تباہی کیلئے مالکان، زمین دلال اور عام لوگ ذمہ دار:ماہرین
سرینگر//وادی کشمیر میں قریب 60 فیصد سے زائد زرعی اراضی اب ختم ہوچکی ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں کے علاوہ اینٹ کے بٹھوں اور دیگر کاموں کیلئے زرعی اراضی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ عام لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو زرعی سرگرمیوں اور اناج سے محروم رکھنے کا سامنا خود ہی تیار کررہے ہیں۔ وادی کشمیر میں زرعی اراضی اب ختم ہونے کے قریب ہے۔ لوگ زرعی اراضی پر تعمیراتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں تعمیرکی جارہی ہیں۔ آہستہ آہستہ اراضی کو کاروباری مراکز میں تبدیل کیاجارہا ہے۔
زمیندار اپنی اراضی اینٹ بٹھ مالکان کو ایک کنال کے حساب سے سالانہ بیس ہزار روپے پر دیتے ہیں۔ زرعی اراضی پر سٹون کریشر اور دیگر سرگرمیاں جارہی ہے جس کی وجہ سے زرعی اراضی قریب ختم ہونے کو ہے۔لیکن سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ زرعی اراضی کو میوہ باغات میں تبدیل کیا جارہا ہے اور اس میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کی وجہ سے جنوبی کشمیر جو کبھی زرعی اراضی کا مرکز مانا جاتا ہے اب اونتی پورہ کے ارد گرد کے محدود ہو کر رہ گیا ہے جبکہ شوپیان اور پلوامہ اضلاع میں زرعی اراضی تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی سرگرمی کے بغیر کوئی بھی سرگرمی زرخیز زمین کو بنجر بنادیتی ہے۔ اور اس کو واپس زرخیز بننے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو دانے دانے کے محتاج بنارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سائنس نے اتنی ترقی کی ہے لیکن کوئی بھی سائنسی ادارہ اب تک اناج کاایک دانہ تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے کیوںکہ یہ قدرتی عمل ہے جس کیلئے زمین ایسی جگہ ہے جہاں سے ہم اناج اْگاسکتے ہیں۔ اناج مشینوں میں نہیں اْگتا اور ناہی قدرتی عمل کے بغیر اس کیلئے کوئی اور عمل کامیاب ہوسکتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ سرکار ی سطح پر اگرچہ زرعی اراضی کو بچانے کے اقدامات کئے جارہے ہیں تاہم زمینی سطح پر اس کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے۔