ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کی واحد ریاست ہے جس کی سرکاری زبان اُردو ہے لیکن یہ زبان اس ریاست میں جتنی ذلیل و خوار ہے اتنی کہیں اور نہیں ہے ۔ رفتہ رفتہ یہ زبان ہر شعبے اور ہر ادارے سے باہر دھکیلی جارہی ہے ۔حکومت اس ریاست سے اس زبان کا قلع قمع کرنے کے لئے وہ سب کچھ کرچکی ہے اورکررہی ہے جو وہ کرسکتی ہے اور اس کی جگہ عملی طور پر انگریزی زبان سرکاری زبان کی حیثیت حاصل کرچکی ہے ۔کوئی اُردو زبان میں درخواست لکھ کر کسی محکمے میں نہیں جاسکتا ۔ کوئی اگر جائے تو اس کا مذاق اڑایا جائے گا اوراسے دھکے دیکر باہر نکالا جائے گا ۔ریونیو کا ریکارڈ جو پورے کا پورا اردومیں مرتب کیا گیا تھا اب انگریزی میں مرتب ہورہا ہے ۔ عدالتوں میں عرائض نویس اُردو میں عرضیاں لکھا کرتے تھے ،اب ان کی جگہ کمپیوٹر آپریٹر لے رہے ہیں جو انگریزی میں عرضیاں لکھا کرتے ہیں ۔پٹواری کے لئے بھی اب اُردو کا ماہر ہونا ضروری نہیں رہا ۔ کسی سرکاری دفتر میں اُردو کا کوئی اخبار نہیں پڑھا جاتا ہے ۔پوری بیروکریسی میں ایک آدھ ہی ایسے ہوں گے جو اُردو سے واقف ہوں ۔سرکاری سکول انگلش میڈیم ہوگئے ہیں اس لئے تعلیمی اداروں سے بھی اُردو کاجنازہ نکل رہا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب عوام کی اکثریت اُردو ہی جانتی اور سمجھتی ہے ۔اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ انگریزی پڑھتے ہیں لیکن ہمارے دیہات میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو میٹرک سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں ۔ یہ انگریزی نہیں پڑھ سکتے نہ بول سکتے ہیں ۔ ان کے اظہار کی زبان اُردو ہے اسی لئے عوامی سطح پر زیادہ تر اُردو اخبارات پڑھے جاتے ہیں ۔ سرینگر میں بھی اردو اخبارات زیادہ تعداد میں پڑھے جاتے ہیں چنانچہ سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کے خاتمے سے عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کی کڑی ہی ختم ہوگئی ہے ۔یہ بنیادی وجہ ہے اس دوری کی جو عوام اور حکومت کے درمیان کئی دہائیاں پہلے پیدا ہونا شروع ہوئی اوراب ایک ایسی خلیج پیداہو چکی ہے جس نے حکومت اور عوام کو دو الگ الگ سرحدوں پر کھڑا کردیا ہے ۔
عام گھروں میں کسی قومی نیوز چینل کودیکھنے کے بجائے پاکستان کے چینل دیکھے جاتے ہیں کیونکہ ان چینلوں کی زبان وہی ہے جو کشمیر کے لوگوں کی زبان ہے ۔ای ٹی وی چینل بھی کشمیر میں مقبول چینل ہے کیونکہ اس کی زبان اردو ہے ۔لیکن حکومت نے یہ تہیہ کررکھا ہے کہ اردو کو سرکاری اداروں سے ختم کردیا جائے ۔اس کے پیچھے سرکار کے کیا مقاصد ہیںیہ سمجھنا مشکل ہے تاہم اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اُردو ریاست جموں و کشمیر میں رابطے کی ایک ایسی زبان تھی جس نے بے شمار مقامی زبانوں ، نسلوں ، گروہوں ، خطوں ، مذہبی اور لسانی اکائیوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا تھا ۔پہاڑی نہ کشمیری کیلئے اجنبی رہا تھا اورنہ گوجر کے لئے۔ ڈوگرہ اسی زبان میں کشمیری سے دوستی کرتا تھا ۔اب ایک نئی صورتحال جنم لے رہی ہے ۔ جموں میں اُردو کی جگہ ہندی عوامی رابطے کی زبان کے طور پر عروج پارہی ہے اور کشمیر میں اُردو ہی عوامی رابطے کی زبان ہے چنانچہ جموں اور کشمیر کے درمیان بھی زبان کی دیوار کھڑی ہورہی ہے حالانکہ ہندی اوراُردو بول چال میں مختلف زبانیں نہیں لیکن جموں میں ہر سائن بورڈ اب ہندی میںہے اس لئے اُردو جاننے والے وہاں اجنبیت محسوس کرتے ہیں ۔ی
ہ اجنبیت آگے چل کر کئی بڑے مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔لداخ سے بھی اُردو کو دیس نکالا دے دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ریاست کے ان دو صوبوں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہوچکی ہے جس کے سیاسی اثرات دھیرے دھیرے سامنے آتے جارہے ہیں ۔کشمیر میں سرکاری محکموں کے سائن بورڈ تو پہلے ہی تبدیل کئے جاچکے ہیں ۔ اب ہر سائن بورڈ انگریزی میں ہے لیکن حیرت انگیز طور پر دکانوں کے اُردو سائن بھی غائب ہورہی ہے ۔یہ بھی سرکار کی طرف سے اُردو کے ساتھ غیر پسندیدہ زبان کے سلوک کی وجہ سے ہی ہورہا ہے ۔اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اُردو کی سرکاری زبان کی حیثیت سے ایک منصوبہ بند سوچ کے تحت ختم کی جارہی ہے تو اس کی معقول وجہ یہ نظر آرہی ہے کہ اسے علیحدگی پسندی کے فروغ کا اصل باعث سمجھا جارہا ہے ۔سرکاری حلقوں میں پہلے ہی یہ رائے موجود تھی کہ علیحدگی پسندی کا لٹریچر اسی زبان میں موجود ہے ۔ سرحد پار سے بھی اسی زبان میں لٹریچر فراہم ہورہا ہے اور مذہبی جماعتیں بھی اسی زبان میں انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ دے رہی ہیں ۔اسی زبان میں مولوی صاحبان بھی جمعہ کے روز عوام سے خطاب کرتے ہیں اور حکومت کا مؤقف ہے کہ بعض مقرریں نوجوانوں کو ’’بغاوت ‘‘ پر اُبھارتے ہیں ۔اس دلیل کو اگر سچ مان لیا جائے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ عوام کے اجتماعی ضمیرتک رسائی کی یہی ایک زبان ہے ۔عوام پر اثر انداز ہونے اور عوام کی سوچ تبدیل کرنے کی یہی زبان ہے پھر یہ کتنی بھیانک غلطی ہے کہ عوام کو اس سوچ سے الگ کرنے کی کوشش میں اسی سوچ کے حوالے کیا جارہا ہے ۔اُردو اب کشمیر میں کشمیری کی جگہ عام بول چال کی زبان کی جگہ لے چکی ہے یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ مادری زبان کی جگہ یہی زبان لے چکی ہے اس لئے اس کا خاتمہ ممکن نہیں ۔
یہ زبان عوام کی زبان رہے گی اور حکومت اپنے نظام میں اس زبان کا خاتمہ کرکے عوام کے ساتھ حکومت کا رابطہ منقطع کرکے اس صورتحال کواور زیادہ مستحکم بنادے گی جو اس وقت موجود ہے ۔اس نقطہ نظر کو اس طرح زیادہ بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی جب بھی عوام سے خطاب کرتی ہیں یا عام لوگوں کے ساتھ بات کرتی ہیں تو کشمیری یا اُردو میں ہی کرتی ہیں اس لئے عوام ان کو سنتے ہیں اور ہر اختلاف کے باوجود بھی وہ انہیں غیر نہیں لگتی ۔پہلے پہلے عمر عبداللہ کا نہ اردو لہجہ عوام کی زبان سے میل کھاتا تھا نہ کشمیری، لیکن اب وہ بھی ٹھیک ٹھاک اُردو بول لیتے ہیں تاہم ان کے مقابلے میں ان کے والد جو ٹھیٹ کشمیری اور بہتر اردو میں بات کرتے ہیں، عوام کے زیادہ قریب ہیں۔عوام دلچسپی کے ساتھ انہیں سنتے ہیں ۔
گیلانی صاحب کی بات بھی عوا م کے دلوں میں اُترجاتی ہے اور میر واعظ کی بھی ۔ محمد یاسین ملک کی بھی اور پروفیسر غنی کی بھی ۔زبان کی ہر معاملے میں غیر معمولی اہمیت ہوتی ہے ۔موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے ٹھیٹ عوامی زبان کو اظہا ر کا ذریعہ بناکر ہی خود کو ہندوستانی عوام کے دلوں میں بسا لیا ۔وزیر اعلیٰ ٰزبان کے ذریعہ عوام سے رابطہ پیدا کرسکتی ہیں لیکن حکومت رابطے کی یہ کڑی ختم کرکے عوام کیلئے اجنبی ہی نہیں بن رہی ہے بلکہ ایک متحارب قوت بن رہی ہے ۔یہ بات اپنی جگہ ایک حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ اُردو کے چند ایک مصنفین نے نوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی کے جذبات اس قدر اُبھارے کہ جس نے مثبت سوچوں کو ختم کرکے ان کی جگہ ایک منفی جذبہ اور رویہ پیدا کیا۔نسیم حجازی کے ناول جنگجویانہ رحجان پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں ۔ علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر کو بھی اس رنگ میں پیش کیا گیا جو ان کے فلسفے سے کوئی میل نہیں کھاتا لیکن یہ اُردو کا قصور نہیں ۔ اُردو میں سعادت حسن منٹو کا وہ انقلاب انگیز لٹریچر بھی ہے جو آج یورپ میں مقبول ہے ۔اس میں قرۃ العین حیدر بھی ہے، فیض بھی ہے لیکن بدقسمتی سے آج بھی بازار میں اُردو کی کوئی کتاب تلاش کی جائے تو ’’ مرنے کے بعد کیا ہوگا ‘‘ قبر کا عذاب ‘‘ اور اس جیسی کتابیں ہی نظر آئیں گی، اصل لٹریچر غائب ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ زبان سرکاری سرپرستی سے محروم ہوچکی ہے ۔ریاست جموں و کشمیر کی حکومت نے اُردو کی سرکاری زبان کی حیثیت ختم کردی اور اس کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کی حیثیت دے کر اُردو لٹریچر کے ترقی پسند پہلو کو دفن کرنے کا کام کیا ۔اُردو دانشوروں کے علم کے خزانے ان ہی کے سینوں میں دفن ہوکر رہ گئے ۔ ان کے لئے اظہار کا کوئی وسیلہ اور ذریعہ باقی نہیں رہا ۔ان کی ذلت آمیز حد تک حوصلہ شکنی کی گئی اور بہت عرصے سے اُردوکے بیشتر اخبارات کو بھی بند کرنے کی بھرپور کوششیں منصوبہ بندی کے ساتھ کی جارہی ہیں ۔گھٹیا اور غیر معیاری اُردو اخبارات کو فروغ دیا جارہا ہے اور معیاری اخبارات کا قافیہ تنگ کیا جارہا ہے ۔اس طرح سے وہ ساری کھڑکیاں بند کی جارہی ہیں جن سے زباندانی کی تازہ ہواؤں کا گزر ممکن تھا ۔عوام کے لئے ایک گھٹن کا ماحول تیار کرکے نئی دلی سے سرینگر تک شور مچایا جارہا ہے کہ عوام کو یہ کیا ہوگیا ہے ۔ یہ دیوانگی کیسی ہے اور کیوں ہے ۔عوام کی اکثر یت کی زبان اگر اُردو ہے تو اس زبان کے لئے روزگار کے وسیلے معدوم کیوں ہیں ؟اُردو جاننے والا اب کسی دکان میں منشی کا کام بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وہاں بھی انگریزی ہی درکار ہے ۔ہندوستان کی ہر ریاست کے عوام کو یہ سہولت حاصل ہے کہ عوامی زبان میں روزگار کے وسائل بھی ہیں ۔ نئے خیالات بھی اس زبان سے عوام تک پہنچتے ہیں ۔ لٹریچر بھی دستیاب ہے اور دانشورو ں کے لئے وسائل بھی موجود ہیں ۔جموں و کشمیر پر سرکاری زبان کی حیثیت سے ایک اجنبی زبان ٹھونسی گئی ہے ۔ انگریزی علمی زبان ضرورہے لیکن عوامی زبان نہیں اور اگر حکومت کو عوام تک پہنچناہے تو عوام کی زبان ہی حکومت کی زبان ہونی چاہئے ۔
…………………..
ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر