مولانا نعمان نعیم
اسلامی ضابطۂ حیات میں حُسنِ معاشرت،خدمتِ خلق اور حقوق العباد کی ادائیگی کو بنیادی نیکی اور افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔ بالخصوص سخاوت اور مہمان نوازی مثالی اسلامی معاشرے کی پہچان اور اسلامی بھائی چارے کی روح ہے۔ اسلام مسلمانوں کو سخاوت اور انفاق کی تعلیم دیتا ہے۔ اس حوالے سے مہمان نوازی میں سخاوت بھی ہے اور انفاق بھی۔ قرآن و سنت میں اسے باعث اجرو ثواب عمل قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی خاطر تواضع کرے۔(صحیح بخاری)
سخاوت اور دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارات کرنا انبیاءؑ کی سنت ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے ساتھ ان کی عزت و تکریم کے حوالے سے معاملہ کیا۔ سورۃ الذاریات میں ارشاد ربانی ہے: کیا آپ کو ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟وہ جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، اور ابراہیمؑ نے سلام کا جواب دیا(اور کہا یہ تو ) اجنبی لوگ ہیں، پھر (چپ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے(کا بھنا ہواگوشت)لائے، اور اسے ان کے پاس رکھا ،انہوں نے اس ( ابراہیم علیہ السلام) کو ایک حلم والے لڑکے کی بشارت دی۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان کی عزت اور اس کا اکرام، خاطر و مدارات اپنی حیثیت کے مطابق کرنا ضروری اور واجب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاءؑ کا جامع اور افضل الرسل فرمایا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ سیرت میں سخاوت اورمہمان نوازی کی صفت اتنی اعلیٰ تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے،جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخاوت اور مہمان نوازی کے اعلیٰ ترین معیار کا نمونہ قائم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے،جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتاہے،تو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔(صحیح مسلم)
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے فرمایا: تمہارے مہمانوں کا تم پر حق ہے۔(صحیح بخاری)
سخاوت اورمہمان نوازی کو ایک فرض قرار دیتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن اور ایک رات تک اس کی (مہمان کی) خدمت تو اس کا انعام شمار ہوگی،جب کہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی،اس کے بعد کی خدمت صدقہ ہے۔ساتھ ہی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مہمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ ٹھہرا رہے اور اسے (میزبان کو) تکلیف میں ڈالے۔(سنن ابودائود)
جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ِطیبہ میں سخاوت اور مہمان نوازی کے بے شمار واقعات پاتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر جب کوئی مہمان آتا،توجو بھی بہتر سے بہتر میسر ہوتا، مہمان کی خدمت میں پیش فرماتے۔ بعض اوقات کھانے کے دوران اگر کوئی آجاتا تو اسے بے تکلفی سے اپنے ساتھ شامل فرما لیتے۔صحابہؓ میں جو بھی انتظامی ڈیوٹیاں تقسیم ہوتیں، ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ذمے بھی کچھ نہ کچھ ذمے داری لیتے۔ جب کافی تعداد میں مہمان آجایا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہؓ میں مہمانوں کو تقسیم فرما دیتے اور اپنے ساتھ مہمانوں کو گھر لے آیا کرتے۔
ابتدائی زمانہ غربت کا تھا ،نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحابہؓ کی فاقہ کشی کا علم تھا،اس لیے جب بھی کھانے کے ظاہری اسباب میسر آتے، چاہے وہ تھوڑے سے ہی ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ میری دعا سے برکت ڈالے گا،صحابہؓ کو بلوا لیتے اور ان لوگوں کو بھی بلوا لیتے جو بھوکے وہاں موجود ہوتے تھے، تاکہ ان کی بھی مہمان نوازی ہو جائے۔بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاں مہمان ٹھہرائے اور ان کے لیے مستقل خوراک کا انتظام فرمایا۔ بعد ازاں جب وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بھی مہمان نوازی کا انتظام فرماتے۔ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس تلاش میں رہتے کہ کسی طرح مہمان کی خدمت کا موقع ہاتھ آئے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات ایک کافر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں مہمان بنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے بکری کا دودھ لانے کا حکم فرمایا، جو اس نے پی لیا۔ پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔راوی کہتے ہیں کہ صبح اس نے اسلام قبول کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کے لیے دودھ لانے کا ارشاد فرمایا تو اس نے پی لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری بکری کا دودھ لانے کا ارشاد فرمایا تو وہ پورا دودھ ختم نہ کرسکا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، جب کہ کافر سات آنتوں کو بھرتا ہے۔ (جامع ترمذی)
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض مرتبہ وفود کی مہمان نوازی کا فرض صحابہؓ کے سپرد فرماتے ۔ایک دفعہ قبیلہ قیس کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصارؓ کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا، چناںچہ انصارؓان مہمانوں کو لے گئے۔ صبح وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: تمہارے میزبانوں نے تمہاری کیسی خدمت کی، انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے،عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔ (مسند احمد)
حضرت ابوشریح ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایے کی تکریم کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر ( یعنی خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ عرض کیا گیا : ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ’’جائزہ‘‘ کیا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی ) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن، تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو، وہ صدقہ شمار ہوتی ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے ،ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘ (الادب المفرد)
مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کیجئے، مہمان زحمت نہیں، بلکہ رحمت اور خیرو برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اوراللہ جسے آپ کے یہاں بھیجتا ہے اس کا رزق بھی اُتاردیتا ہے۔ روایت کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جب مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتِ خود ان کی خاطر داری فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہمان کو اپنے دستر خوان پر کھانا کھلاتے۔
حضرت ابو الاحوص جشمیؓ اپنے والد کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، اگر کسی کے پاس میرا گزر ہو اور وہ میری ضیافت اور مہمانی کا حق ادا نہ کرے اور پھر کچھ دنوں کے بعد اس کا گزر میرے پاس ہو تو کیا میں اس کی مہمانی کا حق ادا کروں؟ یا اس کی بے مروّتی اور بے رخی کا بدلہ اسے چکھاؤں؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں ،بلکہ تم ہرحال میں اس کی مہمانی کا حق ادا کرو۔(مشکوٰۃ)اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حال میں سخاوت اور دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہمان کا خیال رکھا جائے ۔ اگر آپ کے مہمان نے کبھی کسی موقع پر آپ کے ساتھ بے مروّتی اور روکھے پن کاسلوک کیا ہو ،تب بھی آپ اس کے ساتھ نہایت فراخ دلی، وسعت ظرفی اور فیاضی کا سلوک کیجئےاور حتیٰ الامکان اس کی میزبانی میں کوئی کمی نہ کیجئے۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو ارشاد فرمایا:تمہارے مہمانوں کا تم پر حق ہے۔(صحیح بخاری)
مہمان نوازی کو ایک فرض قرار دیتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت وتکریم کرے۔ایک دن اور ایک رات تک اس کی (مہمان کی) خدمت تو اس کا انعام شمار ہوگی،جب کہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی، اس کے بعد کی خدمت صدقہ ہے۔ مہمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ ٹھہرا رہے اور اسے (میزبان کو) تکلیف میں ڈالے۔(سنن ابودائود)
ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ مہمان آئے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا:کھانے کے لیے کچھ لائیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا پیش کیا جو مہمان نے تناول کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ فرمایا کہ کھانے کے لیے کچھ لائیں۔ حضرت عائشہؓ نے حریسہ نامی کھانا پیش کیا جو مہمانوں نے کھا لیا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کچھ پینے کے لیے لائیں،وہ ایک پیالے میں دودھ لائیں جو مہمانوں نے پی لیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہمانوں سے فرمایا: چاہو تو یہیں سو جائو یا مسجد میں چلے جائو۔ مہمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لے کر مسجد میں سو گئے۔ (سنن ابودائود)
حضرت ام سلیمؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ’’حیس‘‘ نامی کھانا تیار کروا کر حضرت انسؓ کے ہاتھ بھجوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس برتن کو یہیں رکھ دو اور کچھ افراد کے نام لیے کہ انہیں بلالائو اورہر وہ شخص جو تمہیں ملے تو اسے کہنا کہ میں بلا رہا ہوں۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں جب واپس آیا تو گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کھانے پر رکھا اور اسے برکت دینے کے لیے کچھ دیر دعا کرتے رہے۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس دس افراد کو بلوانے لگے جو اس برتن میں سے کھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے فرماتے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھائو اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح ان سب کو کھلاتے رہے، یہاں تک کہ ان سب نےخوب سیر ہوکر کھا لیا۔ (صحیح بخاری)
مہمان کاخصوصی اعزاز و اکرام ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے ، مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘ ( بخاری، مسلم )اللہ تعالیٰ ہمیں سخاوت اور مہمان نوازی کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)