعات دینے کیلئے تیار نہیں تھے ۔جموں و کشمیر میں الیکشن کی انوکھی رسم 1962 ء میں بھی قابل اجرا قرار دی گئی لیکن تب تک شیخ محمد عبداللہ اور بخشی غلام محمد کی ساختہ جمہوری روایات بھارت کیلئے بار گراں ثابت ہو رہی تھیں لہذ بظاہر لیبرل خیالات کے غلام محمد صادق کو بر سر کار لایا گیا اور ایک کوتاہ مدت کی قید بخشی غلام محمد کیلئے تجویز ہوئی ۔بخشی غلام محمد کو یہ گماں ہونے لگا تھا کہ وہ بھارت کی ریاست جموں و کشمیر کیلئے ساختہ جمہوریت کے تک و تنہا نگہباں ہیں لیکن یہ اُن کی خام خیالی تھی اُنکی محافظ کارانہ سیاست کا بھارت نے جتنا استعمال کرنا تھا وہ کیا گیا اور اب اُس کے بجائے لیبرل سیاست کو آزمانے کی باری تھی ۔ جہاں تک الیکشن کا تعلق رہا غلام محمد صادق بلا مقابلہ امیدواروں کو قانون ساز اسمبلی تک پہنچانے میں اتنے ہی شاطر ثابت ہوئے جتنے کہ بخشی غلام محمد تھے ۔1967ء کے الیکشن میں اننت ناگ کے ڈپٹی کمشنر عبدالخالق نے جو کہ ضلع کے ریٹرننگ آفیسر تھے اکثر امیدواروں کو بلا مقابلہ کامیاب قرار دینے کی دیرینہ رسم نبھائی۔ مرحوم شمیم احمد شمیم نے اُنکے لئے ایک نئی سیاسی طرح وضع کی جو ’خالق میڈ ایم ایل اے‘ کہلائی۔یہ جموں و کشمیر میں جاری انتخابی سیاست پہ ایک طنز تھا جو ایسا چپکا کہ بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھی ایک دفعہ قانون سازیہ کے اِن ممبراں کو یہ کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ ایواں میں کیسے پہنچے ہیں۔بقول راوی ایسا تب ہوا جب یہ ممبراں بحق سید میر قاسم رہبری میں تبدیلی کے خواستگار ہوئے۔اِس سے پہلے کہ غلام محمد صادق ، شیخ محمد عبداللہ و بخشی غلام محمد کی مانند عضو نا کارہ قرار دئے جاتے وہ راہی ملک عدم ہوئے اور ایسے میں قرہ فال سید میر قاسم کے نام نکل آیا جنہوں نے 1972ء کے انتخاب میں جہاں جموں میں اپوزیشن کو چند سیٹیں عنایت کی وہی کشمیر میں بھی کچھ سیٹیں چھوڑ کے رسم جمہوریت نبھائی گئی۔
1977ء میں الیکشن شیخ محمد عبداللہ کی گھر واپسی کے بعد منعقد ہوئے ۔مرار جی ڈیسائی نے بھارتی جمہوریت کی پوری خوراک دینے کے فیصلے کے بعد گورنر راج کے دوراں آزاد انتخاب کروائے البتہ اِس اعتماد کے بعد کہ شیخ محمد عبداللہ کے پاس گھر واپسی کے پیش منظر میں دہلی کی سیاسی پیروی کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔بھارتی جمہوریت کی اِس حقیقت کو مان بھی لیا جائے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے پھر بھی یہ گوشہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جمہوریت لکھن پور پہنچتے ہی پٹری سے اتر جاتی ہے۔قارئین محترم کو یہ یاد ہی ہو گا کہ بھارتی پنجاب سے آتے ہوئے لکھن پور ریاست جموں و کشمیر کی پہلی آبادی ہے۔ لکھن پور کے اِس پار بھارتی جمہوریت حالات و واقعات کو مد نظر رکھ کے ناپ تول کے جموں و کشمیر کے سیاسی بازار میں بیچی جاتی ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں مسلسل انتخابات ہوئے لیکن اِن سے مسلہ کشمیر کی اساس پہ کوئی اثر نہیں پڑا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی یہ رائے کہ انتخابات و قانون ساز اسمبلی یا اُسکی پیشرو آئین ساز اسمبلی کی تشکیل مسلہ کشمیر کی اساس پہ اثر انداز نہیں ہوگی آج بھی اُسی حد تک صیح ہے جتنی کہ 1951 ء و 1957ء میں تھی ۔ ظاہر ہے کہ بھارت مسلہ کشمیر کو الیکشن کی سیاست سے مٹانے میںنا کام ہوا۔
1982ء میں اندرا گاندھی نے فاروق عبداللہ کو کانگریس کے ساتھ مل کے الیکشن لڑنے اور اُسکے در پے کانگریسیوں کو اقتدار میں حصہ دینے کی صلاح دی لیکن فاروق عبداللہ نے اِس ضم میں کہ وہ عبداللہ خاندان کی محبوبیت کے جانشین ہیں اندرا کی بات نہیں مانی۔ الیکشن تو اُنہیں جیتنے دیا گیا لیکن اُس کے پیش منظر میں اُنکے بہنوئی غلام محمد شاہ کیلئے ایجنسیوں نے جگہ بنانی شروع کی ۔ فاروق عبداللہ کے 14ایم ایل اے اُنہیں داغ مفارقت دیتے ہوئے غلام محمد شاہ سے مل گئے ۔سب ہی کو منسٹری سے نوازا گیا۔اِس کے بجائے کہ فاروق عبداللہ لوگوں کی آواز بن جاتے اُنہوں نے دہلی کی کیسہ گدائی میں اپنی سیاسی عاقبت تلاش کی۔ اُنہیں اقتدار تو واپس مل گیا لیکن بلا شرکت غیرے نہیں بلکہ کانگریس کی حصہ داری قبول کرنی پڑی۔ 1987ء کے الیکشن میں مسلم یونائٹیڈ فرنٹ کے چلینج کا سامنا مبینہ طور پہ بیلٹ پیپر کو بے حرمت بنا کے کیا گیا۔اِس الیکشن کو جس حد تک حدف تنقید قرار دیا گیا شاید ہی کسی الیکشن کو دیا گیا ہو حتّی کہ بھارتی حلقوں میں آج تک کہا جا رہا ہے کہ اِس الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی وہ آگے چل کے جنگجو تحریک پہ منتج ہوئی۔بھارتی جمہوریت پہ رہا سہا اعتبار اٹھ گیا جس کے نتیجے میں کچھ ہی سالوں کے اندر کشمیر کی سیاست نے ایک ایسا رخ لیا جو آج تک جاری ہے ۔
1990ء سے 1996ء تک کشمیر کے حالات اتنے پُر تناؤ رہے کہ انتخابی سیاست کو پیادہ کرنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ۔ بھارت کی چانکیائی سیاست نے انتہائی نا مساعد حالات میں بھی اپنی دیرینہ پالیسی سے ہاتھ نہیں کھنچا ۔ جنگجو تحریک کے ایک قابل قدر حصے کو بھارتی لیبرل جن میں کلدیپ نیر وجیسے کہنہ مشق صحافی و ڈپلومیٹ شامل رہے یہ اطمینان دلانے میں کامیاب ہوئے کہ جنگجو تحریک سے ہاتھ کھنچنے کے صلحہ میں اُن سے مذاکرات کئے جائیں گے تاکہ مسئلہ کشمیر کو پُر امن طور سے حل کرنے کی راہ نکل آئے لیکن آج تک مسئلہ جہاں تھا وہی ہے۔مین اسٹریم کے سیاستدانوں کو یہ کہہ کے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے آمادہ کیا گیا کہ آزادی سے کمتر سکئے از دی لمٹ یعنی آزادی سے کمتر آسماں کی حد تک سیاسی مراعات دی جا سکتی ہیں لیکن جب 1996ء کے الیکشن کے بعد جس میں لوگوں کی ایک قلیل تعداد نے شرکت کی جو مبینہ طور پہ کچھ حد تک زرو و زبردستی پہ منحصر رہافاروق عبداللہ ایک اٹونومی کی قرارداد لے کے دہلی دربار میں پہنچے تو وہاں یہ قرارداد عملاََ ردی کی ٹوکری کی نظر ہوئی۔فاروق عبداللہ کی اِس حقیر سی آرزو کے صلحہ میں دہلی دربار کو مین اسٹریم میں رخنہ ڈالنے کی سوجھی چناچہ راوی کا یہ بیاں رہا کہ نیشنل کانفرنس کے مد مقابل پی ڈی پی منظر عام پہ لائی گئی۔راوی کا یہ بھی کہنا رہا کہ اِس سے ایجنسیوں کو کئی اطراف سے فائدہ ہوا ۔ایک یہ کہ مین اسٹریم سیاستدانوں کے سیاسی تخیل پہ روک لگا دی گئی مبادا مقررہ حد سے آگے کی نہ سوجھے ثانیاََ مین اسٹریم کے ایک سیاسی دھڑے سے ناراضگی کا فائدہ مزاحمتی کیمپ کے بجائے دوسرا دھڑا اٹھا لے اور لوگوں میں یہ تاثر سرایت کر جائے کہ وہ ایک دھڑے کو سزا کی بہترین صورت دوسرے دھڑے کو جتانے میں ہے ثالثاََ مین اسٹریم دھڑوں کو یہ چھوٹ ملی کہ بجلی،سڑک پانی کیلئے وؤٹ مانگ لے البتہ پس از رائے دہی بھارت لوگوں کی بھاری شمولیت کو بھارتی جمہوریت پہ اعتماد و الیکشن عمل پہ اعتبار کے طور پہ عالمی سیاسی و سفارتی بازار میں بیچے ۔اپریل 2017ء میں پارلیمان کے ضمنی چناؤ میں صرف و صرف 7.14فیصد شرکت سے بھارتی دعوؤں کی قلعی کھل گئی ۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اب چانکیائی سیاست کے ساحر کے پاس کونسی ایسی بازی ہے جو لے کے وہ از سر نو بازار سیاست میں آئے گا؟
Feedback on: [email protected]