ریاست کے دور افتادہ علاقوں میں قائم سرکاری سکولوں میں تدریسی نظام کا جنازہ ہی نکلاہواہے اور جہاں تدریسی عملے کی قلت پائی جارہی ہے وہیں بنیادی ڈھانچے کا بھی فقدان ہے ۔ کئی سکولوں کا تو یہ حال ہے کہ ان کی عمارتیں منہدم ہونے کی دہلیز پر ہیں اور کچھ قابل استعمال ہی نہیں رہیں جس کی وجہ سے طلباء یاتو کھلے آسمان تلے یاپھرکسی نجی عمارت میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ آئے روز ایسی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ سکول کی عمارت خستہ حال ہے یا عمارت ہے ہی نہیں یا فلاں جگہ طلباکو سکول جانے کاراستہ نہیں اور نہ ہی انہیں کھیل کود کےلئےمیدان، پینے کا پانی اور بیت الخلاء کی سہولت میسر ہے ۔اگرچہ قصبوں اور دیگر کچھ جگہوں میں سرکاری تعلیمی نظام کے تئیں متعلقہ حکام کی بے حسی سے تنگ آکر والدین اپنے بچوں کو مجبوراًنجی سکولوں میں داخل کررہے ہیں لیکن دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے پاس کوئی متبادل ہی نہیں ہے اور انہیں بچوں کوانہی خستہ حال سرکاری سکولوں میں داخل کروانا پڑتاہے، جن سے وہ پہلے سے ہی اکتاچکے ہوتے ہیں۔تدریسی عملے کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے فقدان پر ماضی میں کئی مرتبہ لوگوںنے سکولوں کو مقفل بھی کیا تاکہ حکام تک بات پہنچ سکے لیکن ایسا لگتاہے کہ جانے انجانے طور پر اس اہم شعبے کی تباہی کے اسباب پیدا کئے جارہے ہیں اور حکام کی عدم توجہی کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی آبادی کا سرکاری تعلیمی نظام سے اعتماد ہی ختم ہو گیاہے ۔خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے پہاڑی علاقوں میں پرائمری سے لیکر ہائراسکینڈری سطح تک کے سکولوں کی ایک سے بڑھ کر ایک بھیانک تصویر سامنے آتی ہے اورگنے چنے ایسے خوش قسمت سکول ہوں گے جن کی عمارتیں محفوظ بھی ہوں اور اچھی حالت میں بھی اورساتھ میں تدریسی عملہ بھی ضرور ت کے مطابق تعینات ہو۔بدقسمتی سے ہر ایک سرکاری ٹیچر کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی ڈیوٹی یاتو اپنے گھر کے نزدیک ترین ہو یاپھر اسے شہروں بالخصوص جموں یا سرینگر کے سکولوں میں تعینات کیاجائے، اور بہت ٹیچر دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی کیلئے تیار ہوتے ہیں ،جس سے جہاں شہری علاقوں میں قائم سکولوں میں ضرورت سے زیادہ ٹیچر ہوجاتے ہیں تووہیں دیہی علاقوں میں چل رہے سکولوں میں کہیں کہیں صورتحال اس قدر خراب بن جاتی ہے کہ ہائی سکول میں چار یا پانچ اساتذہ رہ جاتے ہیں اور مڈل اور پرائمری سکولوں کی تو حالت ہی بیان سے باہر ہے ۔اگرچہ حکام نے اساتذہ پر یہ لازم قرار دیاہے کہ انہیں بہر صورت دو سال ہارڈ زون میں ڈیوٹی دیناہے تاہم یہ منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہورہاہے۔بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے حوالے سے بھی دور دراز علاقوں کے سرکاری سکول ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں اور پہلے تو ان کی عمارتوں کا کام مختلف وجوہات کی بناپر شروع ہی نہیں کیاجاتا اور اگر اسے شروع کر بھی دیاجائے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔اگر تعلیمی شعبے میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کی کوشش نہ کی گئی تو مستقبل قریب میں لوگوں کا ان سکولوں پر رہا سہا اعتبار بھی اٹھ جائے گا۔ حکام کو اس بات کا جواب ڈھونڈناہوگاکہ کیوں وہی سکول، جہاں سے کچھ دہائیاں قبل تعلیم حاصل کرنے والے افرا د نے اپنی قابلیت کے لوہے ہر سطح پر منوائے ،آج فرسودہ حالت کا شکار ہیں اورنوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی چاہ کر بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں تعلیم نہیں دلاناچاہتا۔آج ایک مزدور پیشہ شخص کی بھی یہی تمناہوتی ہے کہ اس کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ غریب گھرانوں کے طلباء کے مستقبل سے کھلواڑ نہ کیاجائے اور شعبہ تعلیم میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو موجودہ دور کی متقاضی ہیں ۔حکومت کو سرکاری تعلیمی نظام کو پھر سے اس سطح پر لاناہوگاکہ کوئی بھی شخص اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کیلئے نہ ہی گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو اور نہ ہی کسی قسم کی تفاوت باقی رہے ۔