دنیا میں جس تیزی سے خود پرستی کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے یہ فرد سے نکل کر جماعت،جماعتوں سے نکل کر قوم اور قوموں سے نکل کر حکومت تک پہنچ گئی ہے۔اب تو شبہ ہوتا ہے کہ جماعت افراد کے مجموعے کا نام ہے یا قوم مختلف جماعتوں کے ملنے سے ترتیب پائی ہے یا حکومتیں مختلف الخیال یا ہم خیال پارٹیوں کا مجموعہ ہیں ۔ ہر صورت میں یک شخصی یا یک قطبی غلبے کا گمان ہوتا ہے۔اگرچہ یہ جمہوریت کی روح کے منافی ہے مگر جمہوریت کی آڑ میں بادشاہت کو فروغ دینے جیسا ہے۔جمہوریت اور بادشاہت کے بیچ میں اب ایک ہلکی سی لکیر رہ گئی ہے جس کے مِٹ جانے میں کوئی دیر نہیں۔۔۔۔اور بادشاہت تو خود پرستی کا ہی دوسرا نام ہے جہاں سے فاشزم کی شروعات ہوتی ہے ۔خود پرستی سے’ پروٹیکشنزم ‘یعنی تحفظ کی داغ بیل پڑتی ہے اور ’تحفظ‘ انتہائی قوم پرستی کی جانب ڈھکیلتا ہے ۔انتہائی قوم پرستی کے سرایت کر جانے سے ملک تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
ادیب یا شاعر سماج کا ایک حساس فرد ہوتاہے۔وہ اپنی آنکھ اور کان دوسرے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ کھلا رکھتا ہے ۔اپنے اطراف جو دیکھتا ہے اُسی کو اپنے فن پارے میں پرو دیتا ہے۔اگرچہ وہ تاریخ نہیں لکھ رہا ہوتا ہے لیکن بادی النظر میں وہ تاریخ ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں میں بدل گئی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دنیا اب لوگوں کی ہتھیلیوں پر آگئی ہے۔پل پل کی خبریں منٹوں کیا بلکہ سیکنڈوں میں دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر پہنچ رہی ہیں جس کی وجہ سے عام لوگ تو متاثر ہو ہی رہے ہیں وہیں ادیب و شاعرکا بے چین ہو جانا فطر ی ہے۔
ادھر چار پانچ برسوں میں جہاں دنیا کے حالات تیزی سے بدلے ہیں وہیں ہندوستان میں بھی ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے جس میں جبری قوم پرستی سرِ فہرست ہے۔اس کے علاوہ جھوٹ اوروعدہ خلافی کا ایک متناہی سلسلہ چل پڑا ہے جو افسانہ نگاروں کو اسی تناظر میں فکشن تخلیق کرنے پر آمادہ کر رہا ہے۔مشرف عالم ذوقی نے ’’گلیشیر ٹوٹ رہے تھے اور۔۔‘‘ لکھ کرقاری کو سحرزدہ تو کیا ہی وہیں بھیونڈی کی شمع اختر کاظمی نے ’’راون زندہ ہے‘‘ نامی افسانہ لکھ کر ایک ایسا نقش ثبت کیاکہ لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ۔یہ افسانے اور اس طرح کے دیگر افسانے۱۷۔۲۰۱۶ء میں لکھے گئے ہیں اور موجودہ حکومت کی کارکردگی پر طنز ہیں۔وحشی سعید بھلا کیوں پیچھے رہتے ۔انہوں نے بھی اِن برسوں میں ’نور کا نور کہاں ہے‘،’کیا راون مرے گا؟‘،’سزاکس جرم کی‘،’پوسٹر‘ اور’ ارسطو کی واپسی‘ وغیرہ افسانے لکھ کر یہ ثابت کیا کہ موجودہ حکومت نہ صرف نااہل ہے بلکہ اس کے ارادے اور نیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔
وحشی سعید کشمیر کے مایہ نازفکشن نگار ہیں۔نور شاہ ،ڈاکٹراشرف آثاری،ڈاکٹر نذیر مشتاق، ،پرویز مانوس،شبنم طارق،ناصر ضمیر وغیرہ بھی ان کی نئی تکنیک کے دلدادہ ہیں جو وہ ماضی سے حال کو اپنی کہانیوں کے ذریعے جس خوبی کے ساتھ جوڑتے ہیں وہ صرف انہیں کا خاصہ ہے۔ اب تو ملک اور بیرون ملک کے ناقدین بھی متوجہ ہوئے ہیں اور ان کی اس نئی تکنیک پر کلام کرنے لگے ہیں۔ ان کی کہانیاں علامتی ہونے کے باوجود قاری کو بوجھل نہیں کرتیں اور وہ اپنے اپنے طور پر مطلب نکال لیتا ہے اور سمجھ بھی جاتا ہے ۔ یہی افسانے کی کامیابی بھی ہے۔
زیر نظر افسانہ’’سامری‘‘ کے عنوان سے ہی تجسس پیدا ہونے لگتا ہے اور قاری یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہو نہ ہو جادو ٹونے اور کسی جادوگرکی کہانی ہمیں پڑھنے کو ملے گی۔در اصل یہ کہانی اُس جادو ٹونے سے بھی بڑھ کر ہے اوروحشی سعید نے جس حقیقت اور جس ماضی کی طرف اشارہ کیا ہے اور پھر حال سے جس طرح جوڑا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ہر زمانے میں ایک ہٹلر پیدا ہوتا ہے۔حالانکہ اس افسانے میں اس نام کا ذکر تک نہیں ہے لیکن قاری بہ آسانی سمجھ جاتا ہے کہ یہ وہی شخص ہے اور اسی کے ارد گرد کہانی گھوم رہی ہے اور یہاں ہندوستان میں بھی ایک ہٹلر پایا جاتا ہے جس کی خصوصیات اُس ہٹلر سے ملتی جلتی ہیں۔اگرچہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہٹلر کے موازنے کم دیکھنے کو نہیں ملے ہیں لیکن جس خوبی کے ساتھ وحشی سعید نے یہ کہانی بُنی ہے ،نگاہیں جا کر وہیں ٹکتی ہیں اور بے ساختہ زبان سے یہ نکلتا ہے کہ یہ’ آج کا ہٹلر‘ ہے۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہتھیلی پر چاند دکھاتے ہیں۔اُنہیں لوگوں کو قائل کرنے آتا ہے،اپنی بات سے ،اپنی تقریر سے،اپنی اداؤں سے۔لوگ اُن کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں ۔وہ بہت بڑے اداکار ہوتے ہیں۔وہ ایسے ڈائیلاگ ادا کرتے ہیں کہ لوگ عش عش کرتے ہیں۔لگتا ہی نہیں ہے کہ وہ کوئی جھوٹ بول رہے ہیں اور لوگ یقین کرنے لگتے ہیں ۔یہ ایک طرح کی صفت ہے جو سب میںنہیں ہوتی اور اسی کا فائدہ اٹھا کر وہ لوگوں کے اندر قوم پرستی کا جذبہ اُنڈیلتے ہیں۔
وحشی سعید نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے جب وہ ایسے ہی کردار کے بارے میں اس افسانے میں اُسی سے یہ جملہ کہلواتے ہیں کہ
’’ صدیوں سے آپ لوگوں نے جو رتبہ کھویا ہے ،وہ میں آپ لوگوں کو واپس دلاؤں گا‘‘
’’لاکھوں لوگوں کا ہجوم ایک ساتھ کھڑا ہوکر ایک ساتھ بولا۔۔۔۔‘‘
’’سامری۔۔۔۔سامری ۔۔۔۔۔ سامری ۔۔۔۔۔۔‘‘
کسے پسند نہیں ہے کھوئے ہوئے رتبے کو حاصل کرنالیکن کیا یہ ممکن ہے؟ اور یہ کھویا ہوا رتبہ ہے کیا؟ سامری کو پتہ بھی ہے یا اپنے لوگوں کو وہ صرف بہکا رہا ہے۔زمانہ بدل چکا ہے ،یہ اُسے بہتر معلوم ہے۔مساوات کا چلن عام ہے،یہ بھی اُسے اچھی طرح معلوم ہے لیکن جس رتبے کووہ واپس دلانے کی بات کرتا ہے ،وہ جانتا ہے کہ ایسی باتیں کرکے ہی وہ اپنے لوگوں کے جذبات کو برانگیخت کر سکتا ہے اور اِس خواب کو زیادہ سے زیادہ طول بھی دے سکتا ہے۔یہ ایک ایسا خواب ہے جو سراب رہتے ہوئے بھی دلکش ہے اور اِس میں ایک حسین سحر بھی ہے۔
وحشی سعید آگے لکھتے ہیں
’’سامری نے سب کو اپنے جادو کے دھاگے میں باندھا۔سامری کے سامنے ملکوں کے ساتھ کئے گئے وعدے،دستاویز،ردی کے کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ایسے دستاویز نے ملک کی عزتِ نفس کو گروی رکھا تھا۔سامری نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ،ملک کے بعد ملک فتح کرتا گیا ۔‘‘
در اصل وحشی سعید نے کسی ملک کی ’’پالیسی شِفٹ‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے اور اِس سامری کے ذریعے ملک ِ ہندوستان میں جو پالیسی شفٹ ہوئی ہے اور آگے بھی یہی انداز برقرار رہنے کی امید ہے، کو بحسن و خوبی بیان کیا ہے۔ملک کی خارجہ پالیسی طے کرنے کے وقت سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں سے یوں ’یو ٹرن‘ لینا نہ صرف حماقت ہے بلکہ ہلاکت کا بھی سبب بن سکتا ہے لیکن اِس سامری نے اپنے جادوئی اثر کو اس قدر برقرار رکھا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی سامری کر رہا ہے وہ ملک کے مفاد میں ہے اور اس سے ملک کے وقار میں اضافہ ہوگااور سابقہ حکومتوں نے جو کیا ہے وہ نہ ملک کے مفاد میں تھا اور نہ ہی اس کے شہریوں کے۔اس لئے اُن کے معاہدوں کو وہ ردی کا کاغذ سمجھتا ہے۔یہ صرف اور صرف خود پرستی ہے جس کی طرف وحشی سعید نے اشارہ کیا ہے۔خود کو نمایاں کرنے اور تاریخ میں اپنا نام درج کرنے کی خاطر یہ سب حماقتیں کی جا رہی ہیں ورنہ ان کے نتائج سے سامری بھی واقف ہے۔
ہٹلر کانام بھی تاریخ میں درج ہے لیکن منفی طور پر۔اُس نے بھی اپنی قوم میں انتہائی قوم پرستی کے جذبات ابھارے۔وہ جب تقریر کرتا تو اپنے خطاب میں لوگوں سے پوچھتا۔
’’قوم کا لیڈر کیسا ہو؟سامری جیسا ہو،سامری۔۔۔سامری ۔۔۔سامری۔۔۔۔۔‘‘
’’اب وقت آگیا ہے،یہ قوم تمام دنیا پر حکومت کرے گی ۔اب ہمیں اس سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیں جس شکست سے دوچار کرایا وہ شکست قصہ پارینہ بنے گی۔آپ مجھے چُن لیجئے ،میں آپ کے قدموں پہ دنیا کو جھکا دوں گا۔‘‘
سامری کا کردار ایک علامت ہے۔چونکہ وحشی سعید علامت نگاری سے اپنی بات قاری تک پہچانے کا ہنر خوب جانتے ہیں اس لئے ہندوستان کے سامری سے جرمنی کے سامری کو ملا دیا ہے یا ایسا بھی کہا جا سکتا ہے کہ جرمنی کا سامری ہندوستان میں نیا جنم لے کر نمودار ہوا ہے اور اپنے کرتوتوں سے ملک کی شبیہ کو داغدار کر رہا ہے۔اس کے چاہنے والے جنہیں بھکت کہا جا سکتا ہے اُس کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور یہ بھی تو ہو رہا ہے کہ پے درپے اُس کی جیت بھکتوں کے یقین کو مزید مستحکم کر رہی ہے ۔اور اسی جیت کے جذبے سے سرشار ہوکر سامری انتہائی قدم اٹھاتا ہے۔
’’خوبصورت خوابوں کا سوداگر انسانوں کی قربانی دیتا ہے۔جانوروں کی پرستش کرتاہے‘‘
یہ جملہ نہ صرف بلیغ ہے بلکہ غضب ناک بھی ہے۔جرمنی کا ہٹلر انسانوں کی قربانی تو دیتا تھا لیکن جانوروں کی پرستش کرتا تھا اس کا ثبوت نہیں ملتا لیکن ہمارے سامری کے نزدیک جانوروں کی جان کی حیثیت انسانوں سے زیادہ ہے۔جانوروں کا تحفظ بالخصوص گائے اور اس کے خاندان کے جانوروں کا قتل یا موت اس سے برداشت نہیں ہوتا۔ان کو بچانے کے لئے وہ سیکڑوں انسانوں کی قربانی دے سکتا ہے۔یہ عجیب وڈمبنا (وِڈَم بَ نا)ہے اور اِس سامری کو ممتاز کرتا ہے لیکن بغور جائزہ لینے پر یہ راز کھلتا ہے کہ یہ سب دھوکا ہے،نظر کا دھوکا۔یہ جانوروں کا برائے نام تحفظ بھی ایک ڈھونگ ہے۔اس کی آڑ میں وہ مذہبی جذبات کا استحصال کرتا ہے اور اسی لئے وہ ایک کامیاب جادوگر ہے۔
لیکن وحشی سعید ملک کے لئے اچھا چاہتے ہیں ۔ملک اس جادوگر یعنی سامری سے کس طرح چھٹکارا پالے اس کی کامنا بھی کرتے ہیں اور افسانے کے اختتام پر یہ جملہ لکھتے ہیں کہ
’’ہم میں چند اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ کوئی تو ہوگا جو ہمالیہ کی اونچی چوٹی پر امن کا جھنڈا لہرائے گا اور سفید کبوتروں کا جُھنڈ اس سفید جھنڈے کو چھوتے ہوئے فضائوں میں اُڑان بھرے گا۔‘‘
یہ بھی حسین اتفاق ہے کہ ہٹلر کی موت کے بعد ہی ہیلری کے قدم ہمالیہ کی سب سے اونچی چوٹی پر پڑے تھے اور اُس نے جو جھنڈا لہرایا تھا وہ امن کا جھنڈا تھا۔وحشی سعید اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے اوراسی طرح کا امن کا جھنڈا ہمالیہ کی سب سے اونچی چوٹی پریک بار دوبارہ لہرائے،اِس ہٹلر کی زندگی ہی میں۔۔۔۔۔اور پھر اس کی موت ہو۔ویسے بھی اس کی عارضی اور علامتی ارتھیاں ملک کے مختلف حصے میں اُٹھائی جا رہی ہیں اور بعض جگہوں میں تو جلائی بھی جا رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابطہ :مدیر’’ تحریر نو‘‘ نئی ممبئی ؛9833999883