مسعود محبوب خان
جب قومیں دنیاوی عیش و عشرت میں ڈوب جاتی ہیں اور اپنے اخلاقی و دینی اقدار کو پس پشت ڈال دیتی ہیں، تو وہ اپنی روحانی قوت کھو بیٹھتی ہیں۔ سورہ الحدید میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’جان لو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل تماشہ، زینت، آپس میں فخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔‘‘۔ یہ آیت اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ دنیا کی زندگی فانی اور دھوکہ دینے والی ہے اور اگر اس کی لذتوں میں انسان محو ہو جائے تو وہ اپنے مقصد حیات سے دور ہو جاتا ہے۔
دنیاوی لذتیں عارضی ہیں اور ان کا پیچھا کرنا انسان کو ہمیشہ مطمئن نہیں کر سکتا۔ دنیا کی محبت انسان کو حسد، لالچ اور دیگر گناہوں میں مبتلا کرتی ہے۔ یہ انسان کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے، دنیاوی مال و دولت کے لئے حق اور انصاف کو پس پشت ڈال دے، اور اللّٰہ کے احکامات کو نظر انداز کرے۔
اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ دنیاوی زندگی فانی اور دھوکہ دینے والی ہے، اور اصل کامیابی آخرت کی تیاری میں ہے۔ ہمیں دنیا کے وسائل کا استعمال ضرور کرنا چاہئے، مگر ان کا مقصد اللّٰہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی ہونا چاہئے۔ دنیاوی لذتوں میں غرق ہونے کی بجائے انسان کو اپنی آخرت کے لئے عمل کرنا چاہئے۔ دنیا کی محبت اور اس کی لذتوں میں غرق ہونا انسان کو زوال کی طرف لے جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہمیں اعتدال اور آخرت کی تیاری کا درس دیا گیا ہے۔ دنیاوی زندگی کی فانی لذتوں کی بجائے ہمیں اللّٰہ کی رضا، ایمان، اور نیک اعمال کی طرف راغب ہونا چاہئے تاکہ ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکیں۔
قیادت کا کردار کسی بھی قوم کی ترقی، استحکام اور زوال میں ایک اہم اور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جب قوم کی قیادت صحیح راستے پر ہوتی ہے اور وہ انصاف، امانتداری اور اخلاقی اصولوں کی پابند ہوتی ہے، تو قوم ترقی کرتی ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ اس کے برعکس، جب قیادت ظلم، ناانصافی، بدعنوانی اور خود غرضی کا شکار ہو جاتی ہے تو پوری قوم اجتماعی طور پر کمزور ہو جاتی ہے اور زوال کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔قرآن مجید میں بارہا حکمرانوں اور قائدین کو انصاف کرنے، ظلم سے بچنے اور عوام کی خدمت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قیادت کی اصلاح نہ صرف ان کی ذاتی زندگیوں کا معاملہ ہے بلکہ پوری قوم کی بھلائی اور کامیابی کا دارومدار بھی اس پر ہوتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب قوموں کی قیادت نے اپنی ذمّہ داریوں سے غفلت برتی اور خود غرضی، ناانصافی اور بدعنوانی میں مبتلا ہو گئی، تو اس کا نتیجہ ہمیشہ قوم کی تباہی اور زوال کی صورت میں نکلا۔ مثال کے طور پر، بنی اسرائیل کا زوال اس وقت شروع ہوا جب ان کے حکمرانوں اور علماء نے انصاف کا دامن چھوڑ دیا اور ظلم و فریب کی راہ اختیار کی۔ اندلس کی مسلم سلطنت کا زوال بھی اس وقت ہوا جب وہاں کی قیادت نے آپس میں اختلافات اور عیش و عشرت کی زندگی کو ترجیح دی۔بدعنوانی اور ظلم کی قیادت معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کر دیتی ہے۔ جب حکمران انصاف کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے بھاگتے ہیں، تو معاشرے میں بدعنوانی، ظلم اور ناانصافی عام ہو جاتی ہے۔ یہ ناانصافی لوگوں میں بے چینی، غصّہ، اور مایوسی پیدا کرتی ہے، جس کا نتیجہ قوم کے زوال کی صورت میں نکلتا ہے۔ سورہ ھود میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اور یہ بستیاں ہیں جنہیں ہم نے اس وقت تباہ کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا۔‘‘ یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جب کسی قوم کے حکمران یا لوگ ظلم میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تو وہ تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آج کے دور میں بھی کئی مسلم ممالک قیادت کی ناکامی اور بدعنوانی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے وہ اندرونی طور پر کمزور ہو گئے ہیں اور بیرونی طاقتیں ان پر غالب آ رہی ہیں۔ کئی حکمران اپنی قوم کی بہتری کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے قوم میں ناانصافی اور ظلم عام ہو گیا ہے۔ قوموں کو زوال سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ قیادت کو اسلامی اصولوں کے مطابق تیار کیا جائے اور انہیں امانتداری، انصاف، اور عوام کی خدمت کا درس دیا جائے۔ ایک مضبوط اور عادل قیادت قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے اور زوال سے بچا سکتی ہے۔ قیادت کی ناکامی ایک قوم کے زوال کا بڑا سبب بن سکتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، حکمرانوں کی اصلاح اور ان کے کردار کی درستگی پوری قوم کے استحکام اور فلاح کے لئے ضروری ہے۔ جب قیادت انصاف، امانتداری اور عوام کی خدمت کے اصولوں پر قائم ہوتی ہے، تو قوم مضبوط ہوتی ہے اور ترقی کرتی ہے۔
دینی اور دنیاوی معاملات میں عدم توازن قوموں کے زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ اسلام ایک ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جو انسان کو دنیاوی اور دینی کامیابی دونوں کا جامع نظریہ دیتا ہے۔ جب قومیں اپنے دینی و دنیاوی معاملات میں توازن برقرار نہیں رکھتیں، اور ان دونوں میں فرق کرنے لگتی ہیں، تو وہ نہ صرف روحانی بلکہ معاشرتی اور معاشی طور پر بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔اسلامی تعلیمات کے مطابق دنیا اور آخرت کے معاملات کو ایک دوسرے کے ساتھ متوازن رکھنا ضروری ہے۔ دنیاوی زندگی میں مشغولیت اور دینی فرائض کی ادائیگی کے درمیان ایک ہم آہنگی قائم کرنا ہی انسان کی کامیابی کا ضامن ہے۔جب قومیں دنیا کی محبت اور مال و دولت کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتی ہیں، تو ان میں دینی احساسات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ عبادات میں سستی، اخلاقی گراوٹ اور روحانی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ قومیں صرف مادی ترقی کو اپنی کامیابی سمجھنے لگتی ہیں جب کہ آخرت کو بھلا بیٹھتی ہیں۔ دوسری طرف جب قومیں دنیاوی ذمّہ داریوں کو چھوڑ کر صرف دینی معاملات پر توجہ مرکوز کرتی ہیں تو وہ پسماندگی اور غربت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ محنت اور جدوجہد کو چھوڑ کر صرف عبادات کی طرف مائل ہونے سے معاشرتی اور معاشی حالات خراب ہو جاتے ہیں۔اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں توازن کی تعلیم دی ہے، تاکہ انسان دنیا میں کامیاب ہو اور آخرت میں بھی سرخرو ہو۔
اسلام میں دعوت و تبلیغ کو ایک اہم فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ جب قومیں اپنی دینی ذمّہ داریوں سے غافل ہو کر دین کی تبلیغ اور اصلاح کا کام چھوڑ دیتی ہیں تو ان کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ نبی اکرمؐ کی سیرت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دعوت و تبلیغ میں ثابت قدم رہنا اور دین کے پیغام کو عام کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ مسلمان خیر کی دعوت دینے والے بنیں اور نیکی کی طرف بلائیں:’’اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو نیکی کی دعوت دے، بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔‘‘ (آل عمران: 104) ۔جب قومیں دعوت و تبلیغ کے فریضے سے غافل ہو جاتی ہیں تو ان کے اندر دینی شعور کمزور پڑ جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کو اپنانے اور دوسروں تک پہنچانے کی بجائے وہ دنیاوی معاملات میں مشغول ہو جاتی ہیں، جس سے ان کا اخلاقی اور روحانی زوال شروع ہو جاتا ہے۔ جب معاشرے میں نیکی کی دعوت دینے والا کوئی نہیں رہتا اور برائیوں سے روکنے کی کوشش نہیں کی جاتی، تو برائیاں بڑھنے لگتی ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں دین کی طرف بلانے والے نہ ہوں وہاں ناانصافی، ظلم اور بے حیائی عام ہو جاتی ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام چھوڑنے سے امت مسلمہ کی اجتماعی قوت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔رسول اللّٰہؐ کی زندگی دعوت و تبلیغ کا عملی نمونہ ہے۔ مکہ میں ابتدائی دعوت سے لے کر مدینہ کی ریاست کے قیام تک، آپؐ نے ہر موقع پر دین اسلام کی دعوت دی اور مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میری طرف سے پیغام پہنچاؤ، چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ یہ حدیث مسلمانوں کو یہ نصیحت کرتی ہے کہ وہ دین کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے میں کبھی غافل نہ ہوں۔
دعوت و تبلیغ مسلمانوں کی اجتماعی ذمّہ داری ہے اور اس سے غفلت قوم کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔ قومیں جب اپنی دینی ذمّہ داریوں سے غافل ہو جاتی ہیں اور دین کی تعلیمات کو عام کرنے کا فریضہ ترک کر دیتی ہیں، تو ان کا روحانی اور معاشرتی زوال یقینی ہو جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق دعوت و تبلیغ کو جاری رکھنا اور دین کو عام کرنا ایک لازمی فریضہ ہے تاکہ امت مسلمہ اپنی اصل بنیادوں پر قائم رہ سکے۔اسلامی نقطۂ نظر سے قوموں کے زوال کے اسباب میں ایمان کی کمزوری، عدل و انصاف کا فقدان، فرقہ واریت، قیادت کی ناکامی، اخلاقی زوال، اور دنیا کی محبت جیسے عوامل شامل ہیں۔ ان تمام اسباب سے بچنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے قوموں کو قرآن و سنّت کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو منظم کرنا ضروری ہے۔ جب تک قومیں اللّٰہ کی رضا اور اسلامی اصولوں کو اپنائے رکھیں گی، ان کی ترقی اور عروج یقینی ہوگا۔
[email protected]