حمیراعلیم
زکوٰۃ اور زکوٰۃ الفطر میں فرق یہ ہے کہ زکوۃ الفطر ہر مسلمان پہ فرض ہے۔گھر کے سربراہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کیطرف سے نماز عید سے قبل زکوٰۃ الفطر ادا کرے۔اس کیلئے مقررہ نصاب کی بھی کوئی شرط نہیں ہے۔علماء کےمطابق جب رمضان کے آخری دن کا سورج غروب ہوتا ہے تو زکوٰۃ الفطر واجب ہو جاتی ہے ،جسے نمازعید سے قبل ادا کرنا ضروری ہے۔ اِسے عید سے دو تین دن قبل بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔جبکہ زکوٰۃ صرف اس شخص پہ فرض ہے جو صاحب نصاب ہو۔مقررہ نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ سونا اور پچپن تولے چاندی یا ان کے برابر پیسوں کے سال پورا ہونے پہ اڑھائی فیصد ادا کرنا ہے۔جس کیلئے رمضان کی شرط نہیں ہے۔جب بھی نصاب کو سال پورا ہو جائے زکوٰۃ ادا کر دینی چاہیے۔مثلا ایک خاتون کی شادی صفر میں ہوئی اور وہ ساڑھے سات تولے یا اس سے زیادہ سونے کی مالک بن گئی تو اسے اگلے سال اس سونے کی زکوٰۃ صفر میں ادا کرنی ہو گی۔
زکوٰہ الفطر کامستحق کون ہے، اس بارے میں علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔کچھ کے مطابق جو مصارف زکوٰۃ ہیں، اُنہی کو زکوٰۃ الفطر ادا کی جانی چاہیے۔امام مالک، شیخ ابن تیمیہ، ابن القیم اور شیخ ابن باز کاکہنا ہے کہ صرف غرباء و مساکین ہی اس کے حقدار ہیں۔
شیخ ابن باز فرماتے ہیں۔’’ یہ غریبوں کو ہی دینی چاہیے۔کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔‘‘( ابو داؤد 1609)
بطور زکوٰۃ الفطر کیا کچھ دیا جا سکتا ہے؟مقامی اجناس کی صورت میں اس کی ادائیگی کی جا سکتی ہے۔شیخ ابن باز کہتے ہیں۔’’ حضرت عبد اللہ بن ابی صعیرؓ اپنے باپ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گندم کا ایک صاع (صدقہ فطر) تم میں سے ہر چھوٹے بڑے، آزاد وغلام، مرد و عورت، غنی اور فقیر ،ہر ایک پر فرض ہے۔ غنی کو اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعے) پاک کر دیتا ہے اور فقیر جتنا دیتا ہے، اس کی طرف اس سے زیادہ اُسے واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔‘‘( امام احمد، عبد الرزاق ، بیہقی ، بخاری 1432)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہؓ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔علماء نے حدیث میں موجود اشیائے خوردووش کو گندم، یا کوئی بھی مقامی خوراک، جوار، مکئی وغیرہ کہا ہے۔شیخ ابن تیمیہ اور عثیمین کی بھی یہی رائے ہے۔اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ الفطر کسی کھانے کی چیز کی صورت میں دی جاسکتی ہے نہ کہ رقم کی صورت میں۔(مجموع الفتاوی شیخ ابن باز 200-14)
جس جنس سے بھی صدقۃ الفطر دیا جائےشرعاً اس کی مقدار ایک صاع مقرر ہے۔ اس سے کم دینے سے صحیح طور پر صدقۃ الفطر ادا نہیں ہو گا۔ بعض صحابہ نے گیہوں کو گراں سمجھ کر نصف صاع دینے کا فتویٰ دیا، چونکہ انہوں نے ایسا فتویٰ اپنے اجتہاد سے دیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے بعض دوسرے صحابہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہم جس جنس سے بھی صدقہ دیں گے، پورا صاع ہی دیں گے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں یہی دستور تھا۔(صحیح مسلم ص۳۱۸ ج۱ میں ہے)
“جس شخص کو یہ علم ہو کہ فطرانہ غذائی اجناس سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن وہ نقدی کی صورت میں فطرانہ ادا کر دیتا ہے کیونکہ اس طرح اسکے لئے فطرانہ ادا کرنا آسان اور مشقت طلب نہیں ہےتو یہ فطرانہ کفایت نہیں کریگا۔لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ اگر کوئی ایسا فقیر نہیں ملتا جو چاول، کھجور، گندم فطرانے میں قبول کرے بلکہ سب نقدی کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس وقت نقدی سے فطرانہ ادا کرینگے،۔چنانچہ مناسب غذائی جنس کے ایک صاع کی قیمت کے برابر رقم ادا کردی جائے گی”
عصر حاضر میں چونکہ بارٹر سسٹم (اجناس کا تبادلہ) تقریبا ختم ہو چکا ہے اور ہر شے کو روپے کے عوض ہی بیچا یا خریدا جاتا ہے ۔ تو آج اگر کوئی مسکین جسے آپ جنس صدقہ فطر میں ادا کریں اسکے پاس وہ جنس پہلے سے ہی وافر مقدار میں موجود ہو اور وہ اسے بیچنے کے لیے مارکیٹ کا رخ کرے تو اسے اس جنس کی کم بلکہ کم ترین قیمت ملتی ہے۔ تو ایسے میں اگر آپ خود اس مسکین کے وکیل بن جائیں اور اسے اسی جنس کی بہتر بلکہ بہترین قیمت ادا کر دیں تاکہ وہ اپنی دیگر حوائج ضروریہ پوری کر سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام میں کسی کا وکیل بننا یا کسی کو اپنا وکیل بنانا مستحسن امر ہے۔
بعض ائمہ کے نزدیک زکوۃ الفطر صرف اغنیاء پر واجب ہے غرباء پر نہیں۔ اور یہ مذہب احناف کا ہے ہدایہ میں ہے:اس کے برعکس دوسرے ائمہ اور محدثین کے نزدیک زکوٰۃ الفطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں بلکہ زکوٰۃ الفطر ہر اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس زکوٰۃ الفطر کے علاوہ ایک دن اور رات کی خوراک موجود ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ الفطر کا مقصد جس طرح شارع علیہ الصلاۃ و السلام نے یہ بیان فرمایا ہےکہ اس سے غرباء و مساکین کے لیے خوراک مہیا ہو۔اس طرح یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے روزہ لغو و رفث سے پاک و صاف ہو جائے اور روزہ کی تطہیر امیر و غریب دونوں کے لیے ضروری ہے، نیز جن احادیث سے صدقۃ الفطر کا وجوب اور فرضیت ثابت ہوتی ہے،ان میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں کیا گیابلکہ احادیث میں تو صراحۃً امیر و غریب دونوں کو صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
چنانچہ ابو داود میں ہے:’’ ہر امیر و غریب مسلمان زکوٰۃ الفطر ادا کرے،اللہ تعالیٰ غنی کے روزوں کو لغو و رفث سے پاک کر دے گااور فقیر جتنا دے گا، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ اسکے گھر لوٹا دے گا (اور اس کے روزوں کی تطہیر بھی ہو جائے گی)۔‘‘
اگر یتیم اور مجنون صاحب مال ہیں تو ان کے مال کی زکوٰۃ اور زکوٰۃ الفطر ان کے مال سے ادا کیا جائے امام بخاری فرماتے ہیں:
’’ حضرت عمرؓ، حضرت علی ؓ،حضرت جابرؓ، حضرت عائشہؓ، طاوس، عطاء اور ابن سیرین کا مذہب یہ ہے کہ یتیم کے مال سے زکوٰۃ دی جائے۔ اور امام زہری کہتے ہیں کہ دیوانے کے مال کی زکوٰۃ دی جائے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جب ان کے مال سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے تو زکوٰۃ الفطر کا بھی یہی حکم ہے۔چنانچہ ان کے مال سے زکوٰۃ الفطر نکالا جائے گا۔ ہاں اگر یہ لوگ محتاج ہیں، ان کے پاس کوئی مال نہیں تو ان کی طرف سے زکوٰۃ الفطر وہ شخص ادا کرے،جس نے ان کے طعام و خوراک کا انتظام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے ،اگرچہ کمزور ہے۔’’ ان لوگوں کی طرف سے زکوٰۃ الفطر ادا کرو، جن کے اخراجات نان و نفقہ تم نے برداشت کر رکھے ہیں۔‘‘البتہ کھیتی باڑی، دوکان داری یا گھر کے کام کاج کے لیے رکھے ہوئے ملازم، غلاموں کے حکم میں نہیں ہیں ۔یہ اپنا اور اپنے بال بچوں کی زکوٰۃ الفطرخود ادا کریں گے۔آقا پر ان کا صدقہ لازم نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ہماری عبادات، صدقات اور دعاوں کو قبول فرمائے۔آمین