غذا کیلئے زرعی اراضی کا ہونا ضروری ہے۔ساری غذا زمین سے پیدا کی جاتی ہے۔ایسے میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زمین کے بغیر خوراک کا تصور محال ہے لیکن اس کے باوجود زرعی زمین کو غیر زرعی استعمال میں لایا جارہا ہے۔ لاکھوں کنال زرعی زمین کو پختہ جنگل میں تبدیل کیا گیا۔ایک وقت تھا جب کشمیر خوراک کے معاملے میں کم و بیش خود کفیل تھا لیکن آج حالت یہ ہے کہ قومی شاہراہ چند دن بند ہوجاتی ہے تو کہرام مچ جاتا ہے ۔ زرعی زمین سکڑتی ہی چلی جارہی ہے اور اب دانے دانے کیلئے ہمیں پنجاب اور دیگر ریاستوں سے درآمد ہونے والے اناج کا محتاج رہنا پڑتا ہے۔چاولوں سے لیکرگندم اور یہاں تک کہ سبزیاں بھی باہر سے آتی ہیں۔مردم شماری2011کے اعدادوشمار کے مطابق جموںوکشمیرمیں کاشتکاروں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جارہی ہے اور جہاں 1961کی مردم شماری میں یہاںکاشتکاروں کی شرح75فیصد ریکارڈ کی گئی تھی وہیں گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران یہ شرح بتدریج گھٹ کر اب محض28.8فیصد رہ گئی ہے جس کا سیدھے سادھے الفاظ میں یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ عوام کی غالب اکثریت اس آبائی پیشہ کو خیر باد کہنے پر کمربستہ ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ زرعی سرگرمیوں کو ترک کرکے غیر زرعی سرگرمیوں میں اپنامعاش تلاش کررہے ہیں۔محکمہ زراعت کے اعدادوشمار کے مطابق 1990میں کشمیر میں کل زرعی اراضی 2لاکھ 62ہزار ہیکٹر تھی جس میں ایک لاکھ 62ہزار ہیکٹراراضی پر چاول جبکہ ایک لاکھ ہیکٹر اراضی پر مکئی کی پیداوار ہوتی تھی۔ محکمہ زراعت کے مطابق اسوقت ایک لاکھ 26ہزار ہیکٹر اراضی پر چاول جبکہ60ہزار ہیکٹر اراضی پر مکئی کی پیداوار ہوتی ہے۔ کشمیر میں پچھلے تین دہائیوں کے دوران زرعی زمین میں تقریباً50ہزار ہیکٹر اراضی کی کمی واقع ہوئی ہے تاہم چاول اور مکئی کی پیدوار میں اضافہ ہوا ہے۔جموں و کشمیر میں اسوقت سالانہ 11لاکھ 50ہزار میٹرک ٹن چاول کی ضرورت ہوتی ہے جس میں 55فیصد بیرون ریاستوں جبکہ 34فیصد چاول مقامی سطح پر پیدا کیا جاتا ہے۔ چاول کی ضرورت میں سالانہ 14سے 20فیصد اضافہ ہوتا ہے اور اس طرح جموں و کشمیر کو سالانہ 21فیصد چاول کی کمی رہتی ہے۔ کشمیر صوبے میںچاول کی ماہانہ کھپت 39ہزار 123میٹرک ٹن ہے جبکہ مرکزی سرکار کی جانب سے کشمیر صوبے کو ماہانہ صرف 32ہزار 527میٹر یک ٹن چاول فراہم کرتا ہے مگر اس کے باوجود بھی کشمیر صوبے میں رہنے والی آبادی کو چاول فراہم کرنے میں 3ہزار529میٹرک ٹن چاول کم پڑتا ہے۔ ہمیں مکانات تعمیر کرنے کیلئے اپنی زرعی اراضی کی قربانی دینا پڑرہی ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔اس پالیسی سے جہاں ہماری معیشت تباہ ہوکر رہے گی وہیں ہماری خود انحصاری کا جنازہ نکلے گا کیونکہ زرعی معیشت کے سکڑتے جموں وکشمیرمیں کوئی متبادل معیشت فروغ پذیر نہیں ہو پارہی ہے۔ صنعتی فروغ کی تو بات ہی نہیں ،یہاں کی مقامی معیشتوں،جن میں دستکاریاں شامل تھیں، کا جنازہ بھی نکل چکاہے۔ایسے میں زراعت ایک کلیدی شعبہ ہے جس پر تکیہ کیا جاسکتا تھا مگر شہر تو شہر دْور دَراز دیہات میں بھی زرعی اراضی تہس نہس ہورہی ہے۔سرکار کو بڑھتی آبادی کے پیس نظر لوگوں کی رہائشی ضروریات پورا کرنے کیلئے زرعی اراضی کو ختم نہیں کرنا تھا بلکہ سرکار کے پاس اس اراضی کی کمی نہیں جہاںپر ایک منظم طریقہ پر رہائشی کالونیاں تعمیر کی جاسکتی تھیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا ،اس کا جواب بہتر انداز میں سرکار ہی دے سکتی ہے۔ جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے تو انہیں بھی اس بڑھتے ہوئے رجحان کے منفی پہلوئوںپر غور کرنے کی زحمت گوارا کرنی چاہئے۔لوگ ضرور عالیشان مکان بنائیں۔انہیں آرام سے زندگی بسرکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایسا وہ اپنی آنے والی نسلوں کی تقدیرکو دائو پر لگا کر کریں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ رہائشی تعمیرات کے وقت ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ زرعی زمین محفوظ رہے اور زیادہ سے زیادہ بنجر زمین اور کاہچرائی ہی رہائشی مقاصد کیلئے استعمال ہو۔اس منصوبہ پر جتنی جلدی عمل کیا جاتا ہے ،اتنا ہی بہتر رہے گا ،ورنہ اس کے بھیانک نتائج کیلئے ہمیں تیار رہنے پڑے گا۔