جبسے کارل مارکس نے سوشلزم کا سائنسی نظریہ دیا ہے، تب سے ایک مخصوص طبقے کو مستقل پریشانی کا سامناہے۔ یہی طبقہ سماج کے ذرائع پیداوار پر قابض ہے اورپوری نسل انسانی کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہے۔ اس طبقے کو عام زبان میں حکمران طبقہ کہاجاتاہے۔ ذرائع پیداوار میں ا س مخصوص چھوٹے سے طبقے کی وجہ سے پیسہ چند ہاتھوں میںسکڑ کر رہ جاتاہے اور نسل انسانی کی بھاری اکثریت اس نظام زرمیں اس زر سے محروم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بھاری اکثریت بھوک اورمحرومی کی زندگی گزارتی ہے۔ویسے تو یہ واضح حقیقت ہے کہ اس نظام میںاکثریت کا استحصال کیاجارہاہے مگر اس نظام کے رکھوالے جو اس نظام کی بدولت وحشی بن چکے ہیں ۔ اس نظام کو نسل انسانی کا ہمدرد اور دوست بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنا وحشیانہ پاگل پن جاری رکھ سکیں۔ اس کام کے لئے انہوں نے مختلف فیکٹریاں بنا رکھی ہوتی ہیں جنہیں کالج اور یونیورسٹیاں کہا جاتاہے، جہاں سے ان کے اس نظام کی حفاظت کے لئے روبوٹس کی ایک فوج تیار ہوتی ہے۔ ان کاکام محض اس نظام کوازلی اورابدی بنا کر پیش کرناہوتاہے۔
مارکسزم سائنسی سوشلزم ایک ایسی حقیقت ہے جواپنے آپ کو تاریخ کی کسوٹی پر سچ ثابت کرچکی ہے اور اب نسل انسانی کو ایک چھوٹے سے وحشی طبقے کے تسلط سے آزاد کرانے کو تیار کھڑی ہے۔ نسل انسانی کی آزادی کی اس للکار کے خوف سے وہ چور طبقہ ہمیشہ سے مارکسزم کے خلاف غلیظ پروپیگنڈ ا کرتا آرہاہے۔ کبھی مارکسزم کو خیالی پلائو کہاگیا تو کبھی ناکام نظریہ اورنہ جانے کیا کچھ نہیںکہاگیا مارکسزم کو بدنام کرنے کے لئے۔ مارکسزم کو ناقابل عمل ثابت کرنے کے لئے عام طورپر یہ کہا جاتاہے کہ انسان تو فطری طورپر لالچی ہے اور ایک دوسرے سے ہمیشہ مقابلے میں ہوتاہے تاکہ اپنا وجود برقراررکھ سکے۔ لہٰذا ایک ایسا نظام جس میں مقابلہ نہ ہو اور برقرار نہیںرہ سکتا۔ مارکسزم انسانی فطرت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں مقابلہ نہیںاور سرمایہ داری چونکہ مسابقت کے اصولوں پر قائم نظام ہے لہٰذا یہ ایک فطری نظام ہے اور یہی تاریخ کا اختتام ہے۔بظاہر تو سب کو لگتاہے کہ واقعی انسان لالچی ہی ہے کیونکہ کسی بھی جھوٹ کو اگر بار بار دوہرایا جائے تو ایک وقت آنے پر وہ سچ لگنے لگتاہے۔ کچھ ایسا ہی اس عوام کے ساتھ ہوا ہے جسے روزی روٹی کی بھاگ دوڑ میں لگا کر پڑھنے اور سمجھنے سے کوسوں دور پھینک دیا گیا ہے اورجھوٹ سے بھری کتابیں ، فریب سے بھر پورمیڈیا اور نفرت سے بھرے تعلیمی اداروں کے ذریعے عوامی شعور کو ایک خود ساختہ غلامی کے ڈھانچے میںقید کیاگیاہے۔ اس وجہ سے وہ ہر بات کو بغیر تحقیق کئے نا صرف مان لیتے ہیںبلکہ لاشعوری طورپر اس کی تبلیغ بھی کرتے رہتے ہیں۔تاہم اگر سائنسی بنیادوں پر اس بات کی تہہ میں جایا جائے تو سرمایہ داری کے بکاؤ دانشوروں اور نام نہاد سائنس دانوں کا تمام غلیظ پروپیگنڈا جھوٹ ثابت ہوتاہے۔ انسان کی حقیقت جاننے کے لئے ہمیںانسان کی تاریخ کا معالعہ کرناہوگا اور تاریخ کے مطالعے کے لئے ہمیں ٹھوس مادی ا ور سائنسی بنیادوں کا سہارا لینا ہوگا۔
جب ہم تاریخ کا مطالعہ ٹھوس مادی اور سائنسی بنیادوں پر کرتے ہیںتو ہمیں پتہ چلتاہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے انسان ہر وقت اس خوف میںمبتلا رہتاتھا کہ خوراک کیسے ڈھونڈی جائے۔ وہ سارا سارا دن خوراک کی تلاش کے لئے جدوجہد کرتارہتا۔ کچے پکے پھلوں اورکچے گوشت سے پیٹ بھرتا اور اس طرح زندہ رہتا۔ اس قدیم دور کو مارکسی زبان میں قدیم اشتراکی نظام کہا جاتاہے۔ اس دورمیںانسان مل کر رہتے تھے کیونکہ ان کامل کر رہنا ہی اس وحشی دورمیں ان کی جان کی بقاء تھی۔ اس دورمیں مادی طورپر انسان اتنا ترقی یافتہ نہیںتھاکہ خوراک کوذخیرہ کرسکتا ۔لہٰذا رو ز ایک ہی کام اسے کرنا ہوتاتھا اور وہ کام تھا خوراک تلاش کرنا۔ خوراک خواہ وہ پھل ہوں یا شکار سب مل کر کھاتے تھے اور روز کھانے کے بعد چونکہ خوراک بہت کم ہوتی تھی۔ اس لئے پیچھے کچھ نہیںبچتاتھا۔ اور اگلے دن پھر خوراک کی تلاش شروع ۔ چونکہ اس دورمیں ذاتی ملکیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا کیونکہ اس وقت ذرائع پیدا وار اتنے جدید نہیں تھے کہ خوراک کا ڈھیر لگا یا جاسکے۔ لہٰذا یہ چیز میری ہے، وہ چیزمیری ہے کی لڑائی کا بھی کوئی جواز نہیںبنتاتھا۔ اس دور کے مادی حالات کی وجہ سے انسان کاشعور جڑت اور اجتماعیت کا تھا اور چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہنے والے انسال لالچ، لڑائی، قبضہ ، دھوکا اور انا جیسے مسائل سے بالکل ناآشنا تھے۔ ایساہرگز نہیںتھا کہ اس دورمیں انسان بہت عظیم اور رحم دل تھے یا ان کو کسی غیبی طاقت نے ایسا بنایا ہواتھابلکہ ایسا ہونا اس دورمیں ناگزیر تھا۔ نہ اس دورمیں انسان کے پاس اینٹوں کے بنے گھر ہوتے تھے اور نہ ہی جدید ہتھیار جن کی مدد سے وہ اپنی حفاظت کرسکیں۔ اگر اس دورمیں اپنی جان بچانی تھی تو اس کا ایک ہی راستہ تھا کہ مل جل کر کر رہا جائے۔ اس مل جل کر رہنے کی وجہ سے اس دورکے انسانوں کا شعور بھی جڑت اور اجتماعیت کا ہی تھا۔جیسے جیسے آلات پیداوار یعنی نیزہ یا تیر وغیرہ میںترقی آتی گئی ، ویسے ویسے پیداوار بھی زیادہ ہوتی گئی اور ایک وقت آنے پر اب انسان کے پاس اتنا باقی بچناشروع ہوگیا کہ اس باقی بچی ہوئی خوراک پر ملکیت کا سوال اٹھنے لگا۔اس زائدپیداوار کی وجہ سے انسان لاکھوں سال اکٹھے رہنے کے بعد اب طبقات میں بٹ گیا اور مادی حالات کی وجہ سے طبقات کاجنم ہوا۔
انسانی تاریخ میںکئی نظام آئے جن میں غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ داری شامل ہیں۔ سرمایہ داری نظام ، جاگیرداری نظام اور سرمایہ داری شامل ہیں۔ سرمایہ داری نظام ، جاگیرداری نظام کے بطن سے ایک انقلاب کی صورت میںنکلا۔ اس نظام نے ہر انسان کو آزادنہ کا روبار کرنے کی آزادی مہیا کی جو پچھلے نظاموں میںنہیںتھی مگر تمام تر ترقی پسندی کے باوجود اس نظام میں بھی ایک ایسی خامی موجو د تھی اور وہ خامی تھی ذاتی ملکیت۔ اس نظام میںبھی ذاتی ملکیت جو تمام مسائل کی جڑ تھی، اسے ختم نہیںکیا گیا ۔ بس اس کی شکل تبدیل کی گئی۔ اس نظام نے چونکہ ذاتی کاروبار کرنے کی آزادی انسان کو دی۔ (البتہ وہ آزادی محض ان کے لئے ہے جن کے پاس پیسہ ہے) ۔لہٰذا اس کی وجہ سے ذاتی خود غرضی ، لالچ اور دوسروںکو پیچھے چھوڑنے کی نفسیات نے جنم لیا۔ ایسا ہونا نا گزیر تھا۔چونکہ مادی حالت شعور کاتعین کرتے ہیں،لہٰذا سرمایہ داری نظام میں مقابلہ بازی اور اجارہ داری کی لڑائی کی وجہ سے انسانی شعورمیں مقابلہ بازی اور لالچ کے سانچے میں ڈھل گیا اور وسائل پر چند لوگوں کے قبضے کی وجہ سے قلت کی نفسیات آج بھی برقرار ہے اور لوگ خود غرضی اور لالچ کا مظاہر ہ کرتے دکھائی دیتے ہیںمگر سوال یہ ہے کہ کیا اس لالچ اور خود غرضی کو ختم نہیں کیا جاسکتا؟ بالکل اس لالچ اور خود غرضی کو ختم کیا جاسکتاہے، وہ کیسے؟ ذرائع پیداوار کو چند ہاتھوں کی ملکیت سے نکال کر تمام سماج کی ملکیت میںدینے سے نسل انسانی کو ہر شے وافر مقدارمیں مہیاکی جاسکتی ہے اور اس طرح نسل انسانی کو تاریخ میں پہلی بار قلت کی نفسیات سے نکالا جاسکتاہے، جو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے ۔جب محنت کش طبقہ بزور طاقت تمام بڑی بڑی جاگیرداروںاور عوامی اثاثوں پر قبضہ کرکے اس دنیا میں اپنی حکومت قائم کرے گا اور ایک معیاری جست (انقلاب) کی صورت میں نسل انسانی کو تاریخ کی تمام اذیتوں اور پریشانیوں سے آزاد کرائے گا۔
آج سرمایہ دارانہ نظام جوں جوں اپنے زوال کی طرف جارہاہے، توں توں محنت کش طبقے میں پریشانی، خوف اور غصہ جنم لے رہاہے اور اس نفسیاتی تذبذب کی وجہ سے محنت کش طبقہ ایک شعوری جسات کے درپے ہے مگر وہ شعوری جست کوئی ہوا میں معلق خیالی بات نہیں۔ اس کا تعلق ایک معیاری جست سے ہے جو اس دنیا میںاس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کش طبقے کا دار ہوگا۔ وہ وار نسل انسانی کو کس طرف لے کرجائے گا، نسل انسانی کی بقاء اور حقیقی انسانی آزادی یعنی سوشلزم کی طرف یا پھر بربریت کی طرف اس کا فیصلہ ہمارے ہاتھ میںہے!ہمیںآج ایک انقلابی پارٹی بنانی ہوگی جومحنت کشوں کی تحریکوں کو ایک انقلابی پروگرام کے ذریعے اس گھٹیا نظام کے خلاف ایک ضرب کے طورپر استعمال کرتے ہوئے اس نظام کا خاتمہ کرسکے۔ ایسے وقت میں جب کہ عوام لٹیرے سرمایہ دارانہ نظام کی کرتوتوں کے باعث تباہی اوربربادی کے چنگل میں پھنس کر اپنی تباہ کاریوں سے آشنا ہورہے ہیں،اُس حالت میںلٹیرے طبقوں کی پارلیمانی سیاسی پارٹیاں ایک با ر پھر عوام کولٹیرے طبقوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے چنگل میں پھنسا ئے رکھنے کے لئے زور لگارہی ہیں۔ ایک طرف مودی، امت شاہ اینڈ کمپنی مختلف جال پھیلائے ہوئے تھے، دوسری طرف راہل گاندھی کانگریس اور اُس کے گٹھ جوڑ کے اتحادیوں کے ذریعہ نیا جال بن کر سامنے آگئے ہیں۔ گزشتہ ستر سال میں لٹیرے حکمران طبقوں کی مختلف نمائندہ سیاسی پارٹیوں نے وقت وقت پر پینترے بدل کر عوام کو اپنی چالبازیوں میں پھنسائے رکھاہے جس کے باعث غربت ، افلاس ، بھوک، بیکاری، مہنگائی اور دیگر مصائب سے عوام دوچار ہوئے ہیں۔ اب کی بار پھر وہی چالاک اور ہوشیار بڑے طبقوں کے ترجمان مختلف رنگوں میں سامنے آکر لوٹ کھسوٹ کے نظام کواستحصالی عنصر کو قائم رکھنے کے لئے زور آزمائی کررہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام لٹیرے طبقوں کے ان پارلیمانی سوداگروں کے چنگل سے آزاد ہوکر ایک انقلابی پارٹی میں منظم ہوں اور ملک میں سائنٹفک سوشلزم کے قیام کی جدوجہدتیز کرکے مصائب سے آزاد ہونے کی جدوجہد کریں۔