ارشاد احمد ارشاد، مہو بانہال
فلمی دنیا بھی کیا عجیب دنیا ہے، جہاں پر انسان کی ذات کے اندر پنپ رہےفنون لطیفہ کو نکھار سنوار کر ایک ایسے لطیف اور دلنشین پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے کہ قلمکار، فنکار ، اداکار ،گلوکاراور کلاکار خود بھی دھنگ رہ جاتے ہیں۔ہندوستان کی فلم انڈسٹری نےجہاں ہزاروں فنکاروں ،کلاکاروں ،گلوکاروں ،اداکاروں اور قلمکاروں کو موزون وقت پر معقول اور مناسب سٹیج فراہم کرکے آسمان شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا وہیں پر ریاست پنجاب کے شہرلدھیانہ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر ساحر لدھیانوی کو بھی اس انڈسٹری نے سٹیج فراہم کر کے نہ صرف بر صغیر ہند وپاک بلکہ پوری دنیا میں عزت اور شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیا۔اور یوں لاکھوں افسردہ دلوں کو ساحر کے شیرین اور رس بھرے کلام سےشاداب اور سیراب ہونے کا موقعہ فراہم کیا۔
در اصل شاعرانسانی احساسات و جذبات کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعہ تخلیق خداوندی کے فطری حسن و جمال کو اپنی فنی صلاحیتوں اوردلربا نزاکتوں کے ساتھ دلفریب اور دلکش الفاظ کا جامہ پہنا کر سامعین کے دل و دماغ کو مسحور کردیتا ہے۔وہ انسان کے دلی جذبات اور احساسات کی حسین ترجمانی کرکے خون جگر کی آمیزش کے ساتھ ایسا تخلیقی شہکار وجود میں لاتا ہےجو سامعین کے احساسات پر اثر انداز ہوکر انہیں مانوس کرتا ہے اور انکےذہنی و قلبی اطمینان کا موجب بنتا ہے۔
جہاں تک ساحر لدھیانوی کی شاعری کا تعلق ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انکی شاعری فلمی دنیا پر ایک احسان ہے۔بھلے ہی فلم نگری نے انہیں سٹیج فراہم کیا، مگر فنی صلاحیتں تو انکی ذاتی ملکیت تھیں ۔ لیکن داد تو بہر حال جوہری کو ہی دینا پڑتی ہےجو لعل کی شناخت رکھتا ہےاوراس سے استفادہ حاصل کرکے لاکھوں دلوں کی دھڑکنوں میں سکون واطمینان پیدا کرنے کا سامان میسر کرتا ہے۔
فلمی جگت کی انہی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ ساحر لدھیانوی جیسے عظیم شاعر کی شاعری سے بھر پور اور بر محل استفادہ حاصل کیا گیا، جس سے خود ہندوستان کی فلمی صنعت کوبھی عروج ملا ۔کیونکہ جس کارخانہ میں جتنی زیادہ مقدار میں مطلوبہ Raw Material دستیاب ہوتا ہےوہ اتنی ہی زیادہ مقدار سے production بھی دیتا ہے اور وہ کارخانہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔پھر جب ساحر لدھیانوی جیسے با اثر اور شیرین زبان شاعر کے ساتھ ساتھ محمد رفیع، مکیش، لتا ،آشا بھونسلے اور کشور کمار جیسے شیرین لحن گلوکار اور دلیپ کمار،دیوآنند ،سنیل دت ،ہیما مالنی اور امیتاب بچن جیسے انمول اداکار اور ایس ڈی برمن اور نوشاد جیسے سحرطراز سنگیت کارموجود ہوں تو یہ سونے پہ سہاگہ کی مانند ہےاور اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب دل کو چھو لینے والی شاعری کےدلکش الفاظ کو مدھر آواز ،مسحور کن ساز اور ادکاری کادلفریب نازوانداز میسر ہو تو ایک سوز وگداز پیدا ہوتا ہے ،جو دلوں کوکیف و سرور سے سیراب کرتا ہے۔ اس سوزوگداز کے بیچ شاعر کی شاعری ایک شاہکار کی حیثیت سےمعجوں مرکب بنکردواے دل کا کام کرتی ہےاور یوں دل کو چھو لینے والے اشعارساز و آواز کی سحر انگیزی کے ساتھ عوام وخواص کے قلوب پر سحر طراز ہوتے ہیں اور صاحب قلم کو بھی شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیتے ہیں۔
ساحر کی شاعری میں واقعی سحر کا سا اثر ہے۔ انکی شاعری میں ایک آفاقی پیغام ہے۔انکا پیغام زمان ومکان کی بندشوں سے آزاد ہے۔ ساحر زمانہ کے ہر پیچ وخم ، اونچ نیچے اور اتار چڑھاو سے بخوبی واقف تھے۔ بٹوارے کی درد ناک اذیتیں مہر وفا کی ناکامیاں ، سماجی خرافات اور انسایت سوز عوامل انکی نگا ہوں کے سامنے ہر آن رقصاں نظر آتے ہیں۔ انکی شاعری میں انسان دوستی ،امن و آشتی ،دنیا کی بے ثباتی اور انسان سازی کا پیغام جا بجا ملتا ہے۔آپکا پہلا شعری مجموعہ( تلخیاں) 1943 ء میں لاہور سے شایع ہوا اور اس نے عوام میں دھوم مچادی۔ حالانکہ جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک کانفرنس کے دوران اس کتاب پر پیپر پڑھا گیا تو نقاد نے اس کو یہ کہ کر غیر معیاری قرار دیا کہ اس میں ادبی معیار کی گہرائی نہیں ہے بلکہ سادہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے ۔اس بات پر ساحر ملول نہ ہوئے بلکہ وہیں پر ٹھان لی کہ میں اپنی شاعری کا لوہا فلم انڈسٹری کے ذریعہ منوا لوں گا اور بمبئ چلے آئے ۔ یہاں پر آپ اپنی رنگین مزاجی اور صاف اور شستہ زبان والی شاعری کی وجہ سے تا حیات فلم انڈسٹری پرچھائے رہےاوراپنی شیریں بیانی سے افسردہ دلوں کی افسردگی کو آسودگی میں، رنج کو راحت میں اور دکھ کو سکھ میں تبدیل کرنے میں مصروف عمل رہے ۔آپ نےواقعی اپنی شاعری کا لوہا منوایا اور تا ایں دم کوئی آپ جیسی شاعری فلم انڈسٹری کو نہ دے سکا۔
ساحر لدھیانوی 8مارچ 1921ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصلی نام عبد الحئی تھا۔آپ نے کالج کے زمانہ سے ہی دوران تعلیم اپنی شاعری کا آغاز کیا۔آپ کالج میں اور مختلف مشاعروں میں اپنی غزلیں پڑھکر سنایا کرتے ،جس سے آپ بہت مقبول ہوئے۔آپ کو دوران تعلیم کالج کی ایک سکھ طالبہ سے پیار ہوا لیکن آپکے گھر والوں کو یہ رشتہ منظور نہ تھا اور اس طرح سے یہ شادی ممکن نہ ہو پائی، جس کے بعد آپ نے پڑھائی ادھوری چھوڑ کرزندگی کے ارمانوں کو شاعری کا روپ دینے میں مگن ہو گئے اور یوں زمان ومکان کے نازو انداز ،سماجی،معاشی اور معاشرتی مسائل کی عکاسی کرنا اپنا معمول بنا لیا۔
ساحر 1949ء میں بمبی چلے گئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔آپ نے اپنی قابلیت اورصلاحیت کے بل پر فلمی جگت میں جگہ بنا لی اور جگہ بھی یوں بنا لی کہ اپنی مدھر اور معنی خیز شاعری سے ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔سا حر کی شہرت میں موسیقار ایس ڈی برمن کاخاصا عمل دخل رہا ہے۔1951ء میں ریلیز ہونے والی فلم’’ نوجوان‘‘ میں ایس ڈی برمن نے ساحر کے گیتوں پر ایسی موسیقی دی کہ یہ گیت طویل عرصہ تک لوگوں کے دل و دماغ پر چھائےرہے اور اس سپر ہٹ دھن نے ساحر کو راتوں رات شہرت کےبام عروج پر پہنچا دیااور اس فلم میں ساحر کا یہ گیت’’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں‘‘ کافی ہٹ ہوا۔
اس کے بعد ساحر لگاتار فلموں کے لئےگانا لکھتے رہے اور ایک سے بڑھ کر ایک سپر ہٹ گانے سامعین کی نظر کئے ۔آپ نے بازی،ٹیکسی ڈرایور،ہاوس نمبر 44۔ اور پیاسا جیسی بہت ساری فلموں کے لئے گانے لکھے۔فلم ’’برسات کی رات‘‘کے نغموں کے علاوہ آپکے بے شمار ایسے نغمے ہیں جو آج بھی اسی مٹھاس اور کشش کے ساتھ سامعین کے کانوں میں رس گھولتے رہے ہیں۔ ’ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی‘۔’چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو‘۔’ میں نے چاند ستاروں کی تمنا کی تھی‘۔’ابھی نا جاو چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں‘۔’میں زندگی میں ساتھ نبھاتا چلاگیا‘۔’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘ ۔’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘۔’ تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے‘۔’چلو ایک بار پھر سےاجنبی بن جائیںہم دونوں‘۔’جسے تو قبول کر لے وہ ادا کہاں سے لاوں‘۔ جیسے گیت آج بھی برابر اسی آب وتاب کےساتھ مقبول عام ہیں اوربہت زیادہ پسند کئے جا رہے ہیں۔
ساحر نے 122فلموں کے لئے لگ بھگ 733 گانے لکھے ،جن میں آشا بھونسلے نےقریب 223,،رفیع نے188،لتا نے 160,،مکیش نے 22،کشورکمار نے69اور طلعت محمود نے 20 گانے گائے۔
ساحر لدھیانوی نے دو مرتبہ فلم فئیر ایوارڈ حاصل کیا ہے۔پہلا ایوارڈ 1934 ء میں فلم تاج محل کے لئے لکھے گئے گیت ’’جو واعد کیا وہ نبھانا پڑے گا‘‘ پراور دوسرا ایوارڈ 1967ء میں فلم’’ کبھی کبھی ‘‘کے لئے لکھے گئے گیت ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘کے لئے دیا گیا۔پیار میں ناکامی کے بعد ساحر نے ساری عمر شادی تونہیں کی مگر اپنی پر سوز شاعری سے لوگوں کے دلوں پر راج کرتے رہےاور ان کے لئے مسلسل تسکین قلب کا سامان میسر کرتے رہے۔ساحر 59 برس کی عمر میں 25 اکتوبر 1980 ء کو اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔ساحر نے دنیا میں شہرت پانے کے باوجود اس دنیا کی حقیقت کو اپنے چند اشعار میں یو سمیٹا ہے۔
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انسان کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
رابطہ۔9906205535
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے)