اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے بھی کہ شیطان انسانوں کے اندر وسوسہ ڈال کر انہیں آپس میں لڑاتا ہے، عام طور پر انسان شیطانی وسوسوں سے بچنے کی بجائے ایک دوسرے کو ہی اپنا اصل دشمن سمجھ کرآپس میںلڑتا رہا ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کی شروعات سے قبل جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو سب سجدہ میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور تکبر سے کہا کہ تو نے جنّ کو آگ سے اور انسان کو مٹی سے بنایا، اس لئے میں (جنّ ہونے کی وجہ سے) اس (آدم ؑ) سے بہتر ہوں اور تو مجھے اس دن تک مہلت دے کہ لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں۔ مہلت پانے کے بعد اس نے اللہ تعالیٰ سے صاف لفظوں میں عرض کیا کہ میں تیری سیدھی راہ پر ضرور ان (انسانوں) کی تاک میں بیٹھوں گا ،پھر ان پر ان کے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے آؤں گا ،اور تو ان میں اکثروں کو شکرگذار (یعنی حق پر قا ئم رہنے والا)نہ پائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہاں سے مردود ہو کر نکل ، جو کوئی ان میں سے تیری راہ پر چلے گا ، تو میں ضرور تم سب سے دوزخ کو بھر دوں گا ۔ ا س چیلنج کے بعد شیطان نے پہلے آدم ؑ کو بہکا تے ہوئے جنّت سے نکلوا کر دنیا میں اُتروا دیا اور اس کے بعد سے اب تک دنیا کے ہر انسان کو بہکانے میں لگا ہواہے ۔ دنیا کے تمام انسانوں کو بہکانے کے لئے اس نے اللہ سے ہمزاد کی مانگ کی تو اللہ نے ہر جن کے ساتھ ایک فرشتہ کو بھی انسان کا ہمزاد بنانا طے کیا۔ اس طرح دنیا میں جب بھی کوئی انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ایک ہمزاد جنّ اور فرشتہ بھی پیدا ہوتا ہے ۔ ہمزاد جنّ کو قرین بھی کہتے ہیں جو کہ شیطان کی فوج کا حصّہ ہوتا ہے اور انسانوں کے اندر نفس امّارہ کے ذر یعہ وسوسے ڈالتا ہتاہے۔ قرین کے مقابلے میں ہمزاد فرشتہ نفس لوّامہ کے ذریعہ بھلائی کی طرف بلاتا رہتا ہے۔ چوں کہ انسان جن یا فرشتوں کو دیکھ نہیںپاتا ، اس لئے اکثر اپنے ہمزاد جنّ سے غافل رہتا ہے، لیکن ہمزاد جنّ انسان سے کبھی غافل نہیں ہوتا اور پوری زندگی اسی کوشش میںرہتا ہے کہ انسان کو بھلائی کی راہ سے ہٹا کر برائی کی راہ پر ڈالے دے۔ دوسری طرف ہمزاد فرشتہ انسان کو بھلائی کی ترغیب دلاتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر انسان تقویٰ اور فجور کا مرکب بنایا گیا ہے۔ کبھی نیکی کرتا ہے تو کبھی برائی۔ انسانوں میں کامیات وہی ہے جو تقویٰ میں بڑھا ہوا ہو اور اپنے گناہوں پر اسرار کرنے کی بجائے توبہ استغفار کرنے والا ہو۔ جس انسان کو اس کا ہمزاد جنّ اپنے بس میں کر لیتا ہے، شیطان اس انسان کو اپنی فوج میں شامل کر کے انسانوں کے خلاف تیار کرتا ہے تاکہ وہ دوسرے انسانوں کو بہکانے میں شیطان کی مدد گار بن سکیں۔ دوسری جانب نیک انسان کی یہ پہچان ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔
اللہ نے جہاں شیطان کو اجازت اور مہلت دی کہ وہ دنیا میں انسانوں کو بہکا سکے، وہیںاس دنیا میں اپنے بندوں کو شیطان سے بچا کرنیکی کی راہ پر قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں ؑ کو احکامات دے کر بھیجتا رہا اور آخر کار نبی الکرم ﷺ پر قرآن مجید نازل کر کے رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کے لئے اس میں اپنے احکامات جمع کر دیا اور فرمایاکہ اس قرآن کو ہم ہی نے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اسی قرآن میں انسانوں کو جنّاتی شیاطین سے چوکنّا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: اے بنی آدم! دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر بہشت سے نکلوا دیا اور ان سے ان کے کپڑے اتروا دیئے تاکہ ان کے ستر ان کو کھول کر دکھا دے۔ وہ اور اس کے بھائی بند تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے، ہم نے شیطانوں کو انہی لوگوں کا رفیق بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔(سورۃ اعراف ، آیت ۲۷) ۔شیطان جہاںانسانوں کے عقائد میںبگاڑ پیدا کر کے انہیں توحید سے پھیرنے کی کوشش کرتاہے وہیں مختلف اخلاقی برائیوں کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ تکبر، بے حیائی، ریاکاری، بد گمانی، بے صبری، غصّہ ، لالچ، حسد اور بخل جیسی اخلاقی برائیوںکی وجہ سے اکثر انسان آپس میں دشمن بن جاتے ہیں۔ شکوک پیدا کر کے شیطان ایک انسان کو دوسرے کے خلاف بد گمان کرتا ہے، جس کی وجہ سے انسان اکثر انصاف اور احسان کی بجائے تنگ دلی کی حالت میں دوسروں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا معاملہ کرتا رہا ہے۔ وہ کبھی میاں بی وی میں جدائی ڈلواتا ہے تو کبھی بھائی بھائی کو آپس میں لڑواتا ہے، کبھی مال و دولت کی لالچ دلا کر انہیںایک دوسرے کی مدد کی بجائے بخل کی تعلیم دیتا ہے ، کبھی انفاق کی بجائے سرمایہ داری کی ترغیب دلاتا ہے۔ شیطانی تعلیمات کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھانے کی کوشش کرتا ہے۔ شیطان کے اکساوے پر انسان ایک دوسرے کا خون تک بہاتا ہے۔ ایک طرف شیطان کسی انسان کو دوسرے کے ساتھ نا انصافی اور ظلم پر اُکساتا ہے، تووہیں مظلوم کوصبر اوردر گزر کی بجائے بدلہ کے لئے اکساتا ہے ۔ اس طرح شیطان کو ایک دوسرے کے دلوں میں نفرت بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ انسانی معاشرے کو شیطان سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ انسانوں کے اندر سے شک اور بد گمانی کو دفع کر کے خوش گمانی (سد بھاؤنا) پھیلا یا جائے۔ انسانی سرگوشیوںکے متعلق رب العالمین فرماتا ہے کہ: ان(انسانوں) کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیںسوائے اس کے کہ جو کوئی خیرات یا بھلے کام یا لوگوں میں اصلاح کے لئے حکم دے اور جو کوئی اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایسا کرے گا، اسے ہم بڑا اجر دیں گے۔ (سورۃ النساء، آیت نمبر ۱۱۴) ۔ معلوم ہوا کہ انسانوں کے درمیان بد گمانیوں کو دور کر کے سدبھاؤنا پھیلانے کا کام کوئی سیاسی عمل نہیں بلکہ عبادت ہے ۔ سدبھاؤنا پھیلانا شیطان کے خلاف ایسا جہاد ہے جس میں تشدد نہیں بلکہ میٹھے بول اور پیار محبت پھیلایا جاتا ہے۔ ایسا جہاد وہی انسان کر سکتا ہے جو شیطانی چالوں کو سمجھ کر نہ صرف اس سے بچنا جانتا ہو بلکہ دوسروں کو بھی بچانا چاہتاہو۔
مارے ملک میں اگر مذہب کی بنیاد پر عدم رواداری بڑھ رہی ہے اور مذہبی تعصب کی وجہ سے ملک کا سماجی اور سیاسی ڈھانچہ ٹوٹ رہا ہے تو آج ایسے مرد مجاہد کی ضرورت ہیجو شیطان کے خلاف جہاد کرنے کیصلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسا وہی لوگ کر سکتے ہیں جو توحید میں پختہ ہوں اور شیطانی وسوسوں سے بچنا جانتے ہوں، جو صبر اور درگزر کر سکتے ہوں اور ہر حال میں انصاف پر قائم رہنے والے ہوں۔ آج ملک کے ہر مسلمان کومذہبی تعصب اور نفرت کو دفع کرنے کے لئے اپنی کمر کسنی ہوگی ۔ اگر چند مسلمان بھی شیطان کے اُکساوے میں آکر احکام الٰہی کے خلاف کوئی جہالت کا عمل کریں گے تو اس کا نقصان پورے امت کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان ایک دوسرے کو احکام الٰہی کی روشنی میں اصلاح معاشرہ کی ترغیب دلائے اور جو لوگ بدلہ کے لئے دوسروں کو اُکساتے ہیں ، انہیں سمجھائیں کہ شیطان بدلہ لینے کی ترغیب دلاتا ہے جب کہ اللہ صبر اور درگزر کی تعلیم دیتا ہے۔ بے شک اللہ صابرین کے ساتھ ہے۔
قرآن مجید میں مسلمانوں کو کفار کے فتنہ(آزمائش) سے بچنے کی دعا بھی سکھائی گئی ہے : اے ہمارے پروردگار ! ہم کو کافروں کے ذریعے فتنے(آزمائش) میں نہ ڈالنا اور اے ہمارے پروردگار !ہمیں معاف فرما بے شک تو غالب ہے حکمت والا ہے۔ (سورہ ممتحنہ، آیت ۵) لیکنیہ دعا تبھی قبول ہوگی جب مسلمان ان قرآنی احکامات پر عمل کرے گا جو کفار کے فتنہ(آزمائش ) سے بچانے والی ہیں۔ قابل غور ہے کہ جنگ احد کے موقع پر جب آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ ؓ کو شہید کیا گیا اور بڑی بے دردی سے اُن کا سینہ کاٹ کر میت کی بے حرمتی کی گئی لیکن آپ ؓ نے قاتل وحشی ؓاور اس کی سرپرست ہندہ ؓ سے کوئی بدلہ نہ لیا بلکہ معاف کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :درگزر اختیار کر اور نیکی کا حکم دے،اورجاہلوں سے کنارہ کر، اور (ایسا کرنے میں) اگر کوئی شیطانی وسوسہ آ جائے تو اللہ کی پناہ طلب کر لیا کر، بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ پرہیزگار تو شیطانی وسوسے کے آتے ہی چوکنّا ہو جاتے ہیں، پھر اسی وقت اُن کو سوجھ آ جاتی ہے ( کہ یہ تو شیطانی وسوسہ ہے)اور جو شیطانوں کے بھائی ہیں وہ(شیاطین) ان کو کھینچتے چلے جاتے ہیں گمراہی میں پھر وہ کمی نہیں کرتے ۔ (سورہ اعراف ، آیت ۱۹۹ تا ۲۰۲) ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنوں اور غیروںدرگزر سے کام لیں اور شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ طلب کریں۔ انسانوں کو شیطانی وسوسے سے بچانے کے لئے جہاں سورۃ فلق اور سورۃ الناس جیسی خاص دعائیں ہیں، وہیں عملی تدارک سجھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو اور یہ جو کچھ بیان کرتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے۔ اور کہو کہ اے پروردگار میں شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اے پروردگار! اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ (شیاطین) میرے پاس آ موجود ہوں۔ (سورۃ مومنون ، آیت ۹۶ تا ۹۸) اس کے علاوہ سورۃ حٰمٰ سجدہ، آیت نمبر ۳۴ سے ۳۶ میں فرمایا گیا کہ: نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، برائی کو بھلائی سے دفع کرو، پھر تیرا دشمن ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں، اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی اور نہیں پا سکتا، اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ سے پناہ طلب کر لیا کرو، یقینا وہ بہت ہی سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
اکثر متکبر وبدمزاج لوگ قرآنی احکامات سے بے پرواہی برتتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: ہم اس قرآن میں وہ کچھ اتارتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ، توظالموں کو یہ صرف نقصان میں بڑھاتا ہے (سورہ بنی اسرائیل ،آیت ۸۲) ۔ ظالم اور گمراہ لوگوں کے متعلق قرآن میں صاف کر دیا گیا کہ جو کوئی بھی اللہ کے احکامات کو فراموش کر کے شیطان کی پیروی اختیار کرتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایک شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیتا ہے، جو اُسے راہ حق سے روکتا رہتاہے اور وہ شخص سمجھتا ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے۔ ( سورۃ الزخرف ،آیت ۳۶ تا ۳۷ )۔ ایسے لوگ اصلاح ِمعاشر ہ کے بجائے مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کو دانستہ یا نادانستہ طور بھڑکانے کی غرض سے قرآن کی چند آیات کو کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے کفار وحریف کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے نفرت اور بڑھ جائے۔ یہ لوگ اسلام کے دشمنوں اور غدّاروںکے خلاف دفاعی کاروائیوں سے متعلق قرآنی آیتوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عام حالات میںتمام غیر مسلموں سے خواہ مخواہ کی دشمنی میں سخت رہیں اور دوسری طرف چند مسلمانوں کو بھی ان آیات سے گمراہ کر کے انہیں ہر ایک کا دشمن بننے کے لئے اکساتا ہے۔ اس طرح شیطان نے دنیا کے غیر مسلموں کی نگاہ میں مسلمانوں کو کٹر دشمن بنا کر پیش کر رکھا ہے ،دوسری جانب مسلمانوں کو ان آیتوں سے غافل رکھنے کی کوشش کی ہے جن پر عمل کرنے سے غیر مسلموں کی نگا ہوں میں مسلمانوں کی تصویر بہتر ہو جاتی ۔ شیطان مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے ساتھ درگزر کر کے انصاف اور احسان کا معاملہ کرنے کی بجائے انہیں اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کے لئے جوش دلاتا رہتا ہے۔ اس طرح شیطان نے مسلم قوم کو امن کا علمبردار بن کر ابھرنے کی بجائے پوری دنیا کی نظر میں امن کے لئے خطرہ بنا کر پیش کر دیا ہے۔شیطانی وسوسہ سے بچنے کے لئے قرآن مجید کی مختلف سورتوں اور آیات میں جامع دعائیں سکھائی گئی ہیں اور متعدد آیات اور سورتیں انسان کو انصاف اوراحسان کی تعلیم دیتی ہیں۔ فرمایا گیا کہ :اور جن لوگوں کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں اللہ کو بے ادبی سے بے سمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں۔ اس طرح ہم نے ہر ایک امت کے اعمال ان کی نظروں میں اچھے کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے۔ (سورہ انعام آیت ۱۰۸ ) ۔کیا سیکولرزم کی اس سے اچھی تعلیم دی جا سکتی ہے؟
اسلام میں صبر اور درگزر کی بڑی کلیدی اہمیت ہے ۔ جن کمزوروںکو ستایا گیا، تکلیفیں دی گئیں، ان کو بدلہ لینے کے اخلاقی حق دینے کے باوجود اللہ تعالیٰ فرمایاکہ اور اگر بدلہ بھی لو تو اتنا ہی جتنی تمہیں تکلیف پہنچی ہواور اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔ اور تو صبر کر اور تیرا صبر کرنا اللہ کی توفیق سے ہی ہے، اور ان پر افسوس نہ کر، اور ان کی وجہ سے تنگ نہ ہوجو وہ تدبیریں کرتے ہیں۔ (سورہ نحل آیت ۱۲۶ سے ۱۲۷)۔ دوسری جگہ فر مایا کہ: برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگذر کرے اور معاملے کو درست کر دے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتااور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں۔ الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو تکلیف دینے والا عذاب ہو گااور جو صبر کرے اور قصور معاف کر دے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
(بقیہ اگلے جمعہ شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)