سال2024ہم سے رخصت ہورہا ہے اور2025کا سورج بس طلوع ہونے ہی والا ہے ۔شورش زدہ جموں وکشمیر میں انسانی ہلاکتوںکے تعلق سے اگرچہ گزرنے والا سال گزشتہ برس کے مقابلے میں کسی حد تک بہتر رہا اور تشدد آمیز کارروائیوں میں اُتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا اتلاف نہیں ہوا تاہم حسب سابق ہر اعتبار سے یہ سال بھی عوام کیلئے کوئی بڑی خوش خبری لیکر نہیں آیااور مسرت و فراوانی کا شاید ہی کوئی لمحہ جموںوکشمیرکے عوام کو بالعموم اور کشمیری عوام کو بالخصوس ہاتھ لگاہوگا۔سال رفتہ جموںوکشمیر کیلئے اصل میں چنائو کا سال تھا۔پہلے بہار میں پارلیمانی چنائو ہوئے جس میں امیدوں کے برعکس پی ڈی پی کا مکمل صفایا ہوگیااور پارٹی سربراہ محبوبہ مفتی کو تاریخی شکست سے دوچار ہونا پڑا جبکہ آزاد امید وار انجینئر رشید نے بھی شمالی کشمیر کی نشست پر عمر عبداللہ اور سجاد غنی لون کو دھول چٹائی۔اس کے بعد ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے لوگوںکی دل بہلائی کیلئے خوب تماشے کئے گئے لیکن عملی طور کچھ تبدیل نہ سکا۔خزاں آتے آتے اسمبلی کے انتخابات بھی ہوئے اور پارلیمانی چنائو کی طرح ان انتخابات میں بھی پی ڈی پی کو نیشنل کانفرنس کے ہاتھوںعبرت ناک شکست کا سامنا کرناپڑااور پارٹی کا تقریباً صفایا ہی ہوگیا جبکہ بمشکل تین لوگ جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔جموںسے پھر بھاجپا کو منڈیٹ ملا جبکہ کشمیر اور مسلم جموں سے نیشنل کانفرنس کا دبدبہ قائم ہوا اور یوں نیشنل کانفرنس کی حکومت بن گئی جس کو کانگریس کی بیرونی حمایت بھی حاصل ہے ۔ان انتخابا ت کے طفیل یہ امید بندھ گئی تھی کہ اب شاید عوامی مسائل کا ازالہ ہوگا اور ایک عوامی حکومت لوگوںکے مسائل حل کرے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ اس حکومت میں وہ اختیار ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی بڑے فیصلے لے سکے۔وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس کم مدت میں دلّی کے دو دورے کئے اور کوشش کی کہ کسی طرح حکومت کی رِٹ قائم ہوسکے لیکن اُنہیں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگا اور عملی طور پر وہ آج بھی راج بھون کے سامنے بے دست وپا ہیں اور اُن کی ایک نہیں چل رہی ہے ۔عمر عبداللہ حکومت کی بے اختیاری کا یہ عالم ہے کہ وہ وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود2025میں اپنے دادا مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی یوم پیدائش کی سرکاری تعطیل تک بحال نہ کر پائےاور نہ ہی یوم شہداء کی تعطیل چھٹیوںکے سرکاری کلینڈر میں جگہ بنا پائی جس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ بھلے ہی عمر عبداللہ وزیراعلیٰ ہوں لیکن اصل طاقت اور اختیار کہیں اور ہے اور بلا واسطہ یہاں آج بھی راج بھون کے ذریعے بی جے پی کی ہی حکومت چل رہی ہے۔ ریاستی درجہ بحالی کا بہت شور سناگیا لیکن وہ بحالی سال کے آخری دن تک بھی نہ ہوسکی اور نہی معلوم کہ آگے کب ہوگی۔یوںطویل عرصہ سے بے پناہ مصائب سے دوچار ہونے والی عوام راحت و سکون کے منتظررہی لیکن راحت کا کوئی پل میسر نہیں آیا۔ان سب واقعات کے علاوہ دیگر کئی چھوٹے بڑے واقعات بھی پیش آئے تاہم ترقیاتی اور معیشی فرنٹ پر کوئی ایسی پیش رفت نہ ہوسکی جو قابل ذکر ہو بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان دونوں محاذوں یعنی سیاسی اور معاشی محاذ پر امسال بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی تو بیجا نہ ہوگا۔حق گوئی سے کام لیا جائے تو مجموعی طور پر پورا سال مایوسیوں سے عبارت رہا اور جہاں حکومتی سطح پر عوامی راحت رسانی کا کوئی بڑا کام نہ ہوسکا وہیں اپنے آپ کو عوام کے بہی خواہ کہلانے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے گو مگو کی سیاست ہی چلتی رہی اور عوامی نمائندگی کا کوئی واضح اور ٹھوس پروگرام سامنے نہیں آیا۔ یوں پورے سال میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ رونما نہ ہوا جو اہلیانِ جموںوکشمیر کیلئے راحت اور شادمانی کا باعث بن جاتا بلکہ الٹا نامرادیوں اور مایوسیوں کا یہ عالم رہا کہ بیروزگار نوجوانوں سے لیکر عام آدمی تک تمام طبقوں سے وابستہ لوگ نالاں ہی نظر آئے۔اب جبکہ2024کا سورج غروب ہو رہاہے اور2025کاسورج طلوع ہورہاہے، تو یہی امید کی جاسکتی ہے کہ نیا سال اہلیانِ جموںوکشمیرکیلئے خوشیوں کی نوید لیکر آئے گا اور سارے نہیں تو کم از کم بیشتر مسائل حل ہوپائیں گے۔