کشمیر میں موسم سرما کے شروع ہوتے ہی روایتی طور انتظامی سطح پر عوامی مشکلات اس حد تک نظرا نداز کی جاتی ہیں کہ عام آدمی کے لئے آسانی کے ساتھ جینا دشوار ہو کے رہتا ہے لیکن شاید ہی اس حوالے سے کبھی انتظامی بد نظمی اتنی دوآتشتہ رہی ہو جتنی رواں مہینے کی ابتداء میں تھوڑی سی برف با ری کے مابعد دیکھی جار ہی ہے۔ اگریہ بات مان کربھی چلیں کہ ابھی موسم سرما کے ابتدائی دن ہی تھے اور موسم خزاں کا رنگ وادی کشمیر پہ چھایا ہوا نظر آ رہا تھا لیکن نومبر میں معمولی برفباریاں پہلے بھی ہوئی ہیں، یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی ۔ سرکاری ریکارڑ کے مطابق نومبر 2009 ء میں بھی برف باری ہوئی مگر انتظامی مشنری اتنی مفلوج نہ دیکھی گئی جیسے اب کی بار دیکھا جارہی ہے۔ اس بار محکمہ موسمیات نے برف باری سے کئی دن قبل نامہربان موسم کی وارننگ بھی دی تھی۔ بجائے ا س کے کہ انتظامیہ پیشگی طور موسمی صورت حال سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کر تی، محکمہ موسمیات کے سگنل کے باوجود اس محاذ پر جمود چھایا رہا۔ چنانچہ جب پہاڑی علاقوں میں شدید برف باری کے بعد وادی کے زمینی علاقوں میں پہلے بارش اور پھر برف باری شروع ہوئی تو انتظامی بد نظمی کا وہ منظر دیکھنے میں آیا کہ عوام الناس الاماں و الحفیظ ہی کہتے رہے۔ وادی کشمیر کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہونا تو سرمائی موسم میں بارش و برفباری کے دوراں ایک معمول بن گیا ہے ۔وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ ایک ایسی شاہرا ہ سے وابستہ ہے جسے ماضی میں بانہال کارٹ روڑ کہا جاتا تھا لیکن اب یہ سری نگر جموںشاہراہ کہلاتی ہے۔وسیع سرمایہ کاری کے باوجود نا ساز گار موسم میں اس شاہراہ پر رفت و آمد کی سہولیات بر قرار رکھنا مشکل ہو تا ہے۔ چونکہ متعدد مقامات پہ اِس شاہراہ کا پہاڑی سلسلہ زمین کھسکنے یعنی لینڈ سلائڈنگ کا شکار ہوتا ہے۔وادی کشمیر کی قدیم تجارتی راہ داری جہلم ویلی روڑ ہند و پاک تنازعے کے سبب بند ہے جو کہ رسل و رسائل اور ریاست کی تجارتی شہ رگ کے متراوف ہے ۔اس کے علاوہ وادی کے اندر بھی سڑکوں کی ابتر حالت کے سبب نہ صرف بالائی علاقوں سے رابطہ کٹ جاتا ہے بلکہ میدانی علاقے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ رہی کہ سرینگر میں سیکرٹریٹ بند ہونے اور جموں منتقل ہونے سے حکام خواب خرگوش میں سوئے ہوئے تھے لیکن سیکرٹریٹ کی جموں منتقلی انتظامی فقدان کی دلیل نہیں مانی جا سکتی ۔ریاست جموں و کشمیر میں سیکرٹریٹ کی منتقلی سے صرف نظر ایک ڈویژنل انتظامیہ بھی ہوتی ہے جو کشمیر ڈویژن اور جموں ڈویژن میں سال بھر مصروف عمل رہتی ہے۔اس انتظامیہ کا سربراہ ڈویژنل کمشنر ہوتا ہے جس کی رہنمائی میں ڈویژن سے وابستہ سب ہی محکمہ جات کے افسران اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ڈویژن کے اِن افسران کا سیکرٹریٹ کی منتقلی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لہٰذا یہ عذرلنگ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ سیکرٹریٹ کی جموںمنتقلی کے دن تھے،اس لئے انتظامیہ بر وقت فعال نہ ہو سکی ۔ڈویژنل سطح پہ انتظامیہ میں گوناگوں خامیاں عیاں رہی۔رفت و آمد،رسل و رسائل کی مشکلات کے علاوہ بجلی کی سپلائی اِس حد تک متاثر ہوئی کہ برفباری کے پہلے 24گھنٹے کے دوراں گھروں میں اندھیرا چھایا رہا اور 24گھنٹے گذرنے کے بعد بھی دور دراز علاقوں کے علاوہ شہر سرینگر کے کئی علاقے مسلسل بجلی سے محروم رہے۔کئی علاقے ایسے بھی تھے جہاں ٹرانسفارمر وں میں فنی خرابی کے سبب کئی دن لوگ بجلی کی سپلائی سے محروم رہے۔کہا جا سکتا ہے 21ویں صدی میں گذر بسر کرتے ہوئے بھی زمانہ قدیم کا سماں چھایا ہوا تھا۔ زمانہ قدیم میں روش ہی کچھ اِس نہج کی تھی کہ لوگ محرومیوں کے ساتھ جی لیتے تھے چونکہ اُنہیں عصر حاضر کی سہولیات کی عادت ہی نہیں تھی لیکن اب روز مرہ زندگی کا رخ بدل گیا ہے۔آج کے دور کی بات ہی کچھ اور ہے ۔انرجی بجلی کی صورت میں کئی آسائشوں کی حامل ہے جن میں فریج ،واشنگ مشین ،میکروویو،رائس کوکر کے علاوہ کئی دوسری سہولیات کا استعمال روز مرہ کا معمول بن چکاہے لہذا بجلی کے ساتھ ہی اُس سے وابستہ آسائشوں سے محرومی عوام الناس کی نفسیات کو متاثر کرتی ہیں اور ایک بحرانی کیفیت چھا جاتی ہے۔
موسم سرما میں نومبر مہینے کے ابتدائی ایام میں برفباری نے وادی کشمیر میں زندگی کے کئی ایسے گوشوں کو اجاگر کیا جس پہ عام حالات پہ کم ہی نظر پڑتی ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی عادی روش میں اُن گوشوں پہ کم ہی نظر پڑتی ہے جو کشمیریوں کیلئے حیاتی ہو سکتے ہیں۔زندگی کے اِن اہم گوشوں میں مہم ترین انرجی کا بحران ہے جو بجلی کی صورت میں ہمیں میسر تو رہتی ہے لیکن اُس کی سپلائی ایک بحرانی کیفیت سے دو چار ہے۔اِس بحران کا احسا س سرمائی موسم میں شدید تر ہو جاتا ہے جس کی گوناگوں وجوہات ہیں۔ہیڈرو الیکٹرک پروجکٹس سے بجلی کی پروڈکشن کا دارمدار پانی کے بہاو پر ہوتا ہے اور یہ بہاؤ کم ہو جائے توپروڈکشن میں کمی آ جاتی ہے۔ سرمائی موسم میں دریاؤں میں پانی کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے لہذا ہیڈرو الیکٹریک پاور پروڈکشن کی وہ سطح نہیں رہتی جو گرمی کے موسم کا معمول اور اِس سے بجلی کی سپلائی متاثر ہوتی ہے ۔ دیکھا جائے تو سرمائی موسم میں بجلی کی ضرورت شدید تر ہو جاتی ہے۔ سرمائی موسم میں پانی کے بہاؤ کی کمی ذخیرہ اندوزی سے پوری کی جاتی ہے یعنی ڈیم بنا کے پانی کے ذخائر کو گرمائی موسم میں وسعت دے کے اُسے موسم سرما میں بجلی کی پروڈکشن کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے لیکن ریاست جموں و کشمیر میں مشکل یہ ہے کہ یہاں پانی کو ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا چونکہ اِس سے سندھ طاس معاہدے کے طے شدہ مقررات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960ء کو مابین ہند و پاکستان کراچی میں طے پایا۔ اِس معاہدے کی رو سے سند ھ طاس معاہدے کے تین مشرقی دریاؤں راوی،ستلج و بیاس جو پنجاب میں بہتے ہیں بلا شرکت غیرے بھارتی تحویل میں دئے گئے جبکہ تین مغربی دریا ؤں سندھ،چناب و جہلم جو ریاست جموں و کشمیر میں بہتے ہیں پر پاکستان کا حق مانا گیا البتہ پانی کے بہاؤ پہ روک لگائے بغیر ہیڈرو الکٹریک پاور پروجکٹس کی ساخت اور بجلی کی پروڈکشن کے حقوق ریاست جموں و کشمیر کو حاصل رہے۔اِسے فنی لغت میں( رن آف دی ریور پاور پروجکٹ:Run of the River Power Project) کہا جاتا ہے اور جموں و کشمیر کے سارے پاور پروجکٹس اِسی نوعیت کے ہیںجہاں سرمائی مہینوں کیلئے ڈیم باندھ کے پانی کی ذخیرہ اندوزی نا ممکنات میں گنی جا سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ کو روکا نہیں جا سکتاچونکہ مقررارت کے مطابق پانی کا حصول پاکستان کا حق ہے۔اِن مقررات کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ انصاف پہ مبنی نہیں ہے اور اِسے سریحاََ ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ بے انصافی مانا جا سکتا ہے ۔انصاف کے تقاضے تب پورے ہوتے جب مشرقی اور مغربی دریاؤں سے پاکستان کو تناسب سے پانی میسر رہتا تاکہ جموں و کشمیر کے مغربی دریاؤ ں پہ وہ بندش عائد نہ رہتی جو کہ آجکل ہے اور ریاست کو معقول حد تک سرمائی موسم کیلئے پانی کی ذخیرہ اندوزی کی اجازت میسر رہتی ۔یہ تب ہی ممکن ہو سکتا جب پاکستان کی ضروریات مغربی دریاؤں کے علاوہ مشرقی دریاؤں سے بھی ممکن بنائی جاتی جبکہ در حال حاضر پاکستان کی ساری ضروریات ریاست جموں و کشمیر سے وابستہ سندھ طاس کے مغربی دریاؤں سے پوری کی جاتی ہے اور بھارت بلا شرکت غیرے مشرقی دریاؤں کا پانی اپنے مصرف میں لاتا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ ریاست ہے اور اِس سیاسی صورت حال میں ریاستی اساسوں کے فیصلے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کرنے کی گنجائش نہیں ہونی چا ہیے تھی لیکن سچ تو یہ ہے کی سندھ طاس معاہدے میں جہاں آر پار کے پنجاب کا خاص خیال رکھا گیا ہے وہی ریاست جموں و کشمیر کے مفادات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اِس معاہدے میں آر پار کی ریاست جموں و کشمیر کا کوئی بھی نمائندہ شامل نہیں تھا نہ ہی لیڈرشپ کو اعتماد میں لیا گیا۔1960ء میں جب سندھ طاس معاہدے پہ دستخط ہوئے انرجی کے بحران کا احساس اتنا شدید نہیں تھا جتنا کہ عصر حاضر میں ہے۔ پانی سے بجلی کی تولید سے بیشتر آبپاشی کی سہولیات فکر و نظر میں تھیں۔سندھ طاس کے دریاؤں سے جو کھیت سیراب ہوتے ہیں مانا جاتا ہے کہ وہ پوری دنیا میں آبپاشی کا وسیع تریں سلسلہ ہے ۔ ہندوستان میں جب تاج برطانیہ کی حکومت تھی تو سندھ طاس میں نہری پانی کا ایک وسیع سلسلہ قائم کیا گیا جس نے پنجاب کو غذائی اجناس کی پیدوار میں ہندوستانی ریاستوں میں سب سے آگے رکھا۔تقسیم کے بعد ہند و پاک کی حکومتوں کی نظر میں بیشتر آر پار کے پنجاب کی بالا دستی مد نظر رہی۔آبپاشی کی سہولیات کو مد نظر رکھا جائے تو سندھ طاس کے دریائی سلسلے سے ریاست جموں و کشمیر کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں لیکن یہی بات پانی سے انرجی کے حصول کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی چونکہ پانی کی ذخیرہ اندوزی پہ قدغن ہے اور یہ ریاستی اقتصاد پہ ایک کاری ضرب کے متراوف ہے۔
سندھ طاس معائدے کے علاوہ کئی اور وجوہات جس سے موسم سرما میں وادی کشمیر میں بجلی کی سپلائی بحرانی کیفیت سے دو چار ہوتی ہے حالانکہ ریاست جموں و کشمیر کو اللہ تبارک تعالے نے پانی کے وسیع ذخائر سے مالا مال کیا ہوا ہے جس سے انرجی کا حصول ریاست کو اقتصادی دائرے میں خود کفیل بنا سکتا ہے لیکن بد قسمتی یہ رہی کہ نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے انرجی کی فراہمی کا یہ وسیلہ غیروں کی جولی میں ڈال دیا اور اِس سے ریاست کو کتنے اقتصادی صدمے اٹھانے پڑے اُس کی تفصیلات نیشنل ہیڈرو الیکٹریک پاور کارپوریشن( NHPC )کے اُن انکشافات میں عیاں ہیں جو آج سے چند سال پہلے منظر عام پہ آئے۔ NHPCجو کہ بھارت سرکار سے جڑی ایک کارپوریشن ہے یہ تفصیلات فراہم کرنے پہ تب مجبور ہوئی جب ایک شخص ونکتش نائیک نے جو کہ کامن ویلتھ ہیومن رائٹس نامی تنظیم سے وابستہ ہیں رائٹ ٹو انفارمیشن (RTI) کے تحت عرضی دائر کی اور NHPC نے مرکزی ایکٹ 2005 ء کی پیروی میں اطلاعات فراہم کی۔اِن اطلاعات میں اُن خدشات کی تصدیق ہوتی ہے جو کہ ریاست کے طول و عرض میں سماجی انجمنوں میں پھیلی ہوئی ہیں کہ یہاں کے پانی سے جو انرجی فراہم ہوتی ہے اُس کا استحصال ہو رہا ہے۔
NHPC کے انکشافات میں یہ ذکر ہوا کہ جموں و کشمیر کے ہیڈرو الیکٹریک پروجکٹس سے 2001ء سے 2015ء تک جو بجلی فراہم ہوئی اُس کو بیچ کے NHPC نے 19,431کروڑ روپے کمائے اور جیسا کہ ظاہر ہے یہ کثیر رقم ریاستی خاطے میں جانے کے بجائے NHPC کے خاطے میں جمع ہوئی اور اُس پہ ستم ظریفی یہ کہ اِس عرصے میں ریاست کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے NHPC کو انرجی کی خرید کیلئے 4,129 کروڑ روپے ادا کرنے پڑے اور NHPC کے انکشافات کے بموجب یہ خرید جموں و کشمیر کے پن بجلی پروجکٹس کی مجموعی تولید میں سے 19.7فیصدبیچ کر پوری کی گئی پس وہ خدشات جو عوامی حلقوں میں عام ہیں کہ ریاستی پانی سے تولید شدہ بجلی ہی ریاست جموں و کشمیر کو بیچی جاتی ہے صیح ثابت ہوئے ۔ اِن انکشافات کے بعد مطبوعات و عوامی حلقوں میں شک کا اظہار کیا جانے لگا کہ NHPC نے جو انکشافات کئے ہیں وہ اُن رقوم سے مشابہت نہیں رکھتی جس کا اظہار ریاستی سرکار وقتاََ فوقتاََ کرتی رہتی ہے ۔ریاست سرکار کے اِن بیانات میں ذکر ہوا ہے کہ ریاست کو حالیہ برسوں میں 3000کروڑ سے لے کے 4000کروڑ تک سالانہ اضافی بجلی کی خرید کے لئے ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ NHPCکے انکشافات میں مجموعاََ صرف 4,129 کروڑ روپے کی ادائیگی کا ذکر ہوا ہے ۔ریاستی سرکار کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2004ء سے 2016ء تک یعنی 12برسوں میں ریاست نے 32000کروڑ کی رقم کثیر سے اضافی بجلی خریدی ہے جو ریاستی اقتصاد پہ ایک کاری ضرب ہے اور یہ ایک روحانی تازیانے کا اثر رکھتی ہے ،جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ریاستی سرکار اُس بجلی کی فراہمی کیلئے یہ رقم ادا کر رہی ہے جس کی جنریشن ریاستی پانی سے ہی ہوتی ہے۔ظاہر ہے2016ء سے آج تک یعنی 2018ء کے اختتامی مہینوں تک اِس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ریاست میں ہیڈرو الیکٹریک پروجکٹس سےNHPC کے وسیلے سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ مجموعی پروڈکشن 3600 میگاواٹ کا کم و بیش دو سوم(2/3 rd) یعنی 2339میگاواٹ کی پیداوار بنتی ہے۔ اس میں سے کم و بیش 12فیصد بجلی ریاست کو میسر رہتی ہے باقی جس قدر بجلی کی اضافی ضرورت رہتی ہے وہ نقد رقم دے کے پوری کی جاتی ہے۔ریاستی سیکٹر میں مجموعی جنریشن کا کم و بیش یک تہائی حصہ ہے جو کہ1261میگاواٹ کی جنریشن بنتی ہے۔ بجلی کی پیداوار میں ریاستی سیکٹر میں مجموعی جنریشن کا صرف یک تہائی حصہ نا انصافی کی انتہا ہے اور یہ اِس حقیقت کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ ریاست کے قیمتی اساسے ریاستی دسترس سے باہر ہیں۔
Feedback on: [email protected]