مسعود محبوب خان
اسلامی نقطۂ نظر سے قوموں کے زوال کے اسباب کو قرآن و سنّت کی روشنی میں سمجھنا نہایت اہم ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں متعدد بار ان اسباب کی نشاندہی کی گئی ہے جو کسی قوم کے عروج و زوال کا باعث بنتے ہیں۔ ذیل میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قوموں کے زوال کے چند اہم اسباب کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جائے گی۔
ایمان اور اخلاقی تنزلی :
ایمان اور اخلاقیات کسی بھی قوم کی کامیابی اور ترقی کے بنیادی ستون ہیں۔ اسلام میں ایمان کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں۔ جب کوئی قوم اپنے ایمان و عقیدے اور اللّٰہ کی ہدایت سے دور ہو جاتی ہے، تو وہ اپنے وجود کی بنیادی قوت سے محروم ہو جاتی ہے اور ان کے دلوں سے اللّٰہ کا خوف نکل جاتا ہے تو وہ روحانی اور اخلاقی طور پر کمزور ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک بار بار یہ درس دیتا ہے کہ جب لوگ اللّٰہ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اللّٰہ کا خوف کھو دیتے ہیں، تو وہ قوم اخلاقی، روحانی اور معاشرتی زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں بارہا ذکر آیا ہے کہ جب قومیں اللّٰہ کے احکامات کو نظر انداز کرتی ہیں اور ایمان میں کمزوری ظاہر کرتی ہیں، تو وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جیسے سورۃ الرعد میں فرمایا گیا: ’’بے شک اللّٰہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ قوموں کی ترقی یا زوال کا انحصار ان کے اعمال اور ایمان پر ہے۔
ایمان کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی اسلامی معاشرے کی بنیاد ہیں۔ عدل، صداقت، امانت داری، اور انصاف جیسے اصول معاشرے کی ترقی کے ضامن ہیں۔ جب کوئی قوم ان اخلاقی اقدار سے دور ہو جاتی ہے اور جھوٹ، فریب اور ظلم جیسی برائیوں کو فروغ دیتی ہے، تو ان کا زوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی اخلاقی پستی قوم کی تباہی کا آغاز ہوتی ہے جو کہ تاریخ میں بارہا ثابت ہو چکی ہے۔ اخلاقی گراوٹ کسی قوم کے زوال کی بڑی نشانی ہوتی ہے۔
عدل و انصاف کا فقدان :
عدل و انصاف اسلامی نظام کی بنیاد ہے۔ جب کوئی قوم عدل کے بجائے ظلم، جانبداری اور ناانصافی کا راستہ اختیار کرتی ہے تو وہ قوم اجتماعی طور پر کمزور ہو جاتی ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم سے نہیں۔‘‘ یہ قول اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ظلم کسی بھی قوم یا حکومت کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ظلم سے معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے، عوام کے دلوں میں بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور قوم کی اجتماعی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قوموں نے عدل و انصاف کو پس پشت ڈال کر ظلم، جانبداری اور ناانصافی کو فروغ دیا، وہ قومیں جلد ہی تباہی کا شکار ہوئیں۔ انصاف کا فقدان معاشرتی تفریق کو جنم دیتا ہے اور ایک ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جہاں ظلم اور فساد عام ہو جاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب اس میں عدل کا قیام ہو اور ہر فرد کے ساتھ انصاف ہو، چاہے وہ کسی بھی طبقے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔
تعلیم و شعور کی کمیابی :
اسلام نے علم کو فلاح اور ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے، اس وجہ سے اسلام میں علم کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے اور قرآن پاک کی پہلی وحی ’’اقْرَأْ‘‘ (پڑھ) اس بات کی واضح دلیل ہے کہ علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔ علم، شعور اور دانش ہی وہ راستے ہیں جو انسان کو فلاح، ترقی اور عزت کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب کوئی قوم علم و دانش سے منہ موڑ لیتی ہے اور جہالت کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے، تو وہ اپنی ترقی کی راہوں سے بھٹک جاتی ہے اور معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے پیچھے رہ جاتی ہے۔ علمی اور فکری زوال قوموں کی ترقی کو روک دیتا ہے اور انہیں دوسروں کا محتاج بنا دیتا ہے۔
تعلیم اور شعور کی کمی قوموں کو کمزور بنا دیتی ہے اور انہیں دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ جب لوگ علم سے محروم ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنی بنیادی ضروریات کے لیے دوسروں کے محتاج ہو جاتے ہیں بلکہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیتے ہیں۔ اس سے قومیں اپنی خودمختاری اور طاقت کو کھو دیتی ہیں اور ان پر استحصال اور غلامی کا سایہ چھا جاتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں علم اور تعلیم کو ہمیشہ اہمیت دی گئی۔ اسلامی تہذیب کے عروج کے دور میں مسلمان سائنس، طب، فلسفہ، ریاضی اور دیگر علوم میں دنیا کے رہنما تھے۔ لیکن جب مسلمانوں نے تعلیم اور تحقیق کو نظر انداز کیا اور جہالت کی طرف رجوع کیا تو ان کی علمی برتری ختم ہوگئی اور وہ زوال کا شکار ہو گئے۔ لہٰذا کسی قوم کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم و شعور کو فروغ دے اور تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائے، کیونکہ تعلیم ہی وہ قوت ہے جو قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور انہیں دنیا میں ایک مقام دلانے کا سبب بنتی ہے۔
تقویٰ اور عبادات کی ترک :
تقویٰ، یعنی اللّٰہ کا خوف اور اس کے احکامات کی پیروی، اسلامی زندگی کا بنیادی اصول ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو انسان کو صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے اور دنیا کی فتنہ انگیزیوں سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔ جب کوئی قوم تقویٰ اور عبادات سے دور ہو جاتی ہے، تو وہ روحانی طور پر کمزور ہو جاتی ہے اور دنیاوی لذتوں اور خواہشات کے پیچھے بھٹکنے لگتی ہے۔ ایسی حالت میں قومیں نہ صرف اپنی روحانی طاقت کھو دیتی ہیں بلکہ اللّٰہ کی مدد اور رحمت سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔نبی اکرمؐ کا فرمان ہے:’’دنیا اور اس کی ہر چیز ملعون ہے، سوائے اللّٰہ کے ذکر اور اس کے ساتھ وابستہ چیزوں کے‘‘ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ دنیاوی لذتیں اور مادی چیزیں فانی ہیں، اور ان میں الجھنا انسان کو اس کے اصل مقصد یعنی اللّٰہ کی رضا سے دور کر دیتا ہے۔
عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، بندے اور اللّٰہ کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتے ہیں۔ جب قومیں ان فرائض سے غفلت برتنے لگتی ہیں، تو وہ نہ صرف اپنے ایمان میں کمزور ہو جاتی ہیں بلکہ ان کی اجتماعی روحانیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ تقویٰ اور عبادات سے دوری معاشرتی، اخلاقی اور روحانی زوال کا سبب بنتی ہے، جس کے نتیجے میں قومیں دنیاوی طاقت اور عزت بھی کھو دیتی ہیں۔ عبادات سے دوری اور تقویٰ میں کمی قوموں کے زوال کا ایک بڑا سبب ہے۔لہٰذا تقویٰ اور عبادات کی پابندی کسی بھی قوم کے لیے نہ صرف روحانی بلکہ دنیاوی کامیابی کے لیے بھی لازم ہیں۔ جب تک ایک قوم اللّٰہ کے احکامات کی پیروی کرتی ہے اور اپنی عبادات میں استقامت اختیار کرتی ہے، اللّٰہ کی مدد اور برکت اس کے ساتھ رہتی ہے، اور وہ قوم دنیاوی چیلنجز کا بھی کامیابی سے سامنا کر سکتی ہے۔
فرقہ واریت اور انتشار :
فرقہ بندی اور انتشار اسلام کی روح کے خلاف ہیں کیونکہ اسلام میں اتحاد اور اخوت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی واضح تعلیمات ہمیں بار بار یاد دلاتی ہیں کہ اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر تفرقہ سے بچنا چاہئے۔ فرقہ واریت اور انتشار نہ صرف مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرتے ہیں بلکہ انہیں اندرونی طور پر تقسیم کرکے دشمنوں کے لیے آسان شکار بنا دیتے ہیں۔اسلامی تعلیمات میں اتحاد اور باہمی تعاون کی بنیادی اہمیت ہے۔ قرآنِ مجید کی سورہ آل عمران کی آیت 103 میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اور سب مل کر اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘اسی طرح رسول اللّٰہؐ نے فرمایا: ’’مومن ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے ایک حصّہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ دنیاوی فلاح کا بھی ذریعہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں فرقہ بندی اور اختلافات کا زوال پر براہ راست اثر رہا ہے۔ خلفائے راشدین کے دور کے بعد مسلمانوں میں سیاسی اور مذہبی اختلافات بڑھتے چلے گئے، جس کے نتیجے میں مختلف فرقے اور گروہ وجود میں آئے۔ ان اختلافات نے نہ صرف مسلمانوں کو اندرونی طور پر کمزور کیا بلکہ دشمن طاقتوں کو مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اندلسی خلافت کا زوال اور عباسیوں کے دور میں داخلی خلفشار اس کی بڑی مثالیں ہیں، جہاں فرقہ وارانہ جھگڑوں نے عظیم اسلامی تہذیبوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔
آج بھی امت مسلمہ کو فرقہ واریت کا سامنا ہے۔ یہ داخلی انتشار مسلمانوں کو عالمی سطح پر کمزور بنا رہا ہے۔ دشمن قوتیں مسلمانوں کی اس تقسیم کا فائدہ اٹھا کر ان کے قدرتی وسائل اور سیاسی طاقت پر قابض ہو رہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں اور ان کا اتحاد ہی ان کی بقا اور کامیابی کا ضامن ہے۔ ہمیں فرقہ بندی اور اختلافات کو چھوڑ کر اسلامی اخوت، رواداری اور محبت کو فروغ دینا چاہئے تاکہ امت مسلمہ دوبارہ اپنے عظیم مقام کو حاصل کر سکے۔
جب کوئی قوم باہمی جھگڑوں، فرقہ بندیوں اور داخلی انتشار کا شکار ہو جاتی ہے، تو وہ اپنی قوت کھو دیتی ہے اور زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجوہات میں فرقہ واریت اور انتشار شامل ہیں۔ فرقہ واریت اور انتشار کے مقابلے میں ہمیں اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور قرآن و سنّت کی روشنی میں باہمی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس طرح ہی ہم اتحاد اور اخوت کی فضاء میں ترقی کر سکتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں مسلمانوں کو نہ صرف روحانی بلکہ جسمانی طور پر بھی ہمیشہ تیار رہنے کی اور دفاعی و عسکری قوت مضبوط رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے دشمنوں سے غافل نہ ہوں اور محفوظ رہ سکیں۔ جب قومیں اپنے دشمنوں کی سازشوں سے غافل ہو جاتی ہیں اور جنگی تیاری میں کمی کرتی ہیں، تو دشمن ان پر حاوی ہو جاتا ہے
۔ سورہ الانفال کی آیت 60 میں اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ:’’اور ان کے خلاف قوت جمع کرو جتنی تم سے ہو سکے۔‘‘یہ آیت مسلمانوں کو واضح طور پر یہ ہدایت دیتی ہے کہ وہ اپنی دفاعی قوت کو مضبوط بنائے رکھیں تاکہ دشمن کبھی ان پر حملہ آور نہ ہو سکے۔ جب قومیں اپنے دشمن کی چالوں اور سازشوں سے غافل ہو جاتی ہیں اور دفاعی تیاری میں کمی کرتی ہیں تو دشمن کو حملہ کرنے اور غالب آنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں کئی مواقع پر مسلمانوں نے اپنی قوت کو نظر انداز کیا اور اس کا نتیجہ دشمن کی طرف سے شکست کی صورت میں نکلا۔ اندلس کی فتح کے بعد وہاں کے مسلمان اپنی سیاسی و عسکری کمزوریوں کی وجہ سے آخرکار وہاں سے نکالے گئے۔آج بھی امت مسلمہ کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ دشمن طاقتیں ہمیشہ ان کی کمزوریوں کو ڈھونڈ رہی ہیں اور ان پر غلبہ پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کئی مسلم ممالک جنگوں، اقتصادی پابندیوں اور داخلی انتشار کا شکار ہیں، جو کہ تیاری کی کمی اور دشمن سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کو ہر دور میں اپنے دفاع کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ تیاری صرف عسکری میدان میں ہی نہیں بلکہ علم، ٹیکنالوجی، اور اقتصادی محاذ پر بھی ہونی چاہئے۔ جدید دنیا میں جو قومیں علم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہیںوہی دفاعی اعتبار سے مضبوط ہیں۔
دنیاوی لذتوں کا خمار :
دنیاوی لذتوں میں غرق ہونا اور دنیا کی محبت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا وہ عمل ہے جس نے کئی قوموں کو زوال کی طرف دھکیل دیا۔ اسلامی تعلیمات میں واضح طور پر دنیاوی لذتوں کے پیچھے اندھا دھند دوڑنے کو ایک فانی اور نقصان دہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللّٰہؐ نے فرمایا:’’دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔‘‘یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ جب انسان اپنی زندگی کا مقصد صرف دنیا کی لذتیں اور عیش و عشرت بنا لیتا ہے، تو وہ اپنے اصل مقصد، یعنی آخرت کی تیاری اور اللّٰہ کی رضا حاصل کرنے سے غافل ہو جاتا ہے۔دنیاوی خواہشات میں مبتلا ہونا انسان کو اللّٰہ کی عبادت اور آخرت کی تیاری سے دور لے جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کی زندگی ایک آزمائش ہے اور آخرت کی زندگی ہی اصل اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔۔۔ (جاری)
[email protected]