مولانا عبدالقوی حسامی
بندۂ مومن کا دل محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سرشار ہونا‘ لازمی اور فطری بات ہے، اور یہ محبت علیٰ وجہ الاتم تمام مادی نسبتوں اور چیزوں سے بڑھ کر ہونا، کمالِ ایمان کی نشانی اور عند اللہ مطلوب ہے: ارشادِ نبویؐ ہے: ’’تم میں سے کوئی کمالِ ایمان کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا، جب تک میں اُس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ’’یارسول اللہؐ! میری ذات کے بعد مجھے آپؐ سے سب سے زیادہ محبت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا ایمان کامل نہیں، پھر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: آپ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فر مایا: اللہ کی قسم، تمہارا ایمان اب مکمل ہوا۔‘‘
قدرتی دستور اور عشقِ رسولؐ کا پہلا مطالبہ عمل ہی ہے۔ صرف زبانی دعوائے محبت یا تصدیقِ قلبی و اقرارِ لسانی کافی ہوتا تو عہدِ نبوت سے آج تک کوئی منافق اور کافر نہ ہوتا، جب تک کہ کردارِ عملی کا اظہار نہ ہو، مومن اور منافق میں امتیاز، موحد اور مشرک میں امتیاز کیسے ہوتا؟ عمل پیمانہ ہے مومنِ صادق اور منافق کے درمیان۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب میں زبانی دعوائے محبت اس پھول کی مانند ہے جو کاغذ سے بنا ہو، جس میں خوشبو چھو کربھی نہ گزری ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان عمل ہی سے مومن کو روکتا ہے، اور اللہ کے یہاں بھی بندہ مستحقِ اجر عمل ہی کے بعد ہوتا ہے۔
ساری کائنات پر آپؐ کے احسانات نصف النہار کے سورج کی طرح عیاں ہیں، آپؐ سے محبت دل کا اطمینان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت شرطِ ایمان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر عمل آوری وصف ِ مسلمان ہے۔ حضرات صحابہ کرام ؓ میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کامل محبت اور سچے عشق کے ساتھ ساتھ بھرپور عمل بھی تھا۔ صحابۂ کرامؓ نے نہ صرف حکم ،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہر عمل کو بھی اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا۔
انفرادی ہو یا اجتماعی زندگی ، شخصی معاملات ہوں یا ملکی یا بین الاقوامی معاہدات ، حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ، مصلّے پر ہو یا بسترِ حرم پر، ہر موقع پرحضرات صحابۂ کرامؓنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اُسوہ حسنہ کواپنے دامنِ عمل سے پیوستہ رکھا۔ بعد والوں کے لیے وہ مقدس جماعت مینارۂ نور بن گئی۔ اتباعِ سنت کے لیے انہیں نہ بادشاہ کی پروا ہے ، نہ باپ کی، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو بجا لانے میں نہ دریا حائل ہوتا تھا، نہ جنگل وبیاباں اور صحراء نہ گلستاں، اسی بنا ءپرباطل ان کے رعب سے لرز اُٹھتا۔
قر آنِ پاک میں بے شمار مقامات پر اللہ رب العزت نے ایمان باللہ کے ساتھ عملِ صالح کا ذکر بکثرت کیا ہے: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں بھلے کام، ان کے واسطے ہے ٹھنڈی چھاؤں کے باغ مہمانی۔‘‘(سورۃ الکہف:۱۰۷)
ایک اور جگہ پرفرمایا: ساری انسانیت خسران میں ہے سوائے ایمان اور عملِ صالح کے (سورۃالعصر:۲،۳) ترجمہ ’’مقرر انسان ٹوٹے میں ہے، مگر جو لوگ کہ یقین لائے اور کیے بھلے کام۔‘‘ ایک مقام پر یوں ذکر کیا :’’جو نیک کام کرتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ مومن ہوایسے لوگ جنت میں جائیں گے (اور) وہاں بے حساب ان کو رزق دیا ملے گا۔‘‘(سورۃ المومن:۴۰)
ایک مقام پر اپنی ذات سے محبت کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے حبیب( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اتباع کرو: (سورۂ آل عمران:۳۱) ترجمہ: ’’تو کہہ دو، اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ کی تو میری راہ چلو، تاکہ محبت کرے تم سے اللہ اور بخشے گناہ تمہارے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنین کو نبی کریم ؐ کی اطاعت پر دو انعامات سے نوازنے کا وعدہ کیا ہے: ایک اپنی محبت اور دوسرا گناہوں کی مغفرت ۔ ایک حدیث پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا، جب تک تمہاری خواہشات اور جذبات اس دین کے تابع نہ ہوجائیں جسے میں لے کر آیا ہوں۔‘‘(مشکوٰۃ)
اس کا عملی نمونہ ہمیں دیکھنا ہے تو حضرات صحابۂ کرام ؓ کی زندگی دیکھیں کہ انہوں نے کیسے لازوال نمونے بعد والوں کے لیے چھوڑے ہیں۔ حضرت انس ؓ کو کدّو پسند نہ تھا، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کر کے کھا تا دیکھ کر آپ ؓ کو بھی شوق ہوگیا۔ حضرت ابن عمر ؓمحض اتباعِ سنت کی غرض سے اس مقام پر بیٹھے، جہاں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر کے دوران قضائے حاجت کے لیے گئے تھے، کچھ دیر آپ بھی اسی مقام پر بیٹھ گئے۔ (حیاۃ الصحابہؓ) حضرت عمر ؓ نے حجرِ اسود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا اگر میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ کرتے ہوئے نہ دیکھتا۔ (الشفاء)
قاضی عیاض ؒ نے ’’شفاء‘‘ میں فرمایا: واقعتاً کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو محبوب کی محبوبات و مرغوبات، حتیٰ کہ مباحا ت سے بھی محبت ہوجاتی ہے۔ ایک سچے عاشقِ رسولؐ کا جذبہ یہ ہوتا ہے اور ہونا چاہیے کہ وہ کردار کاغازی بنے، نہ کہ محض گفتار کا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا اور ہر حکم کو اپنی زندگی کے ہر شعبے میں عملی طور پر بجا لائے۔ آقا کریم ؐ کا ارشادِ گرامی ہے:’’ لوگوں کے فساد کے وقت جو میری سنت کو اپنائے گا، اللہ اُسے شہید کا ثواب عطا فرمائے گا۔‘‘(معجم اوسط للطبرانی )
مقامِ افسوس ہے کہ آج ہماری دین کے اعتبار سے حس مفقود ہوگئی ۔ سنن، مستحبات، مباحات تو دور کی بات ہے ، فرائض کابھی پتا نہیں۔ صلہ رحمی، ایثار، ہمدردی، تالیفِ قلب تو دور کی بات‘ حقوقِ واجبہ ولازمہ تک بھی ادا نہیں ہوتے۔ منکرات پر نہ دل ناراض ہوتا ہے، نہ بے دینی کے ماحول میں بے چینی ہوتی ہے۔ معروفات کی تلقین ہے، نہ دینی فضاء سے وابستگی۔ سچی محبت عمل پر اُبھارتی ہے ،سچا عشق اطاعت کا پابند بناتا ہے، ورنہ زبانی دعویٰ، محض دعویٰ ہے اور کچھ نہیں۔ اللہ ہمیں توفیقِ عمل نصیب فرمائے۔ (آمین)