! زراعت میں پانی کا ضیاع اور جدید نظام آبپاشی پانی کی بچت و تحفظ ِآب سرکار و عوام کی ذ مہ داری

سعدالرحمن ملک

زراعت میں پانی کی اہمیت و افادیت مسلّمہ ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کرآج تک زراعت کا انحصار پانی پر ہے۔یہی وجہ کہ اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو ہمیں قدیم تہذیبیں دریاؤں کے کناروں پر ہی آباد ملیں گی جس کی بنیادی وجہ پانی کے وسائل سے استفادہ کرنا تھا۔حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا میں پانی کے ذخائر کا تناسب صرف 60فیصد رہ گیا ہے جس کے لیے سنجیدگی سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو اگلے پندرہ سالوں میں پانی کے عالمی بحرا ن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ترقی یافتہ ممالک زرعی شعبہ میں پانی کے کم اور موثر استعمال کو یقینی بنا کر جہاں اضافی پیداوار حاصل کر رہے ہیں وہیں دستیاب پانی کو عام آبادی اور دیگر ضروریات کے لیے بھی محفوظ کیا جارہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن سمندری پانی کو اس کی شوریت کی وجہ سے فصلوں میں براہ راست استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

چارلی پیٹن (Charlie Paton) نے اس پانی کو زراعت کے لیے قابل استعمال بناتے ہوئے سمندر کی نمی والی ہوا کو اس کے قریبی صحراؤں تک پہنچانے کے کامیاب تجربات کئے۔اب عمان، ابوظہبی، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں بھی ساحلی علاقوں کے ساتھ گرین ہائوسز قائم کیے گئے ہیں، جہاں بخارات بنانے والے پمپ نصب کئے گئے تاکہ نمی والی فضا پیدا کردی جائے جو کہ فصلوں اور مختلف فصلوں کی افزائش کے لئے ساز گار ماحول مہیا کرے گی۔بعض پودوں میں ان کے مخصوص جینیاتی میکنزم کی وجہ سے نمکین پانی کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے اس لئے انہیں سخت نمکین اور کھارے پانی میں بھی اگایا جاسکتا ہے ۔ نمک کو برداشت کرنے والے جین کی شناخت اور اس کو گندم ، مکئی یا چاول کی فصل میں داخل کرکے ہم نمک برداشت کرنے والی فصلیں تیار کرسکتے ہیں اور سمندر کے پانی یا شورہ زدہ علاقوں میں بھی غذائی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں تاکہ میٹھے پانی کے زراعت میں استعمال کو کم سے کم کیا جاسکے۔ ہمارے ہاں سے آج بھی انگریز کے وقت کا تشکیل کردہ نظام آبپاشی اپنی خستہ حالی میں چل رہا ہے۔بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں اور مستقبل کی آبی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہم نے تاحال کوئی خاص اقدامات نہیں کئے۔آبپاشی کے اس فرسودہ نظام کی تشکیل نو کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر لانا وقت کی اولین ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پالیسی ساز ایسا میکانزم تیار کریں جو آبپاشی کے سیکٹر کو مؤثر بنائے اور ابھرتی ہوئی بہتر ٹیکنالوجیز کی تشہیر کریں تاکہ وہ کھیتوں تک قابل رسائی ہوں۔

پانی کی بچت اور تحفظ آب کے لیے کام کر نے والے سرکاری و غیر سرکاری اداروں پر یہ ذ مہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کاشتکاروں کی مالی اور تکنیکی مدد کے لیے اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں۔کسان کو بھی یہ آگاہی دینا ضروری ہے کہ اگر ہم اپنے فرسودہ اور پرانے آبپاشی کے طریقوں کو نہیں بدلیں گے اور پانی کی بچت پر مبنی آبپاشی سکیموں پر اپنے زرعی بندوبست کو منتقل نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ ہماری آنیوالی نسلیں پانی کی بوند بوند کو ترسیں۔کسانوں کو شعور دیا جائے کھلی آبپاشی (Flat) کے بجائے گہری نالیاں (Furrow) بنا کرپانی استعمال کریں۔ آبپاشی کے لیے روایتی طریقہ کار کو ترک کر کے سپرنکلر اور ڈرپ جیسے مستعد اور کفایت شعار آبپاشی نظام اختیار کرنے پر زور دیا جائے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں پانی کی مقدار کم ہو وہاں صرف کم پانی والی اور جلد تیار ہونے والی فصلیں کاشت کی جائیں۔ اگر پانی کم دستیاب ہو تو فصل کو صرف اس وقت پانی دیا جائے جب اس کی اشد ضرورت ہو۔زیادہ پانی کی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین مرتب کیے جائیں۔کھالوں کی وقتاً فو قتاً صفائی کی جائے اور پانی کو ضائع اور جذب ہونے سے بچانے کے لیے کھالوں کو پختہ بھی کیا جائے ۔زمین کو ہرچار سال بعد بذریعہ لیزر لینڈ لیولر ہموار کیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق لیزر لینڈ لیولر سے ہموار کی گئی زمین 50فیصد تک پانی کی بچت ہوتی ہے۔ہمیں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشتکاری، گرے واٹر کی ری سائیکلنگ، پانی کے ذخائر و انفراسٹرکچر میں اضافہ،پانی کی قیمتوں کا تعین و کاروباری ماڈلز اور پانی کی آلودگی میں کمی کے اقدامات کو فروغ ملے۔ہر صوبے کو آبپاشی کے جدید طریقوں کو فروغ دینے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ زراعت کے فرو غ کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں کے لیے پانی کی بھی بچت کی جائے۔اس مقصد کے لیے کسانوں کو چاہیے کہ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے حکومتکی طرف سے دی جانے والی مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدید زرعی تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کریں۔