ریٹلے پاور پروجیکٹ کو دریائے چناب پہ کشتواڑ میں دراب شالہ کے مقام پہ بنانے کی تجویز آج سے کئی سال پہلے منظر عام پہ آئی ۔اِس پروجیکٹ کو 2017 ء تک پایہ تکمیل تک پہنچانا قرار پایا تھا،البتہ شومئی قسمت سال 2019ء شروع ہو چکا ہے لیکن ابھی تک حتمی طور پر یہ فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا کہ اس پروجیکٹ کی تعمیر و تکمیل کے لئے کس ایجنسی کو بروئے کار لایا جائے گا۔ حالیہ دنوں ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ یہ پروجیکٹ بھی نیشنل ہیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن (NHPC)کی نذر کیا جائے گا تاکہ ادارہ ریاستی وسائل کے اُس استحصال کا سلسلہ جاری وساری رکھے جس کی یہ کاپوریشن آج تک مرتکب ہوتی رہی ہے۔ NHPCکی استحصالی کیفیت کو دیکھتے ہوئے ریاستی سرکار نے بین الریاستی ٹینڈر طلب کئے تاکہ مناسب شرائط پر اِس پروجیکٹ پہ کام ہو سکے۔قرعہ فال حیدر آباد کی ایک کمپنی M/s GVK کے نام نکل آیا اور یہ کام بوٹ( BOOT) کی شرط پر دیا گیا۔ BOOTکامطلب ہے(built, own, operate, transfer) یعنی بناؤ، ملکیت اپنے نام کر لو،پروجیکٹ کو مقرر کئے ہوئے وقت تک چلاؤ اور اُس کے بعد ملکیت کو ٹرانسفر یعنی بحق جموں و کشمیر سرکار منتقل کرلو۔
حیدر آباد کی کمپنیM/s GVK کے ساتھ یہ شرائط 2010 ء میں طے ہوئیں اور 35 سال تک کو پروجیکٹ کی ملکیت کا حق دیا گیا اور مدت معینہ کی تکمیل کے بعد ملکیت کی ٹرانسفر منتقل کرنا قرار پایا۔35سال کے عرصے تک ریاست جموں و کشمیر کی سٹیٹ پاور ڈیو لپمنٹ کارپوریشن(SPDC)کو رائلٹی میں پاور جنریشن کا15 فیصد ملنا قرار پایا اور 55 فیصد پاور جنریشن کی خرید پہ 1.44روپے فی یونٹ کے حساب سے پہلا حق ریاستی کارپوریشن (SPDC)کا ہونا طے پایا۔M/s GVK کے ساتھ طے شدہ شرائط پہ کئی سوالات اٹھ سکتے ہیں جس میں ظاہراََ پہلا یہی ہوگا کہ رائلٹی صرف و صرف 15 فیصد کیوں مقرر ہوئی جب کہ جس پانی سے بجلی کی تولید ہو رہی ہے وہ ریاست کی ملکیت ہے ۔ مزید یہ کہ حق ملکیت 35سال کے طویل عرصے تک کیوں M/s GVK کو منتقل ہوئی اور 55 فیصد پاور جنریشن کی خرید پر ریاست کا حق مانتے ہوئے 1.44روپے کے حساب سے فی یونٹ کی خرید کہیں گراں بار تو نہیں تھی؟ دیکھا جائے تو اِن سوالات میں وہ درد چھپا ہے جس میں ریاستی پاور سیکٹر ڈوبا ہوا نظر آتاہے۔ریٹلے پاور پروجیکٹ کے بھر پور تجزیے سے پہلے ریاست کے پاور سیکٹر کی من جملہ مشکلات کو سمجھنا ہو گا تاکہ اِس پروجیکٹ کے علاوہ دوسرے پن بجلی منصوبوں سے متعلق امور ات سے واقفیت حاصل ہو سکے۔
پاور سیکٹر میں ریاست گوناگوں مشکلات سے دو چار ہے، اِس حقیقت کے باوجود کہ ریاست میں پانی کی فراوانی ہے۔سندھ طاس معاہدے کے مطابق پانی کی ذخیرہ اندوزی سندھ طاس کے مغربی دریاؤں کیلئے ممنوع قرار دی گئی ہے۔مغربی دریا جہلم،چناب اور سندھ ریاست جموں و کشمیر میں بہتے ہیں اور یہاں صرف و صرف پانی کے بہاؤ ((run of the river)پہ ڈیم بنائے جا سکتے ہیں ۔پانی کی ذخیرہ اندوزی کی ممانعیت کے سبب سرمائی مہینوں میں جب کہ پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے بجلی کی جنریشن متاثر ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی مشکل ہے جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا چونکہ بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری میں پاکستان کا یہ حق بنتاہے کہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم اُن ممالک کے مابین جہاں سے یہ بہتے ہیں عادلانہ ہو۔پاکستان کے تحفظات کو ایڈرس کرنے کی ایک اور صورت یہ ہو سکتی تھی کہ مغربی دریاؤں کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بہتے ہوئے سندھ طاس کے مشرقی دریاؤں سے بھی پاکستان کو پانی فراہم کیا جائے تاکہ جموں و کشمیر میں بہتے ہوئے مغربی دریاؤں پہ مناسب حد تک پانی کی ذخیرہ اندوزی کو ممکن بنائے جا سکے جس سے سرمائی مہینوں میں بروئے کار لا کے بجلی کی جنریشن میں اضافہ ہو سکے۔مشکل یہ ہے کہ مشرقی دریاؤں کا پانی بحق ہندوستان محفوظ ہو چکا ہے جبکہ مغربی دریاؤں پہ پاکستان کا حق مانا گیا ہے لہذا پانی کو ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا۔ سند طاس معاہدے کو ہند و پاک رشتے کے تناظر میں ایک ایسا معاہدہ مانا گیا ہے جس پہ جنگ کی صورت میں بھی حرف نہیں آیا۔ اِس معاہدے کو جس حسن نظر سے جانچا جاتا ہے اُس میں فریقین اُس پہ نظر ثانی کیلئے آمادہ ہوجائیں یہ نا ممکن نظر آتا ہے۔ریاست جموں و کشمیر کی سرکار نے کئی بار نقصان کی تلافی کرنے کی مانگ کی لیکن اِس کی ان سنی ہوئی۔ایک اندازے کے مطابق ریاست کو سالانہ کم و بیش 6000کروڑ کا نقصان ہوتا ہے البتہ اِس پہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں بتاریخ 19ستمبر ہند و پاک کے درمیاں طے پایا جبکہ پانی کا مصرف بیشتر آبپاشی کے لئے ہوتا ہے ۔پانی سے پاور جنریشن کا تصور اِس حد تک نمایاں نہیں تھا جتنا کہ آج ہے۔ صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ جب انرجی کی ضرورت میں روز افزوں اضافہ ہوا تو پانی کو پاور جنریشن کا ایک ذریعہ مان کے اُس کی طلب بڑھنے لگی۔ 1970ء میں ریاست میں بجلی کی طلب بڑھنے لگی حالانکہ مانا جاتا ہے کہ مہورہ پاور ہاوس بر صغیر کے اولین منصوبوں میں میں سے ایک ہے۔مہورہ،گاندربل اور کنگن کے چھوٹے پروجکٹ جب ریاست میں بجلی کے حصول کیلئے کم پڑنے لگے تو بڑے منصوبوں کے بارے میں سوچا جانے لگا لیکن مشکل جو اب در پیش ہے تب بھی تھی۔ریاستی خزانے میں وہ رقم دستیاب نہیں تھی جس سے بڑے پاور پروجکٹوں کو عملی بنایا جا سکے۔پانی سے بجلی کی جنریشن میں وسیع سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔عصر حاضر میں ہر میگاواٹ جنریشن پہ تقریباََ دس کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔ریاست بین الاقوامی مالی اداروں سے مقررہ شرائط پہ مطلوبہ رقم حاصل کر سکتی تھی لیکن کہا جاتا ہے اِس میں گارنٹی کی ضرورت تھی اور سرکار ہند یہ گارنٹی دینے میں لیت ولیل کر رہی تھی۔
سرکار ہند سرمایہ کاری کے لئے ایک متبادل سکیم لے کے سامنے آئی۔اِس سکیم کے تحت سرکار ہند مطلوبہ پاور پروجکٹ پہ سرمایہ لگانے پہ آمادہ ہوئی اور بجلی کی تولید کیلئے ریاست کے آبی و سائل کو مصرف میں لانے کے عوض قرار یہ پایا کہ منجملہ تولید کا 50فیصد بطو ر رائلٹی ریاست کو میسر رہے گا باقیماندہ 50فیصد میں ریاست کو نصف کی خرید کا حق رہے گا یہ بھی قرار پایا کہ مدت معینہ کے بعد ملکیت کے حقوق بحق ریاستی سرکار منتقل ہونگے۔اِس قول و قرار کو ریاست کیلئے مفید مانا جا سکتا ہے لیکن عملاََ ہوا یہ کہ یہ دفتر گاؤ کھا گئی یعنی جس فائل میں یہ قول و قرار منعکس ہوا تھا وہ سیکرٹریٹ سے غائب ہو گی۔کئی دَہائیاں گذرنے کے بعد بھی آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ فائل کہاں گئی کہاں نہ ہی کسی ریاستی سرکار کو یہ توفیق ہوئی کہ سرکاری ایجنسیوں کو اِس کی تحقیق پہ لگا دیں ۔ آج سے کئی سال پہلے ریاست کے اریگیشن منسٹر تاج محی الدین نے ایس پی کالج کے ایک سیمنار میں یہ انکشاف کیا کہ اصل فائل تو تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی البتہ ایک اور فائل میں اِس قول و قرار کی شہادتی دستاویز ملی لیکن تب تک پانی سر سے گذر چکا تھا۔ ایک متبادل سکیم میں 50فیصد رائلٹی کے بجائے صرف و صرف 12فیصد رائلٹی مقرر کی گئی اور باقیماندہ تولید کے مصرف کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اُس کی تقسیم سرکار ہند کے طے شدہ مقررات کے حساب سے ہوگی۔ ریاست کے پن بجلی منصوبوں پہ کام کرنے کیلئے NHPC کو مقرر کیا گیا جو کہ سرکار ہند کے تابع ایک کمپنی ہے۔اِس کمپنی کا بنیادی کام آبی ذخائر سے بجلی کی تولید ہے البتہ بھارتی ریاستوں پہ ایسی کوئی ایسی آئینی یا قانونی بندش نہیں ہے کہ وہ NHPC سے ہی اپنے آبی ذخائر سے بجلی کی تولید کروائیں ۔یہ ریاستوں کے اختیار میں ہے کہ وہ یہ کام ریاستی کمپنیوں سے کروا لیں یا ایک کھلے ٹینڈر میں مناسب شرائط پہ کسی ایسی کمپنی سے کروالیں جسے متعلقہ امور میں مہار ت ہو۔
NHPC کا آغاز 1975ء میں 200ملیون روپے کی سرمایہ کاری سے ہوا۔اِس کمپنی نے اتنا منافع کمایا کہ اُس کا شمار منیِ رتنا کمپنیوں میں ہونے لگا۔منیِ رتنا کی ریٹنگ منافع کی شرح میں خاطر خواہ پیسہ کمانے سے حاصل ہوتی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اِس کمپنی کے بیشتر اثاثے جموں و کشمیر کے آبی وسائل کی مرہون منت ہیں۔ جہاں بھارت کی باقی ریاستیں اپنا مفاد دیکھ کے اپنے آبی وسائل کو بجلی کی تولید کیلئے مصرف میں لاتی ہیں وہی ریاست جموں و کشمیر نے ٹھیکہ لے کے رکھا ہے کہ اپنے خزانے خالی کر کے NHPC کے خزانے بھر لیں۔اپنے آبی وسائل سے بجلی کی تولید کی رائلٹی صرف 12فیصد حاصل کرنے کے بعد ریاستی سرکار کواضافی احتیاج پورا کرنے کیلئے سالانہ 4000کروڑ کی بجلی خریدنی پڑتی ہے جبکہ ریاستی آبی وسائل سے منجملہ 3600 میگاواٹ کا حصول ہوتا ہے جس میں سے 2339میگاواٹ NHPC کے ذریعے سنٹرل سیکٹر میں اور ریاستی سیکٹر میں اِس کا کم و بیش نصف 1261میگاواٹ ہے ۔اِس 1261میگاواٹ میں 361 میگاواٹ چھوٹے پاور پروجکٹوں سے حاصل ہوتے جبکہ 900میگاواٹ بگھلہیارپاور پروجکٹ کی مجوزہ تولید ہے جو در حال حاضر پوری طرح آپریشنل نہیں ہے۔ پاور سیکٹر میں حائل مشکلات میں یہ بھی نظر میں رکھنا پڑے گا کہNHPC نے ایگریمنٹ کے باوجود پاور اُن پروجکٹوں کو کسر قیمت پہ واپس نہیں کیا ہے جن کی واپسی لازم تھا حالانکہ رنگا راجن کمیشن نے بھی واپسی کی تلقین کی تھی۔سابقہ سنٹرل پاور منسٹر پیوش گوئل نے اپنے ایک بیاں میں یہ کہا تھا کہ واپسی میں قانونی اور مالی مشکلات حائل ہیں حالانکہ اِن کی تشریح نہیں کی گئی۔ اِس بیاں کے بعد معاملہ جوں کا توں پڑا تھا باوجود اینکہ بھاجپا اور پی ڈی پی کے ایجنڈا آف الائنس میں پروجکٹوں کی واپسی کی شرط رکھی گئی تھی۔
NHPC کے منفی رویے کو دیکھ کے جب ریٹلے پاور پروجکٹ پہ M/s GVK کے ساتھ معاملہ طے ہوا تو ریاستی حلقوں نے اطمینان کی سانس لی۔ M/s GVKنے 2010ء میں ایگریمنٹ پہ امضا ہونے کے بعد کام شروع کیا۔اِس پروجکٹ پہ کل خرچ کاتخمینہ 2010ء میں 6000کروڑ لگایا گیا ۔کم و بیش چہارسال کام کرنے کے بعد M/s GVK نے جولائی 2014 میں ریاستی سرکار کو کام بند کرنے کا نوٹس دیاجبکہ ایگریمنٹ کے مطابق2017ء میں حیدر آباد کی اِس کمپنی کو کام مکمل کرنا تھا۔ GVK نے نا مساعد حالات کو کام بند کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کئی اور مشکلات کا ذکر بھی کیا۔بہر صورت جو بھی وجہ رہی ہو ریاستی سرکار کو فوری ایک متبادل طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا لیکن تین سال تک ریاستی سرکار لیت و لیت سے کام لیتی رہی اِس جامع حقیقت کے باوجود کہ ہر گذرتے سال کے ساتھ پروجکٹ کیلئے جو سرمایہ در کار ہے اُس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔انجام کار سٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے2 فروری 2017 ء کے روز M/s GVK کو کام بند کرنے کا اختتامی آرڑربرقم No. 23-PDD صادر کیا۔ اِس کے بعد ریاستی سرکار نے بجٹ سیشن میں اکنامک سروے (اقتصادی جانچ) کی رپورٹ پیش کی ۔ اِس رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ ریاستی پاور ڈیولپمنٹ کارپوریش (PDC ) بحثیت کار گذار ایجنسی (implementation agency ) پروجکٹ کی تکمیل کیلئے متبادل طریقہ کار اپنائے۔اِس سے یہی عندیہ ملا کہ شاید ریاستی سرکار کا منشا یہی ہے کہ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریش (PDC ) یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لے۔
جون 2018ء میں گورنر راج لاگو ہونے کے بعد صورت حال بدل گئی۔ 5ستمبر 2018ء کے روز سٹیٹ ایڈمنسٹر یٹیو کونسل(SAC)نے یہ فیصلہ کیا کہ بھارت سرکار کے پبلک سیکٹر یونٹ (PSU)کے ساتھ ایک اشترکی کمپنی کی تشکیل کی جائے جو پروجکٹ کی تکمیل کا کام ہاتھ میں لے لے۔ ریاستی انتظامیہ نے مرکزی پاور منسٹری کو مختلف تجاویز پیش کیں جن میں ریاست اور مرکز کے مابین شراکت داری کے پانچ ماڈل رکھے گئے جن میں ریاستی رائلٹی کی شرح 15 فیصد سے 25 فیصد تک تجویز ہوئی۔یہ بھی کہا گیا کہ تکمیل کے سات سال کے بعد پروجکٹ کو ریاستی سرکار کی تحویل میں دیا جائے گا۔یہ تجاویز ابھی زیر غور ہی تھیں کہ حالیہ دنوں میں خبر آئی کہ ایک اشراکی کمپنی کو تشکیل دیا جائے گا جس میں NHPC کا حصہ 51فیصد اور ریاستی پاور ڈیولپمنٹ کارپوریش (PDC ) کا حصہ 49 فیصد رہے گا ۔ اضا فہ بر ایں زخموں پہ نمک چھڑکنے کیلئے یہ بھی خبر ہے کہ پروجکٹ کی ملکیت 25 سال کے بعد ریاست کو ٹرانسفر ہو گی۔ ظاہر ہے بیشتر حصہ دار ہونے کے سببNHPC کا فیصلہ مقدم رہے گا۔پس پردہ وہی ہو رہا ہے جو آج تک ہوتا آیا ہے یعنی ریاستی وسائل ریاست کی دسترس میں نہیں رہیں گے۔جو چال بے ڈھنگی سی کل تھی وہ آج بھی ہے۔اللہ نگہباں!
Feedback on: [email protected]