ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
احترام الحیات نے اپنا ناول لکھنے سے پہلے چند اہم باتیں ذہن نشیں کرلی تھیں ۔پہلی بات یہ کہ وہ ایک ایسا ناول لکھے گا جس کا عنوان تجسّس آمیز ہو۔دوسری بات یہ کہ اُس کا موضوع نہایت اہم اور اچھوتا ہو۔تیسری بات یہ کہ اُس میں کمال کی فنکاری اور زبان وبیان کی سحر انگیزی ہو۔چوتھی بات یہ کہ وہ حقیقت وادبیت کا حسیں امتزاج ہو۔ان تمام باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اُس نے اپنے ناول کے لئے ایک عنوان ’’یہ کہاں آگئے ہم ‘‘تجویز کیا۔پورے جوش وجذبے کے ساتھ اُس نے حیات وکائنات کی صداقتوں کو موضوع بناتے ہوئے ناول لکھنا شروع کیا ۔اُس نے مختلف واقعات کی منطقی ترتیب کے تحت پلاٹ سازی،کردار نگاری،ماحول ومنظر نگاری،مکالمہ نگاری اور زبان وبیان پر خاصی محنت کرنے کے بعد تقریباً تین سال میں چارسو اسّی صفحات پہ مشتمل ناول’’یہ کہاں آگئے ہم‘‘لکھا۔اس ناول کو لکھنے کے دوران احترام الحیات نے کافی محنت کی ۔اُس کی تخلیقی حِس نے اُسے اس بات پر خاص دھیان دینے پر مجبور کیا کہ کوئی بھی واقعہ غیر ضروری قرار نہ پائے اور نہ ہی کوئی ایسا جملہ لکھا جائے جو غیر ادبی ہو اور رسوائی کا باعث بنے،کیونکہ اُسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ شاعری اور فکشن نگاری کے منفی ومثبت اثرات قارئین کے دل ودماغ میں تادم حیات موجود رہتے ہیں ۔اس لئے اُس نے اپنے ناول ’’یہ کہاں آگئے ہم‘‘کا مسّودہ تیار کرنے کے بعد اُس کے ایک ایک لفظ پہ بار بار غور وفکر کیا۔تخلیقی عمل کے دوران جہاں اُس سے زبان وبیان کی غلطیاں رہ گئی تھیں اُنھیں دُرست کیا۔کرداروں کی آپسی بات چیت کو مؤثر بنانے کے لئے کچھ جملوں میں حذف واضافہ کیا ۔بار بار فنی لوازمات کے برتاؤ پر دھیان دیا تاکہ کہانی پن میں کسی طرح کا جھول باقی نہ رہے ۔اپنے ناول کو بہت زیادہ معیاری بنانے کے لئے وہ جتنی محنت کرسکتا تھا وہ اُس نے کی ۔جب اُسے اس بات کی تسلّی ہوئی کہ اُس کا لکھاناول تمام فنی ،موضوعاتی اورزبان وبیان کی خوبیوں کے اعتبار سے مکمل ہے تو تب اُس نے یہ چاہا کہ وہ کتابی صورت میں شائع کروانے سے پہلے اپنے ناول’’یہ کہاں آگئے ہم‘‘کا مسّودہ ملک کے مشہور ومعروف شاعر،خاکہ نگار،محقق اور فکشن کے نقاد صغیر القمرکے نام وپتے پہ اس لئے بھیج دے تاکہ وہ اسے پڑھنے کے بعد ایک بے لاگ اور بصیرت افروز تنقیدی مضمون لکھ کے مسّودہ واپس بھیج دیں ۔احترام الحیات کو دل ہی دل میں یہ خوشی ہورہی تھی کہ صغیر القمر کا تنقیدی مضمون جب اُس کے ناول کے ابتدائی صفحات میں شامل اشاعت رہے گا تو اُس کے ناول کی عظمت میں اضافہ ہوگا۔اسی خوش فہمی میں اُس نے ایک دن صغیر القمر کو فون کیا ۔ اُس نے سلام ودُعا کے بعد کہا
’’جناب میں احترام الحیات عرض کررہا ہوں۔آپ خیریت سے ہیں؟‘‘
صغیر القمر نے فوراً احترام الحیات کی آواز پہچان لی ،کہنے لگے
’’ارے ! احترام ،کیا حال ہے؟ ‘‘
احترام الحیات نے جواب دیا
’’جناب اللہ کے فضل سے خیریت سے ہوں‘‘
صغیر القمر بولے
بھائی آپ کی تحریریں اخبارات ورسائل میں پڑھتا رہتا ہوں۔بہت اچھا لکھتے ہیں آپ،خداکرے زور قلم اور زیادہ!‘‘
احترام الحیات نے کہا
’’جناب یہ سب اللہ تعالیٰ کا مجھ پہ کرم ہے کہ لکھنے پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میں نے حال ہی میں اپنا پہلا ناول ’’یہ کہاں آگئے ہم‘‘مکمل طور پر لکھ لیا ہے۔میرا یہ ناول مسّودے کی صورت میں چارسو اسّی صفحات پہ مشتمل ہے ۔آپ کی خدمت میں آپ کے نام وپتے پہ برائے مطالعہ وبصیرت افروز تنقیدی مضمون کی فرمائش کے ساتھ ارسال کرنا چاہتا ہوں ۔آپ کی اجازت ہو تو ناول ارسال کردوں؟‘‘
صغیر القمر نے کسی حدتک مسرت آمیز لہجے میں کہا
’’ارے ! کیا بات ہے ،آپ کو میری طرف سے بہت بہت مبارک۔پہلی فرصت میں میرے نام وپتے پہ اپنا تحریر کردہ ناول بھیج دیجیے۔میں اسے لفظ لفظ پڑھوں گااور اُس پہ لکھوںگا‘‘
احترام الحق نے دوسرے ہی دن اچھی طرح اپنے ناول کا مسّودہ ایک مضبوط لفافے میں ڈال کر اُس پہ صغیر القمر کا نام وپتہ لکھا۔اُس کے بعد جنرل پوسٹ آفس میں آکر ڈھائی سو روپے کی ادائیگی کے بعد سپیڈ پوسٹ کے ذریعے ناول کا مسّودہ ارسال کردیا۔پوسٹ آفس والے نے اُسے رسید پکڑائی تو اُس نے پوچھا
’’بھائی صاحب یہ کب تک پہنچے گا؟‘‘
پوسٹ آفس والے نے جواب دیا
’’تین دن میں پہنچ جانا چاہیے‘‘
احترام الحیات کوناول کا مسّودہ ارسال کرنے کے ایک ہفتہ بعد صغیر القمر کا فون آیاکہ اُنھیں مسودہ موصول ہوچکا ہے ۔کوئی ڈیڑھ ماہ گزرجانے کے بعد جب ایک روز احترام الحیات نے صغیر القمر کو فون کیا تو اُنھوں نے کہا
’’احترام ! میرے دوست میں نے دراصل ابھی تک آپ کا ناول پڑھنا شروع نہیں کیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک عالمی مشاعرے میں شرکت کے لئے جرمنی جارہا ہوں۔وہاں سے واپس آکر ہی میں اسے پڑھنا شروع کروں گا۔آپ اطمینان رکھیں‘‘
کوئی تین ماہ گزرجانے کے بعد احترام الحیات نے ایک دن صغیر القمر کوفون پہ کہا
’’جناب مجھے اُمید ہے آپ نے میراناول پڑھ لیا ہوگا۔میں آپ کے بصیرت افروز تنقیدی مضمون کے بغیر اسے چھپوانا نہیں چاہتا ہوں ۔اس لئے آپ سے میری استدعا ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے اپنا مضمون ارسال فرمائیں ،نوازش ہوگی‘‘
صغیر القمر نے کہا
’’احترام ! میں معذر خواہ ہوں ۔میری مصروفیات بہت زیادہ ہیں ۔ان دنوں ایک قومی سیمینار کے لئے تحقیق پرمقالہ لکھ رہاہوں ۔بس اُس سے فارغ ہوتے ہی آپ کے ناول کو پڑھنا شروع کروں گا اور پڑھنے کے فوراً بعد ایک جامع مضمون لکھ کے آپ کے نام وپتے پر ارسال کردوں گا۔آپ کی طبعیت اُسے دیکھ کے خوش ہوجائے گی‘‘
احترام الحیات نے اطمینان کی سانس لی ،اُس نے کہا
’’ جناب آپ کی نوازش، میری سعادت مندی ۔مجھے آپ کے مضمون کا بے تابی سے انتظار رہے گا‘‘
چھ ماہ کے بعد جب ایک روز ڈاکیے نے رجسٹرڈ لفافہ احترام الحیات کے ہاتھ میں پکڑانے کے بعد اُس سے ایک الگ کاغذ پہ دستخط کروائے تو وہ بہت خوش ہوا یہ سوچتے ہوئے کہ دیر سے ہی سہی آخر کار میرے ناول ’’یہ کہاں آگئے ہم‘‘پہ صغیر القمر کامضمون آہی گیا۔اُس نے کمرے میں آکر بڑے شوق کے ساتھ لفافہ چاک کیا ۔لفافے کے اندر صغیر القمر نے اپنے لیٹر پیڈ پہ احترام الحیات کے ناول پہ کُل ساڑھے آٹھ تعریفی جملے لکھے تھے ۔یہ سب کچھ دیکھ کے احترام الحیات دیر تک بہت کچھ سوچتا رہا ۔اُس کے چہرے سے غم وغصے کے آثار نمایاں ہورہے تھے ۔اب وہ یہ فیصلہ نہیں کرپارہا تھاکہ وہ صغیر القمر کے لکھے ان ساڑھے آٹھ جملوں والے کاغذ کو نذر ِ آتش کرے یا اپنے ناول کے ابتدائی صفحات میں انھیں شامل کرے۔
���
ہائو س نمبر7لین نمبر3،فردوس آباد سنجواں جموں
موبائل نمبر؛7889952532