رمضان المبارک اپنے انقلاب آفریں اور روح پرور اثرات کی سوغات ہمیں سونپ کے وداع لے رہاہے کہ جن مسجدوں کی د ر دیوارنمازیوں کے منتظر ہوا کرتے ،وہاں خوشیوں اور طماینت کی فضائیں دیکھنے کو ملیں ، جہاں بستیوں میں شور شرابے کا عالم ہوا کرتا تھا، وہاں اچانک اسلامی معاشرت کے دل خوش کن اثرات نمودار ہوئے ، جن پتھر دلوں پر دنیوی خواہشات کی حکمرانی تھی ،رمضان کی بدولت وہ موم کی طرح ملائم ہوئے ۔ غرض کہ گزشتہ ۲۹؍دن سے ہر مسلم بستی میں اخوت ، محبت، صبر وتحمل ،پرہیز گاری ، صوم وصلواۃ کی پابندی اورصدقات وخیرات کی ادائیگیوں کی خوشبو ئیںمہکتی رہیں ۔ عالم ِانسانیت صدیوں سے اسی روح فزا فضاکی متلاشی ہے مگر افسوس کہ یہ ابھی اسلام کے پاک ومعطر فضا سے آشنا نہیں ۔ بہر صورت اسے رمضان کی ہی دین کہا جاسکتا ہے کہ ا نسانی زندگیوں میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ روزہ داری کے دیر پا اثرات ذہن و قلوب پر کچھ اس طرح ثبت ہوتے ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں ۔انہی خوش بختانہ اثرات میں زکواۃکی ادا ئیگی بھی شامل ہے جو غرباء ، مساکین ، فقراء ، سائل ، محرومین اور دیگر محتاجوں کا حق ہے ۔ رمضان میںاس فریضے کی ادائیگی میں گرم جوشا نہ جذبۂ ایثار جھلکتا ہے ۔ زکوٰۃ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت سے کسی ایمان والے کو انکار نہیں ہوسکتا مگر ستم ظریفی یہ کہ غفلت شعاری اور لاعلمیت کے سبب ہم میں سے اکثر لوگ اس فرض مالی عبادت کے تئیں عدم دلچسپی کے شکار ہیںجب کہ یہ ایمانیات وصالحات کا بنیادی جز ہے۔ زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کا مرض وادی کشمیر میں بھی خاصا دیکھا جارہاہے ۔ ایک سر سری اندازے کے مطابق یہاں صاحبانِ نصاب میں سے تقریباًپچیس فیصد افراد ہی باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور باقی لوگ اس ضمن میں غفلت برت لیتے ہیں ۔ اگرچہ قوم دیگر قربانیوں کی مثال سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ دنیا اس بات کی گواہ کہ ۲۰۰۵ء کے تباہ کن زلزلے ،۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور۱۶ ۲۰ ء کی عوامی ایجی ٹیشن یا ۲۰۱۴ ء کے سیلابی قہر میں کس طرح لوگوں نے ایک دوسرے کی مدد کی کہ قوم پھر سے مصائب وتکالیف کے باوجود ایک دوسرے کی مدد سے زندگی کی دوڑ میں اٹھ کھڑی ہوئی ۔ سوال یہ ہے کہ جب رواں جدوجہد میں لوگ مسلسل اپنی جانوں اور املاک وغیرہ کی قربانیاں دے رہے ہیں مگر پھر وجہ کیا ہے کہ ہم لوگ زکوٰۃ کے تئیں غفلت شعاری کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ حالانکہ کہ مصیبت کے ایام میں ہمارے پاس صرف یہی ایک سرمایہ اور ہتھیار ہے جس سے ہم کسی حد تک تنگ دست اور مفلوک الحال کی مدد کرسکتے ہیں ۔ ـ جو بیت الما ل کمیٹیاں محلہ ۲۰۱۶ء کووجود میں لائی گئیں کتنا بہتر ہوتا ان کی وساطت سے اپنی اپنی سطح پر زکوٰۃ جمع کر نے اور متاثرین ومحتاجین پر خرچ کی جاتی ۔قوم میں زکوٰۃ کا اجتماعی نظام رائج کیوں نہیں ہوسکتا؟ اس حوالے سے ضلع بارہ مولہ کے فلاح الدارین جسے چند مخلص نوجوانوں نے پندرہ سال پہلے ۳۸ ہزار کے بجٹ سے 2015 ء میں وجود میں لایا آج ادارہ ایک کروڑ دس لاکھ تک پہنچا ہے ۔ الحمد اللہ ادارے نے ۲۰۲۵ء تک قصبے میں غربت کے خاتمے کا عزم کیا ہوا ہے ۔االلہ کی مدد فرمائے ۔اسی طرح یتیم فاوئڈیشن،یتیم خانہ ، یتیم ٹرسٹ ،سخاوت سنٹر، مساکین چریٹیل ٹرسٹ، شہجار وغیرہ کے علاوہ بھی بہت سارے فلاحی ادارے ریاستی سطح پر منظم طریقے پر زکوٰۃ وصدقات کی بنیاد پر یتیموں ،بیواوں ،محتاجوں اور سماج کے دیگر ضرورت مندوں کی فلاح وبہبود میں پیش پیش ہیں۔
زکوٰۃ سے ہماری عدم دلچسپی نے ہی ہمارے درمیان ضرورت مندوں کی ایک فوج موجود بے یارومددگار پڑی ہے۔ ہمارے جن مٹھی بھر غرباء اور محتاجوں کو سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ سے ماہانہ محض دوسو روپیہ کی ریلیف ملتی ہے ،انہیں سوسو با ر سوشل ویلفیر دفتروں اور بنکوں کا چکر کاٹ کر اپنی ذلت ، رسوائی اور خجالت کا خود اشتہار بنناپڑتا ہے۔ یہ صورت حال اسلامی تعلیمات کے منافی اور رمضان المبارک کی ا سپرٹ کے خلاف ہے۔ کیا ہمیں بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرح مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف جہاد کر نا ہوگا ؟ کیا قران پاک میں نماز کے ساتھ ہمیشہ زکوٰۃ کا حکم نہیں دیا گیاہے ؟کیا ہماری وادی میں نامساعد حالات کے پروردہ کم ازکم دو لاکھ سے زیادہ یتیم موجود نہیں ہیں جو زکوٰۃ کے حق دار ہیں ؟ کیا ان میں سے گزشتہ ۲۷؍برسوں کے دوران تحریک کشمیر کے نتیجے میں ۳۷فیصدایسے یتیم شامل نہیں جو دوونوںماںباپ کی شفقت سے محرو م نہیں ہیں ؟ کیا یہ حقیقت ہمارے سامنے نہیں کہ صرف دس فیصد ہی یتیم خانوں ہیں، باقی ماند ہ یتیم بچوں کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کس حال میں زندگی کے ایام کاٹ رہے ہیں ؟ایسی صورت حال ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم صیام کی برکات اور رحمتوں کو زکوٰۃ کی ادائیگی کی صورت میں ایک ودسرے کی امداد وخبر گیری میں ڈھال دیں۔
(((((()))))