عظمیٰ نیوز سروس
جموں//جموں وکشمیر حکومت نے جمعرات کو کہا ہے کہ سرکاری محکمے،صنعتی یونٹ ،نیم سرکاری اور دیگر نجی ادارے ، محکمہ پاور ڈیولپمنٹ کی مالی مشکلات کی بنیادی وجہ بنے ہوئے ہیں کیونکہ ایسے 100سرفہرست بجلی کے نادہندگان ہیں جو1000 کروڑروپے کے مقروض ہیں۔ حکومت نے قانون ساز اسمبلی کو آگاہ کیاکہ سرکاری محکموں، صنعتی یونٹوں، نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں پر واجبات کی مد میں محکمہ پاور ڈیولپمنٹ کے کروڑوں روپے واجب الادا ہیں۔ممبراسمبلی لنگیٹ شیخ خورشید کے سوال کے جواب میں، حکومت نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑے نادہندگان میں، بابا جنگ63.78 کروڑ روپے کے بقایا بل کیساتھ فہرست ہے، اس کے بعد چیف انجینئر سلال ہائیڈرو الیکٹرک( این ایچ پی سی) پر 59.96 کروڑ روپے بقایا ہے۔ایگزیکٹیو انجینئرپی ایچ ای سوپور پر 45.84 کروڑ روپے جبکہ چیف مائننگ انجینئر (جے اینڈ کے منرلز لمیٹڈ )پر 42.43 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔دیگر قابل ذکربجلی نادہندگان میں، 39.83کروڑروپے واجب الاداکیساتھ راجپورہ لفٹ اری گیشن( اے ڈبلیو پی اسٹیج1 اور 2 )، ایگزیکٹو انجینئر پی ایچ ای مکینیکل ڈویڑن سوپور 26.87 کروڑ روپے، واٹر سپلائی سکیم ٹنگڈار 24.10کروڑ روپے، منیجر جموں اینڈ کشمیر سیمنٹس لمیٹڈ 22.49 کروڑ روپے، لفٹ اری گیشن سکیم لیتہ پورہ21.97 کروڑ روپے، ایگزیکٹو انجینئر پی ایچ ای مکینیکل ڈویژن سوپور ( PR-96) 21.41کروڑ روپے اور حکومت سے منسلک ادارے، جیسے میونسپل کونسل، آبپاشی کے محکمے، اور پولیس لائنز بھی اس فہرست میں نمایاں طور پر شامل ہیں۔جموں و کشمیر حکومت نے100 سب سے بڑے یا سرفہرست بجلی کے نادہندگان کی شناخت ظاہر کی ہے، جن میں سرکاری محکمے، پبلک سیکٹر یونٹس، اور نجی ادارے شامل ہیں، جن پر مجموعی طور پر1000 کروڑ سے زیادہ کے بل واجب الادا ہیں۔ حکومت نے کہاکہ ایمنسٹی سکیم، جو صارفین کو جرمانہ معاف کرکے ان کے واجبات کی ادائیگی میں مدد کرنے کیلئے بنائی گئی ہے، پہلے ہی 2لاکھ75ہزار81بجلی صارفین کو اپنی طرف متوجہ کر چکی ہے، جن میں سے ایک لاکھ 60ہزار507 جموں صوبے اور ایک لاکھ 14ہزار 574 کشمیر سے ہیں۔ تاہم، مستفید ہونے والوں کی مکمل فہرست، جس کیلئے تقریباً10ہزار صفحات کے ریکارڈ کی ضرورت ہوگی، بڑی حد تک دستیاب نہیں ہے۔ ممبراسمبلی شیخ خورشید نے زیادہ سے زیادہ احتساب کا مطالبہ کیا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عوامی فنڈز کو ضائع نہیں کیا جانا چاہیے اور نادہندگان، خاص طور پر سرکاری اداروں پر زور دیا کہ وہ مالی استحکام اور بجلی کی عدم فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے واجبات ادا کریں۔