سارک ا یک چراغِ سحری!

سارک  جو کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی علاقائی تنظیم ہے ٹمٹماتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی نظر آتا ہے کہ یہ تنظیم جان کنی کی حالت میں ہے۔اِس تنظیم کی ابتر حالات کا بنیادی سبب دیکھا جائے تو مسلٔہ کشمیر کا اُلجھاؤ ہے جس سے ہند و پاکستان کے باہمی تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ہند و پاکستان سارک کے اہم ترین ممالک ہیں گر چہ اِس تنظیم میں جنوبی ایشیا کے کئی دوسرے ممالک بھی شامل ہیں جن میں بنگلا دیش،نیپال،سری لنکا، بھوٹان،مالدیپ و افغانستان کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہ سب ممالک مسلٔہ کشمیر کے ضمن میں ہند و پاک تنازعے کی وجہ سے علاقائی سطح پہ پامال نظر آتے ہیںچونکہ علاقائی سطح پہ روابط میں رخنے سے علاقے کی مجموعی ترقی متاثر ہوتی ہے۔علاقائی تجارت اور راہداری کا میسر رہنا سب ہی ممالک کیلئے جو کسی مخصوص جغرافیائی خطے سے وابستہ ہوتے ہیں حیاتی ہوتا ہے۔یہ حقیقت جتنی آج عیاں ہے اتنی ہی ازمنہ قدیم میں عیاں تھی۔ زمانہ قدیم کی شاہراہ ابریشم اِس حقیقت کی گواہ ہے کہ علاقائی تجارت و راہداری کے بغیر اقتصادی بہبودی میسر نہیں ہو سکتی۔ اِس حقیقت کا اطلاق جہاں ترقی پذیر ممالک پہ ہوتا ہے وہی ترقی یافتہ ممالک پہ بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ یورپین یونین (EU) کو یورپ کی اقتصادی بہبودی کا ضامن مانا جاتا ہے ۔جنوب مشرقی ایشائی ممالک کی تنظیم آسیان (ASEAN)نے اپنے تحرک سے اِس خطے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔جنوب مشرقی ایشائی ممالک جو بحر منجمند کے ساحل پہ آباد ہیں آج ترقی یافتہ تصور کئے جاتے ہیں حالانکہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے یہ جنوبی ایشیائی ممالک سے اقتصادی لحاظ سے پیچھے تھے۔
جنوبی ایشائی ممالک کی اقتصادی مشکلات دنیا کے کئی خطوں سے بیشتر اور پیچیدہ تر ہیں ۔ اِس خطے میں کم و بیش دنیا کی 21 فیصدی آبادی رہتی ہے جبکہ عالمی اراضی کا صرف و صرف 3 فیصدی حصہ جنوبی ایشائی ممالک کو میسر ہے ۔گنجان آبادی والے خطے میں پھیلتی ہوئی آبادی نے یہاں زراعت کیلئے اتنی زمین ہی میسر نہیں رکھی ہے جو اِس خطے کے عوام کی غذائی ضروریات کی ضامن ہو۔سکڑتی ہوئی اراضی اور پھیلتا ہوا سمندر جنوبی ایشائی خطے کیلئے ایک ایسا سوالیہ ہے جس کا حل آساں نہیں ثانیاََ یہ خطہ موسمی تغیرات مخصوصاََ مون سون کی غیر یقینی صورت حال سے دوچار رہتا ہے ثالثاََ قدرتی آفات سے بھی یہ خطہ متاثر ہوتا رہتا ہے ۔اِن گوناگوں مشکلات کے باوجود آپسی تنازعات کی رسہ کشی میں جن میں مسلٔہ کشمیر سر فہرست ہے خطے کی اقتصادی بہبودی کو یرغمال بنا کے رکھا ہے۔ سارک کے اجلاس بار بار سیاسی و سفارتی رسہ کشی کی نظر ہو جاتے ہیں اور حالیہ برسوں میں بھارتی مخالفت کے سبب پاکستان میں 2016 ء میں منعقد ہونے والا سر براہی اجلاس موخر ہوا اور آج تک یہ سر براہی اجلاس منعقد نہیں ہو سکا۔جولائی 2016ء میں حزب کمانڈر برہان وانی کی جاں بحق ہونے کے بعد کشمیری مزاحمت میں تیزی آئی اور بقول بھارت یہ سب سرحد پار کی دہشت گردی کے سبب ہو رہا ہے، جب کہ کشمیری مزاحمت کاراکثر و بیشتر مسلٔہ کشمیر کے ایک پُر امن،منصفانہ و دیر پا حل کا متلاشی ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں ۔اس دوران تشدد کے بڑھتے ہوئے سلسلے سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی مسلٔہ کشمیر حل طلب رہنے کی پیداوار ہے ۔ غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو اس تشدد میں وہ ریاستی تشدد زیادہ نمایاں ہے جو کسی بھی مزاحمتی تحریک کو طاقت ور فریق کی جانب سے سیاسی اسپیس نہ دینے کی منطق پر کھڑا ہوتا ہے۔مزاحمتی تحریک کو سرحد پار کی دہشت گردی کا عنوان دینا کشمیر حل کو کھٹائی میں ڈالنے کا سبب بن رہا ہے۔ وسیع تر تناظر میں بات کی جائے تو اس طرز سیاست سے نہ صرف علاقائی امن وآشتی متاثر ہوتی ہے بلکہ جنوبی ایشائی خطے کی اقتصادی بہبودی بھی رخنے کا شکار ہوتی جارہی ہے۔
سارک کا چارٹر دیکھا جائے تو ناقص ونامکمل ہے ۔یہ علاقائی تنظیم باہمی تنازعات کا سیاسی حل نکالنے کے بجائے اِن مسائل کو لائنحل رکھتے ہوئے صرف و صرف اقتصادی مسائل پہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے لیکن سیاسی مسائل کی رنجش ہوتے ہوئے اقتصادی مسائل میں پیشرفت مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے ۔باہمی عدم اعتماد کے سبب سارک ایک ہمہ گیر علاقائی بن نہیں سکی جبکہ یورپین یونین میں شامل ممالک اپنے باہمی مسائل اپنی علاقائی تنظیم کے طفیل حل کر لیتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یورپین یونین کے ممالک کے بیچوں بیچ ایسا کوئی سیاسی مسلہ ہی نہیں جو باہمی نزاع کا باعث بن سکے۔ برطانیہ کی رائے عامہ کی اکثریت نے یورپین یونین میں شمولیت بنائے رکھنے کے خلاف وؤٹ دیا تو یورپین یونین کے باقی ممالک اُنکے فیصلے کے آڑے نہیں آئے کیونکہ یورپ میں جمہوریت کی آبیاری ہر زماں و مکاں میں ہوتی ہے ۔اِس کے برعکس جنوبی ایشیائی ممالک کو جمہوریت کا دعوہ تو ہے لیکن جمہوری روح سے محروم ہیں اور یہی سبب ہے کہ سیاسی مسائل کے حل میں جمہوریت کے اصل اصول کو مد نظر نہیں رکھا جاتا ۔ یہ حیرت کا مقام ہے کہ سارک کے چارٹر میں جنوبی ایشائی ممالک کیلئے یہ ممنوع قرار دیا گیا ہے کہ وہ باہمی مسائل کو سارک کی میز پہ لائیں۔ آرٹیکل دس(X)کے دوسرے پراگراف میں یہ عبارت درج ہے کہ ـ’’دو طرفہ اور متنازعہ مسائل کو بات چیت کا موضوع نہ بنایا جائے‘‘ ۔یہ دفعہ ہی جمہوری روح کے منافی ہے کیونکہ اختلافات کے ہوتے ہوئے موافقت کی امید رکھنا بیجا ہے۔سیاسی مسائل کو نہ چھیڑنے سے یہ مسائل دفن نہیں ہوتے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دھیمی آنچ کبھی سلگتی آگ بھی بن جاتی ہے جیسا کہ سارک کے ساتھ ہو رہا ہے ۔مسائل کے لائنحل رہنے سے کوئی بھی تنظیم چل نہیں سکتی۔
2016ء میں سارک کی سر براہی کانفرنس تعطل کا شکار ہوئی اور اس کے لئے بھارت نے پاکستان کے خلاف علاقائی سطح پہ ایک مہم چلائی تاکہ پاکستان کو سفارتی میدان میں تک و تنہا رکھا جائے۔ بھارت نے اپنی سفارتی مہم میں ایک کے بعد دوسرے جنوب ایشیائی ملک کی حمایت کا دعویٰ کیا جب کہ حقیقت حال یہ رہی کہ بھارت کی عدم موجودگی میں سارک کی سر براہی کانفرنس کا منعقد ہونا نا ممکنات میں تھا کیونکہ بھارت خطے کا سب سے بڑا ملک ہے اور یقیناََ با اثر بھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خطے کے دوسرے ممالک نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کئے ہوں ۔یہ صحیح ہے کہ پچھلے دو سالوں میں ہند پاک تعلقات کافی کشیدہ رہے لیکن سفارتی ڈائری کا جائزہ لیا جائے تو جنوب ایشیائی ممالک اور پاکستان کے باہمی روابط نہ صرف قائم رہے بلکہ دو طرفہ تعلقات میں فروغ بھی حاصل ہوا۔پچھلے کچھ عرصے سے نیپال پاکستان میں تعطل کا شکارسارک کی سر براہی کانفرنس کو شروع کروانے کیلئے سر گرم ہے۔سر ی لنکا بھی اِس کی حمایت کر رہا ہے۔مالدیپ نے بھی کئی سفارتی رابطوں میں اس کی تائید کی ہے۔خطے میں سب سے بڑا ملک ہونے کے سبب جنوبی ایشائی ممالک بھارت کی سیاسی ،اقتصادی و فوجی حیثیت کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن یہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کا سبب نہیں ہوسکتا۔پاکستان بھارت سے وسعت اراضی و آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ہی سہی بہر حال خطے کا دوسرا بڑا ملک او ر بھارت کی مانند ایک ایٹمی طاقت ہے۔ 
علاقائی سفارتی میدان کی مانند بھارت پاکستان کو عالمی سفارتی دائرے میں تک و تنہا کرنے کے درپے رہا اور یہاں بھی کراس بارڑر ٹراریزم کی دہائی دی گئی ۔سرحد پار کی دہشت گردی کے مدعے کو امریکہ میں پذیرائی حاصل ہوئی کیونکہ جہاں بھارت ریاست جموں و کشمیر  میں خط متارکہ کے آر پار کی مبینہ دہشت گردی سے نالاں ہے وہی عالمی چودھری امریکہ بہادر افغانستان میں افغان طالبان اور حقانی گروپ کی سرگرمیوں میں پاکستان کی پشت پناہی کو مورد الزام قرار دیتا ہے۔اِس سال کے شروع سے ہی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان کو جی بھر کے کوسنا شروع کیا ،انواع و اقسام کی امداد بند کر دی گئی،امریکی فوجی اداروں میں پاکستانی افواج کے ٹریننگ پروگرام بند کر دئے گئے لیکن اِن سب اقدامات کے بیچوں بیچ پاکستان سے افغان طالبان کو میز مذاکرات پہ لانے کی تلقین بھی ہوتی رہی چونکہ افغانستان میں امریکی جنگی مہم شدید مشکلات کا شکار ہے اور ایک محتاط اندازے میں نصف سے بیشتر افغان اراضی پہ طالبان قابض ہے۔جہاں امریکہ سے ظاہراََ ہاتھ کھنچنا شروع کیا وہی چین پاکستان کی بھر پور مدد کے ساتھ سامنے آیا اور چین کی مانند روس نے بھی پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں وسعت دینی شروع کی جس کا بڑا سبب امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی معاونت ہے۔ جیسا بھی رہا ہو علاقائی اور عالمی سطح پہ پاکستان کو تک و تنہا کرنے کی بھارتی سفارتی مہم کا نتیجہ خاطر خواہ نہیں رہاکیونکہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے کی آگ میں کو دکے بھسم نہیں ہونا چاہتا۔
جنوب ایشائی خطے کی جانب واپس آتے ہوئے اِس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خطے میںسب سے بڑا ملک ہونے کے سبب بھارت ایک خاص حیثیت کا حامل ہے اور باقی ممالک پہ ایک حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے ۔اپنی اہمیت کو منوانے کیلئے بھارت کے اقدامات ایک ایسی سمت کی جانب جا رہے ہیں جہاں پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک اور علاقائی تنظیم کو تقویت دی جا رہی ہے ۔یہ تنظیم گر چہ پہلے سے ہی موجود تھی لیکن اُسکے نام اور کام کے بارے میں واقفیت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن پچھلے ایک دو سال میں بھارتی مطبوعات میں اِس تنظیم کا خاصا ذکر ہو رہا ہے۔یہ علاقائی تنظیم بیم سٹک (BIMSTEC)کے نام سے جانی جاتی ہے اور خلیج بنگال سے وابستہ ممالک کی تنظیم ہے جس میں جنوب ایشیائی ممالک کے علاوہ جنوب مشرقی ممالک بھی شامل ہیں۔بھارت کے علاوہ،بنگلا دیش،میانمار،تھائی لینڈ،سری لنکا ،نیپال و بھوٹان اِس تنظیم کے ممبر ہے۔دیکھا جائے تو جغرافیائی لحاظ سے یہ سب ہی ممالک نہ ہی خلیج بنگال کے ساحل پہ واقع ہیں نہ ہی اِس خلیج سے اِن کا کوئی واسطہ ہے بہر حال اِس تنظیم کی تعریف ہی ایسی ہوئی ہے کہ یہ مختلف سیکٹروں میں خلیج بنگال کا تحرک برائے تکنیکی واقتصادی یکجہتی ہے جس کو Bay of Bengal Initiative for Multi-Sectoral Technical and Economic Cooperation (BIMSTEC)]نام دیاگیا ہے ۔یہ تنظیم گر چہ 1997ء میں وجود میں آئی لیکن نام و دام میں زیادہ نمایاں نہیں رہی۔اس تنظیم کا سیکرٹریٹ ڈھاکہ میں واقع ہوا ہے۔بھارتی میڈیامیں اگست 2018ء کے آخری ہفتے میں اس تنظیم کی کھٹمنڈو میں سر براہی کانفرنس ہوئی جو علاقائی سطح پرشاہ سرخیوں میں رہی ۔اِس تنظیم کو سارک کا متبادل مانا جا رہا ہے لیکن جنوب ایشیائی جغرافیائی تجزیے میں اس تنظیم کو سارک کا متبادل ماننا محال ہے ۔یہ بات مانی بھی جائے کہ بھارت کے شمال مشرقی حصے کے مسائل کو یہ تنظیم ایڈرس کر بھی لے پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ بھارت کے سیاسی،سفارتی اور فوجی مسائل اکثر و بیشتر شمال مغربی حصے سے وابستہ ہیں اور اپنے اس حصے کے مسائل سے غافل رہنا بھارت کے دراز مدتی منصوبوں پہ بھاری پڑ سکتا ہے۔بھارت پاکستان کو قلیل مدت میں نظر انداز کر سکتا ہے لیکن دراز مدت میں بھارت کے کلیدی مسائل کو پاکستان کو سفارتی سطح پہ پس پشت ڈال کے ایڈرس نہیں کیا جا سکتا۔بھارت کے سنجیدہ تجزیہ نگار اِس حقیقت کو مانتے ہیں۔
2014ء میں بھاجپا کا مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دلی کا سفارتی انداز یہی رہا کہ جہاں تک ہو سکے پاکستان کو نظر انداز کیا جائے۔کھٹمنڈو میں 2014ء  میں جو سارک سر براہی کانفرنس ہوئی، اُس میں بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے کہا تھا کہ ’’آپسی رشتے سارک کے ذریعے بڑھ سکتے ہیں یا اُس سے باہرجس میں ہم میں سے سبھی شامل ہوسکتے ہیں یا ہم میں سے کچھ‘‘جس سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ سارک سے باہر کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں جس میں سب میں سے کچھ شامل ہو سکتے ہیں۔ چناںچہ یہ بیم سٹک (BIMSTEC) کو فروغ دینے پہ منتج ہوا ۔ کھٹمنڈومیں ہمہ جہت راہداری کے موافقت نامے پہ پاکستان کی مخالفت کا سامنا رہا، نیز پاکستان کا سارک میں چین کی شمولیت کے بارے میں اصرار بھارت کو ناگوار گذرا۔ہمہ جہت راہداری کا مدعا و مفہوم بھارت کو افغانستان کے ساتھ تجارت کیلئے پاکستانی اراضی سے راہداری فراہم کرنا رہا جس کیلئے پاکستان کا موافق ہونا تب تک ناممکن رہے گا جب تک کہ مغربی اور مشرقی محاذ پر پاکستان کے سیکورٹی مسائل کو ایڈرس نہ کیا جائے اور یہ مسلٔہ کشمیر کے حل کی جانب پیش قدمی اور افغانستان میں امن و امان قائم کئے بنا نا ممکن نظر آتا ہے ۔اس کاواضح ثبوت چند دن پہلے ہی ملا جب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان میں تعینات امریکی سفیر کے اِس بیان کو رد کیا کہ پاکستان راہداری فراہم کرنے کیلئے تیار ہے۔رہی بات سارک میں چین کی شمولیت کی تو کہا جا سکتا ہے کہ شمولیت کے بغیر ہی جنوبی ایشائی ممالک میں چینی نقوش پا اس قدر واضح ہیں کہ اُس سے کوئی آنکھوں کا اندھا ہی انکار کر سکتا ہے۔چین کی وسیع سرمایہ کاری کا ایک کے بعد ایک جنوب ایشائی ملک مرہون منت ہوتا جا رہاہے۔خلیج بنگال کے سمندری ساحل سے ہمالیہ کی بلندیوں تک کا راستہ خاصہ طویل ہے لیکن بھارت کو اپنے سیاسی ، سفارتی و سیکورٹی مسائل کا حل بیم سٹک (BIMSTEC) سے کہیں زیادہ سارک میں ڈھونڈنا ہو گا،گرچہ قبول افتد!۔۔۔