اپنے افلاطونِ زماں جب ہریسۂ زعفرانی کی دوکان پر علی الصبح بیٹھے بیٹھے اس نعمت ِ لحم کا مزہ لیتے ہیں تو منہ سے خوشبو کے ساتھ ساتھ سیاسی بخارات،علمی تجاوزات ، عقلی خرافات اورمزے دار تبصرہ جات بھی انڈیل دیتے ہیں۔ پھر اس سب کی ایک ایسی چٹنی تیار ہوتی ہے کہ بڑے بڑے ارسطو ئے وقت دَنگ رہ جاتے ہیں کہ ہمیں پہلے ایسا خیال کیوں نہ سوجھا ۔ اسی لئے بڑے جگادری کہہ گئے ہیں کہ ملک کشمیر میں سب کچھ سچ نہ بھی ہو مگرافواہیں صد فی صد مبنی بر حق ہوتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شاید لارنس صاحب کو لکھنا پڑا تھا کہ ملک کشمیر میں من چلے البیلے افواہیں پسند بھی کرتے ہیں اور ان پر اپنا گزارہ بھی چلاتے ہیں۔ خیربات ہریسے کی چل نکلی اور ان دنوں ہلکی سردی کے ساتھ ہریسے کا موسم بھی آن پڑا ہے ،اس لئے بلدیہ کے کندہ ٔ ناتراش فوج درفوج ممبران سے لے کر سیاست کی اونچی دوکان اور پھیکے پکوان تک تبصرے کے لپیٹے میں آ جاتے ہیں۔پھر کس میں کتنا نون مرچ سما جائے ،وہ اس کی اپنی قسمت ہے۔اور نمک مرچ سے کسے کھجلی کا کتنادورہ پڑ جائے یہ تو وہی جانے جسے لگ کھجالی سے عشق ہو جائے۔مرچوں کا کیا ہے وہ تو فلمی ہیرو نے کب کا مسلٔہ حل کر کے رکھ دیا کہ تم کو مرچی لگی تو میں کیا کروں۔پھر جب مرچی سبز ہو یا سرخ سفوف اسے کرفیو کی بند ش نہ پیلٹ کی بوچھاڑ روک سکتی ، کیوںکہ کشمیر کے جنگل میں یہ افسپا کی چنگل سے آزاد ہے، شاد ہے ، آباد ہے۔شاید اسی لئے کہیں کہیں اسے وردی پوشوں پر بھی پھینکا جاتا ہے ۔ اس چمتکاری ہلچل کون ہتھیار لے کر کیسے بھاگا ، وہ وردی پوش کے باپ دادا کیا اَن داتا بھی نہیں سمجھ پاتے ۔مرچی پر کسی بھی عدالت میں مقدمے نہیں کیا جا سکتا کہ عام خام پر لگانے کی پادش میں مرچ باز پر ہتک عزت کا مقدمہ ٹھوک دو۔ خیرطلسمات ہریسہ زعفرانی سے تازہ ترین تبصرہ ملک کشمیر میں آنے والے صاحبان بہادر یعنی مکینان راج بھون پر ہے ۔ ہو نہ ہو اپنے ملک کشمیر میں جو بھی گورنر تعینات ہو کے آتا ہے وہ بنیادی طور ہوتا ہے مرکز ی پاور ہائوس کا تگڑاٹرانسفارمر یا یوں کہیے کہ اس کے آس پاس اقتدار کی تینتیس ہزار وولٹ بجلی رہتی ہے کہ جس نے ہاتھ لگایا وہ زمین سے اُٹھتا نہیں بلکہ اُڑ جاتا ہے۔ہر گورنر بہادر کے دائیں بائیں آگے پیچھے پردھان منتری کی تھپکی، وزارت وردی و ہتھیار کی گرمی ،ناگپور و جن پتھ کی مشترکہ بھبھکی اور ملک کشمیر کے دلی نوازوں کی جی حضوری شامل حال رہتی ہے۔ مر کز کایہ لاڈلا اشوک چکر مارکہ اصلی دیسی گھی کے پراٹھے کھا کر طاقت ور ہوتا ہے۔ ہندوتو برانڈ کمپلان اور وٹامن کی گولیاں کھا کھا کر جوان ہوتا ہے ۔جبھی تو ملک کشمیر پہنچ کر کارنامے پہ کارنامہ انجام دیتا ہے ۔ اب دیکھئے نااپنے پہلے ا ور آخری صدر ریاست نے سن ۵۳؍ میں بلا دستخط چٹھی کے دَم پر ایک با قد مگربے اختیار وزیر اعظم کو حوالات میں ایسے ڈالا کہ بڑے لیڈر کو سال ہا سال جیل کے صحن میں چھوٹی چھوٹی سیاسی مرغیاں پالنے کے سوا کچھ نہ آیا ،بائیس سال تک اسی آوارہ گرد پولٹری ٹریڈ پر چلتے چلتے اکارڈ کا ایک خاندانی ڈربہ بنایا ، جو خیر سے کرسی کے ا نڈے دیتا پھر تاہے ۔ پھر ایک اور نر سنگ آرڈر لی بنا ترکمان گیٹ کی گلیاں پھلانگتا ، مکینوں کو روندتا ہوا ملک ِ کشمیر آیااور گلہ شاہ کو اس طرح پادشاہ بنایا کہ کرفیو بے چارہ کرفیو نافذ ہوتے ہوتے اتناتھک گیا کہ لفظ کرفیو ہی اس کے نام نامی کا لاحقہ بنا۔دوبارہ یہی کاکر خان واردِ کشمیر ہوا تو جبری امن کا رقعہ اُس کے ہاتھ سے ایسے کھسکا کہ آج تک مٹھی میں آ ہی نہیں رہا۔اس نے طیش میں آکر نہ معلوم کتنے بسنت باغ ، زکورہ، کھریو میں جلیاں والے باغ کشمیری خون سے سینچ کر واپسی کی راہ لی اور جاتے جاتے پنڈتوں کو گود لے کر کشمیری باھئی چارے میں سیندھ لگائی۔اب کی بار ہر راز کا کھلا اعلان کرنے والے رائے بہادر ستیہ پال تخت ِکشمیر کا بخت پاگئے ہیں۔ یہ ایک دن کڑوا سچ، دوسرے دن تردید ِسچ تیسرے دن تائید ِسچ کے عادی لگتے ہیں۔ اللہ خیر کرے ،ادھر تو دلی دربار کے کشمیری حاشیہ برداروں کو چیتائونی دے ڈالی کہ تم تو بس بھتہ سازندر بے ر ہو تو ٹھیک، بھلا بقول دانایانِ کشمیر خارش زدہ پاجامے میں تمہاراٹانگ کا ہے کو ڈالنا ؟یہ بھارت ورش اور مملکت خداداد کی بات چیت والی فائل میں تو تمہارا نام باہری کور پر بھی موجود نہیں، پھر کیا ٹر ٹر لگا رکھی ہے ۔اسے کہتے ہیں گھوڑوں کے ٹاپوں پر نال ٹھوکے جا ئیں گدھے اپنی ٹانگیں آگے کر بیٹھیں۔
سنا ہے اپنے نیشنلی قائد ثانی اور بانوئے کشمیر اس بات پر ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے کہ بھلا ہم برس ہا برس سے دلی دربار کے فرشی ٹائیلیں اپنی جبینوں سے صاف کرگئے ، اپنی وفاؤں کا امتحان کشمیر میں قبروں کی تعداد بڑھا بڑھا کر فسٹ کلاس میں پاس کر چکے، بھارت ماتا کی جے جے کار کرتے رہے، ہمارا گلہ ہے کیا یہی اس کا صلہ ہے کہ راج بھون کا مکین ہمیں اپنے اُس صحن کی گھاس بھی نہ ڈالے جہاں وہ دھوپ سینکتا اور سہ پہرکی چائے بڑے چاؤ سے نوش کرتا ہے ۔ابھی تو رائے بہادر ملک صاحب ملک کشمیر کے اداروں کا معمولی پوسٹ مارٹم کر بیٹھے کہ صاحب یہاں جو تین میں نہ تیرہ میں ہوتا ہے وہی سو کی گنتی پار کرتا ہے۔ہریسہ اینڈ تبصرہ کمپنی یہ سوچ بچار کر رہی ہے کہ نہ جانے کیوں قلم والے ستار بٹ اور دوات والی قاہرہ خان حیران وپریشان ہیں کہ صاحب بہادر نے سارے کشمیریوں کو چور وں کی فہرست میں ڈال کر چور اچکوں کی مردم شماری اتنی جلدی کیسے کردی ؟اس پر بے چارے بر طرف شدہ قلم بردار’’ٹرجمان ‘‘ یعنی پارٹی سپوکس مین کو کیسے سمجھائیں کہ صاحب بہادر نے قلم دانوں اور کنول برداروں پر نشانہ سادھا ہے اہل کشمیر پر نہیں ۔ ’’ٹرجمان ‘‘ نے خالص اپنی صفائی محض اپنی ستھرائی میں چیخا چلایا بھائی لوگو! ہم دودھ کے دُھلے ہیں، قطبین کے باشندے ہیں، شہد کی طرح مٹھاس کے خزینے ہیں ۔ ہم سوچوہے کھانے والی بلی کے حج پر کیا کہین ، ماسوائے یہ کہ صاحب بہادر جی ! فہرست ِبد عنوانان میں عام خام کشمیری کو میں نہ لائیں کیونکہ باشندگان ِ ملک کشمیر الگ زمین کا پشوپکھشی ہیں،اس کے پادشاہ الگ آسمان کے گدھ ہیں ، اس زمینی مخلوق پر میک اِن انڈیا آسمانی مخلوق نے کہیں زبردستی، کہیں چالاکی ، کہیں مکاری، کہیں سبز باغوں ، کہیں پار کے نمک ڈلیوں سے راج تاج کیا۔اتنا ہی نہیں نیشنل کے ٹویٹر ٹایئگر نے اپنے دانت تیز کرکے قلم اور کنول برداروں کو دکھائے کہ عام خام کسی شمار وقطار میں نہ تھا بلکہ یہ اپنے ہی بھائی بند، چاچے بھتیجے کو سرکاری محکموں میں لے آتے رہے۔ کیا کھادی اینڈ ولیج بورڈ کی نوکریاں اور اب بنک کے کاؤنٹر سب قلم کنول برداروں کے نام منتقل نہیں ہوئے؟ ہریسہ اینڈ تبصرہ کمپنی کے لوگ بھی بڑے کھلنڈرے ہیں، منچلے ہیں، دل جلے ہیں ۔ فوراً آئیں بائیں شائیں کر کے دو بندروں کی کہانی میدان میں اُتار دیتے ہیں اور ہم ہیں کہ ہنسی چھوٹنے کے سوا کریں بھی تو کیا؟
ملک صاحب نے ایک اور ستیہ بول کر مودی مہاراج کے دست راست کی ریلاینس کو بھی ۳۷۰ کے خلاف چارسوبیسی کرنے کی پاداش میں کشمیر بدر کردیا ،کہا بھائی آج کل تمہارا ستارہ گردش میں ہے ۔ادھر رافیل جنگی جہازوں کی خریداری میں تم پچھلے دروازے سے گھس آئے ، وہاں بھی چوری کے الزام میں تمہیں دھر دبوچا گیا کہ بات عدالت عظمیٰ تک پہنچی ۔یہاں سانٹھ گانٹھ کرکے جو ساٹھ کروڑ ایڈوانس لئے، وہ واپس کرو، ورنہ۔۔ ۔ غریب ملازمین کی تنخواہوں سے کٹا پیسہ واپس کر، نہیں تو غریبوں کی آہ لگے گی کہ ابھی تک تیس ہزار کروڑ کا قرضہ تمہارے نام ہے، یہ ساٹھ کروڑ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں، بمہربانی باخذ رسید واپس کردو ۔ اپنا ویجی لنس مودی کے یار کی کیا تحقیقات کرے گا؟ سی آئی بی کا حال احوال معلوم ہی ہے ۔ جانے اپنے ہریسہ اینڈ تبصرہ کمپنی کو کیوں اعتبار نہیں آتا کہ کچھ بھی نہ ہوگا۔
لوجی !اپنے ملک کشمیر میں ایک نئی فوج ظفر موج بھرتی ہوئی ہے جسے بلدیہ بر گیڈ کہیں تو شاید ٹھیک ہی رہے گا ۔ خیالی الیکشن کے دوران اِن نئے چہروں سے ملاقات نہ ہو سکی کہ یہ منہ چھپائے ایسے پھرتے تھے مانو کہیں چوری چکاری کا الزام ہو، پولیس نے اشتہاری ملزم قرار دیا ہو ، دیکھتے ہی زندہ وپائندہ پیش کرنے پر زر نقدانعام کا اعلان کیا ہو۔خیر تقریب حلف برداری( صحیح میں مال کی یاری ) میں انہیں سامنے آنا ہی پڑا۔واہ ! شامت اعمال سے یا اپنا جلال دکھانے کے لئے اس لشکر جرار نے انگریزی میں ہاتھ تنگ اور جیب خالی ہونے کے باوجود حلف اسی کرم جلی زبان میں اٹھانے کی زحمت گوارا کی ۔پھر کیا تھا ،ڈویژنل کمشنر بصیر خان کے کان کھڑے ہوگئے ، کیوں نہ ہوتے پہلی بار دیکھا کہ یکایک اَن سنے انگریزی الفاظ کیسے جنم پاگئے ، نت نئے جملے کیسے تراشے گئے، ہجے کے جدید قواعد کیسے بنے ، لکنت ِ زبان کے کیا کیا نامانوس منظر وجود پاگئے ۔ انگریز قوم اپنی زبان کی یہ مفت خدمت دیکھتی تو سینہ کوبی کر تی ، ماتھا پیٹتی، جگر تھام کر بلدیہ کے ان چلتے پُرزوں کی بلائیاں لیتی کہ شیکسپئر ان کی کلاسیکل انگلش کے سامنے مکھی کے بر ابر بھی نہیں ، ورڈس ورتھ مچھر لگتا ہے، ملٹن ادبی فن سے ناآشنا دِکھتا ہے ۔ برطانیہ احتجاج کرتا کہ آج تک ان ہیروں کو کیوں پتھر سمجھ کر ہماری نظروں سے اوجھل رکھا گیا ؟ ضرور یہ کوئی سازش ہے۔ دلی لاکھ قسمیں کھاتی کہ یہ ہمارے چہیتے ہیں مگر ولایت ان پر یقین نہ کرتا ۔ ان کی زبانی بول چال سن کر اہل زبان قبروں میں کروٹیں لینے پر کیوں نہ مجبور ہو جاتے ؟ ان بھونپوؤں نے اُردو کو بھی ایک ایسا پورن جنم دیا کہ میرؔ وغالبؔ سنیں تو قبر پھاڑکراوربائیکاٹ چھوڑ کر اپنا ووٹ انہی پر نچھاور کرتے، یہ گنگناتے ہوئے ع
زبانِ یار من ترکی،ومن تُرکی نمی دانم
زبان وبیان کی بات چھوڑیئے ،اب تو ملک کشمیر کی تعمیر و ترقی کو صاحب بہادر ملک صاحب نے انہی گرو گھنٹالوں کے حوالے کر کے خود شاہی لائو لشکر لئے گرم پتھری پدھارے کیوں کہ اب کھنہ بل سے کھادن یار اور سونہ مرگ سے سورسیار تک تین چلّوںکا بلا شرکت غیرے راج ہوگا۔حالانکہ ملک کشمیر والے ارباب ِاقتدار وختیار کے غائب ہوجانے پر خوش ہیں کہ چلو یہاں کی تنگ سڑکوں کو جھنڈے اور ڈنڈے دار گاڑیوں کے بیچ پسے جانے سے شش ماہی نجات تو ملی۔
ڈوگر دیش کے روح روانو!جامبو لوچن کے پاسبانو!با ادب با ملاحظہ ہوشیار،تشریف لا رہے ہیں افرا سیابِ دوران،ستم ہائے غریبان کے سوداگران، آسیب خورد و کلان آپ کے یہاں دربار منتقل کر گئے ہیں۔ یہ سلسلہ طولانی سالہا سال سے غریب عوام کی چھاتی پر مونگ دَلنے،ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے ،عیش و آرام کے دن گزارنے کے لئے چلتا آرہاہے۔ اے گرم ہواؤ! قسمت کے دھنی تمام پادشاہ اختیار و اقتدار کی مثلیں،جھنڈے، ڈنڈے، لال بتیاں سمیٹے جہلم چھوڑ کر تمہارے مہمان بنے آئے،خوب آؤ بھگت کر نا ، خاطر تواضع کر نا۔ بہت اچھے ڈوگر دیش کی سڑکوں پر رنگ و روغن چڑھ رہا ہے ، جن سڑکو ں سے ان کا گزر ہو اُنہیں صابن شیمپوسے نہلایا جارہاہے ،کھڈوں میں کنکر تارکول بچھ رہا ہے،پلوں کے ریلنگ پر سفید رنگ روغن چڑھ رہا ہے ، سڑکوں پر پیڑپودوں کی گرد جھاڑ ی جا رہی ہے ۔ ہاں، اسی دوران یہاں سرد پتھری میں نرم و نازک کھلتے گلابوں کو پیلٹ اور بُلیٹ سے دُھول میںبدلنے کا شغل بھی جاری ہے۔ اس بیچ کنول قلم بردار اور ہل بردار بمع یک عدد ہاتھ بڑی حسرت سے اُس حسین وجمیل گھڑی کے خواب بُن رہے ہیں جب اگلے دربارمو میں گرم پتھری اُن کے قدموں کے نیچے بچھی ہو، اُن کا شاہانہ استقبال ہو، سیکرٹریٹ میں مارچ پاسٹ پر وہ سلامی لیں ، اُنہی کے آگے پیچھے ہٹو بچو کی راگ گنیاں بجیں مگر فی ا لحال یہ سیتہ پال کاجلال زمانے کی بول چال ہے ؎
غالب ہوا ہے عشق پہ یوں رنگ حکومت
معشوق میں وہ جذبۂ ایثار کیا ہوا
مشکل میں ہاتھ چھوڑ دے خوشیوں میں ساتھ دے
گویا کہ پیار نہ ہوا دربار موو ہوا
بشیر دادا
رابط ([email protected]/9419009169)