پرویز مانوس
گُزشتہ کئی روز سے تمام شہر پر گہرا سکوت چھایا ہوا تھا۔ ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔ سورج آسمان میں چھپ چکا تھا، اور اُس کی روشنی کسی کے دل و دماغ میں باقی نہ تھی۔ وہاں صرف ایک آدمی تھا، ایک طاقتور سامری جس نے اپنی تپسیا کی طاقت سے سورج کو قابو میں کر رکھا تھا۔ وہ شہر کا اکیلا مالک بن چکا تھا اور ہر کوئی اُس کی طاقت کے سامنے بے بس تھا۔ اُسے اُجالے سے اس لئے نفرت تھی کیونکہ روشنی میں لوگ اُس کے عیبوں پر نظر رکھتے تھے جو اُسے ہرگز منظور نہیں تھا۔
سورج، جو کبھی زندگی کا منبع تھا، اب ایک ایسا ہتھیار بن چکا تھا جس سے سامری نے پوری کائنات کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا تھا۔ اُس نے ایک دن اپنا راز لوگوں کے سامنے ظاہر کیا اور کہا، “تم سب کی آنکھیں اب میرے پاس گروہی ہیں۔ میں جب چاہوں تمہیں روشنی دکھاؤں گا اور جب چاہوں تمہیں اندھیروں میں دھکیل دوں گا۔”
لوگ حیران، مایوس اور بے بس تھے۔ اُن کی آنکھیں سامری کے قبضے میں تھیں اور جب بھی وہ انہیں دنیا دکھانا چاہتا، وہ چند لمحوں کے لئے آنکھیں واپس دے دیتا۔ پھر، جیسے ہی اُن کی نگاہ کچھ سمجھنے کے قابل ہونے لگتیں ، وہ اُن سے آنکھیں واپس چھین لیتا۔ یہ ایک مسلسل اذیت کا کھیل تھا جو سامری کھیل رہا تھا۔
اندھیرا قائم رہے…………!
اندھیرا قائم رہے……….!
تاریک شہر میں یہ آوازیں دن بھر گونجتی رہتیں، لوگو ں کو کچھ خبر نہ تھی، دن ہے کہ رات ہے ۔
شہر کے لوگ اب روشنی کے لئے ترس رہے تھے۔ نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہورہے تھے اور بزرگوں کے پاؤں ٹھوکریں کھاتے کھاتے بُری طرح زخمی ہوچکے تھے۔
وہ ہر روز سامری کے محل کے سامنے جمع ہوکر اُس سے روشنی کی بھیک مانگتے۔
” خُدارا ہمیں تھوڑی سی روشنی دے دو …………!
“ہمیں روشنی چاہیے…….!
ہمیں اپنی آنکھیں واپس دے دو………!
ہمیں اپنی آنکھیں واپس دے دو…..!
وہ چیختے، مگر سامری اُن کی چیخ و پکار کو سننے سے انکار کر دیتا۔ وہ اُنہیں ترسا ترسا کر مارنا چاہتا تھا۔
اُس کے اس جبر کے باوجود شہر میں کچھ ایسے لوگ تھے جو اُس کی طاقت کو جادوئی دھوکہ سمجھتے تھے۔ وہ لوگ با ضمیر تھے اور اُس کی چالبازیاں پہچان چکے تھے۔ اُنہیں یقین تھا کہ یہ سب محض ایک فریب تھا اور سامری کی اصل طاقت صرف اُس خوف میں مضمر تھی جو اُس نے لوگوں کے دلوں میں بھر دیا تھا۔ وہ کہتے تھے، “یہ سامری ہمارے شعور پر قابض ہو چکا ہے۔ وہ سورج کا مالک نہیں بلکہ وہ ہمارے ذہنوں کو اندھیروں میں قید کر چکا ہے۔”
رفتہ رفتہ اب وہ خُدائی کا دعویٰ کرنے لگا تھا، اور اُس کے کچھ پیروکار لوگوِں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے تھے کہ یہی خُدا ہے اسی لئے سورج اُس کے اشارے پر نکلتا ہے اور اُس کے کہنے سے غروب ہوتا ہے _۔
اس دوران، شہر کے لوگوں کے پاس ایک ہی امید باقی تھی چاند اور ستارے، جب سورج چھپتا تھا تو چاند کی نرم روشنی اُنہیں کچھ تسلی دیتی تھی۔ وہ رات کو آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے دل کو مطمئن کرتے اور سوچتے کہ شاید کسی دن چاند اُنہیں اُس ظلم سے بچانے کے لیے آگے آئے گا۔ لیکن سامری کے جبر کی حدیں ابھی باقی تھیں۔
رفتہ رفتہ سامری نے چاند اور ستاروں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ اُس کی تیز شعاعوں نے چاند کی روشنی کو دبا دیا اور آسمان پر ستارے بھی مدھم ہو گئے۔ اب تو رات بھی اندھیروں میں بدل گئی تھی۔ چاند، جو امید کا آخری سہارا تھا، اب سامری کے قابو میں تھا۔ لوگ حیران و پریشان تھے۔ اُن کے دل میں جو تھوڑی بہت روشنی کی آس باقی تھی، وہ بھی ختم ہو چکی تھی۔
سامری ہر روز اپنے محل کے مینار پر کھڑا ہو کر اپنی فتح کا جشن مناتا۔ “اب تم سب میری طاقت کے آگے بے بس ہو چکے ہو!” وہ گرجتا، “تمہاری آنکھیں، تمہاری روشنی، سب کچھ میرے قبضے میں ہے۔”
مگر شہر میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو سامری سے خوفزدہ نہ تھا۔ اُس کا نام شمس تھا اور وہ شہر کا سب سے باہمت اور بصیرت والا شخص مانا جاتا تھا۔ اُس کا دادا کافی پہنچا ہوا درویش تھا۔ وہ چلتے دریا کی روانی کو روک دیتا تھا۔ مرنے سے قبل اُس نے شمس کو ان طاقتوں کے بارے میں خبردار کیا تھا، اسی لئے اُسے سامری کی چالبازیوں کا علم تھا _۔ اُس نے اپنی آنکھوں کو اس لئے بچا کر رکھا تھا کیونکہ اُس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی جس کی وجہ سے سامری اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے کترا رہا تھا۔ شمس بخوبی جانتا تھا کہ سامری کا جادو ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔اُس نے لوگوں کے دلوں میں اپنا خوف بٹھا دیا تھا _۔
شمس نے شہر کے چند اور باشعور لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا، “ہمیں اس شہر کے تمام لوگوں کی آنکھیں واپس لانی ہوں گی۔ یہ سامری تمہارے خوف کا فائیدہ اٹھا رہا ہے، مگر اُس کا جادو صرف اُس وقت تک کام کرتا ہے جب تک ہمارا ذہن اُس کی غلامی قبول کرتا رہے گا _ ”
شمس اور اُس کے ساتھیوں نے سامری کے خلاف ایک منصوبہ تیار کیا۔ انہوں نے چاند اور ستاروں کی روشنی کو واپس لانے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے ایک غیر معمولی تپسیا کی تیاری شروع کی۔ وہ کئی دنوں تک اپنے اپنے حجروں میں چلہ کرتے رہے۔اس دوران سامری کے پیرو کار انہیں تلاش کرتے رہے لیکن وہ تو خدا کی راہ میں نکل چکے تھے۔
رات کے سناٹے میں، جب شہر مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، شمس اور اُس کے ساتھیوں نے ایک بلند پہاڑی کی طرف سفر کیا، جہاں سے وہ چاند کو براہِ راست دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے مل کر کچھ آیتوں کا ورد شروع کیا جو اُنہیں قدیم بزرگوں سے وراثت میں ملی تھیں۔ _یہ ورد چاند کی روشنی کو سامری کے طلسم سے آزاد کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ اُنہیں پورا یقین تھا کہ چلہ کے بعد انہیں نُور کا دیدار ضرور ہوجائے گا۔ _وہ سب سفید جُبوں میں ملبوس ہاتھوں میں تسبیح لئے حق الللہ، حق الللہ کا زور زور سے ورد کرتے رہے۔
کچھ دیر کے بعد چاند کی روشنی پھر سے چمکنے لگی۔ سامری کی تیز شعاعیں مدھم پڑنے لگیں اور آسمان پر ستارے دوبارہ چمکنے لگے۔ شہر کے لوگ حیران رہ گئے۔ وہ اپنی کھوئی ہوئی روشنی کو دوبارہ پا کر خوشی سے جھوم اٹھے۔
جب سامری نے یہ دیکھا تو وہ غضبناک ہو گیا۔ اُس نے پوری طاقت سے سورج کی شعاعوں کو چاند کی روشنی پر ڈالنے کی کوشش کی، مگر شمس اور اُس کے ساتھیوں کی تپسیا اتنی طاقتور تھی کہ سامری کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔
آخرکار، سامری کی سحر انگیزی ٹوٹ گئی۔ اُس کی طاقت ختم ہو چکی تھی۔ لوگوں کی آنکھیں اُنہیں واپس مل چکی تھیں اور شہر پھر سے نُور کی روشنی میں نہا گیا تھا۔ شہر کے تمام لوگ سامری کے پیچھے لگ گئے، سامری اپنے پیروکاروں سمیت پہاڑ کی چوٹی کی جانب بھاگ گیا، جہاں سے آگے صرف گہری کھائی تھی ،پھر ایک خوفناک دھماکے کی آواز فضا میں گونجنے کے بعد ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی _۔
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9419463487