حال و احوال
عبدالقادرکُنڈریا
دریا ئےچناب کو عرصۂ دراز سے جموں کے لوگوں کے لیے ایک نعمت سمجھا جا رہا ہے۔ یہ عارضی کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، پیاس بجھاتا ہے اور اس خطے کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ ہے۔لیکن اب یہی دریائے چناب ضلع ریاسی کے مختلف علاقوں،جن میں پنچایتِ بھبر، برہمناں رسیالاں، چُمبیاں اور ڈیرہ بابا بندہ شامل ہیں، کے لوگوں کی زندگی کے لئے تباہی ، موت اوربُربادی کا استعارہ بن گیا ہے۔یہی دریا،جو کبھی اِن لوگوں کی خوشحالی،ترقی اور روز گار کا اہم ذریعہ تھا، اب گھروں،عارضی کھیتوں اور یہاں کہ یہاں کے تہذیب و تمدن کی پہچان تک نگل رہا ہے۔
ہر برسات میں جب بادل گرجتے ہیں اورزور دار بارشیں ہوتی ہیں تومتذکرہ بالا گاؤں میں رہائش پذیر لوگوں پر خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے،زندگی کے لالے پڑجاتے ہیں۔ لوگوں کی راتیں جاگ جاگ کر گزرتی ہیں،چھوٹے بچے مائوںکی گود میں سہم کر رہ جاتے ہیں۔مرد حضرات اور نوجوان نسل اپنے مال و مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی کوششوں میں لگ جاتےہیں اور بوڑھے بزرگ اپنے ربّ کے حضُور دعاؤں میں مشغُول ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس دریا کا ٹھنڈاپانی جب بپھرکر آجاتا ہےتو وہ ہر بار اپنے ساتھ نہ صرف مٹی اوربہت کچھ لے کر چلا جاتا ہے،بلکہ یہاں کے رہائش پزیر لوگوں کےخواب، امیدیں اور نسلوں کا سکون تک بہا لے جاتا ہےاور انہیں مسائب و مشکلات اور المیات سے دوچار کرکے رکھ دیتا ہے۔جبکہ یہ صورت حال یہاں کے رہائشیوںکو پچھلے35برسوں سے درپیش ہے اور حکومت خاموش تماشائی بن بیٹھی ہے۔ سال 1989 میں پہلی بار یہاں کے لوگوں نے پولیس و انتظامیہ کو پکارا، 1992 میں دہائی دی، پھر 2014 کے تباہ کن سیلاب کے بعد پھرایک بار آواز بلند کی گئی۔چنانچہ جب شاہد اقبال چودھری صاحب ضلع ریاسی کے ڈپٹی کمشنر تھے،اُ س دور میں یہاں کیلئے 52 کروڑ کا ڈی پی آر پروجیکٹ بھی ریاستی سرکار کو بیجھا گیا تھا،لیکن زمینی سطح پر آج تک یہاں کے عوام کے لئے لال جھنڈی ہی کھڑی رہی،جبکہ آج یعنی 2025 میں وہی پُکار پھر سنائی دے رہی ہےکہ’’بھبر گجیا کائی دیوتا سے چُمبیاں تک حفاظتی دیوار بنائی جائے۔‘‘ مگر تین دہائیوں سے زائد عرصہ گُزر گیا، نہ دیوار بنی، نہ لوگوں کو کوئی تحفظ دیا گیا۔
اس طویل عرصے کی لمبی داستان میں وعدے بھی ہیں اور بے وفائیاں بھی۔ ایڈمنسٹریشن و سرکار کا ہر عہدے دار یہاں آیا،صورت حال کا جائزہ لیا ، متاثرہ زمینیں دیکھیں، لوگوں کی رودادیں سُنیں، یقین دہانیاں کرائیں۔ کاغذوں پر رپورٹیں بنیں، فائلوں میں سفارشات درج ہوئیں، لیکن عملی طور نہ کچھ ہوا اور نہ ہی کچھ بدلا۔ لوگ کی سوچ و اندازہ کہتے ہیں کہ یا تو وہ فائلیں و رپورٹیں سرکاری الماریوں میں چُھپ کے بیٹھی ہیں یا پھر اِن کو جان بوجھ کر چُھپایا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو اِن رپوٹوں کو عوام کی طرف سے بنوانے میں بھی برسوں لگے ہیں،جن سے آج تک کوئی کام نہیں ہوپایا ہے۔
دریائےچناب کی خوفناک لہروں اور بے رحم موجوں نے بہت سارے زرخیز عارضی کھیت کھا لئے ہیں۔ جہاں کبھی سنہری مکئی ،چاول، گیہوں اور سر سبز درختوں کے پتے لہلہاتے رہتےتھے، وہاں آج چناب دریا کا پانی بہہ رہا ہے۔ درجنوں کنال زمین چناب دریا میں شامل ہو چکی ہے۔ جوکسان ، کل تک اپنے عارضی کھیت کے اناج پر ناز کرتے تھے، آج روٹی روزی کا بندوبست کرنے کے لئےمزدوری کررہے ہیں۔ کچھ خاندانوں نے ان علاقوں نے ہجرت کر لی ہے، بیشتر جھونپڑوں یا رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ گُزین ہیں۔ جبکہ کئی لوگ اپنے مویشی خانوں میں ہی سر چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ اُن لوگوں کے لیے سخت اذِیت ناک ہے جنہوں نے ہمیشہ محنت و مشقت کے ذریعے خود کو اپنے پائوں پر کھڑا رہ کر جینا سیکھا تھا۔المیہ تو یہ ہے کہ سرکارکی جانب سے اُنہیں بر وقت مدد بھی نہیں پہنچتی۔ جب پانی گھروں کو بہا لے جاتا ہے تو ریلیف کے لئےکاغذی کاروائی ہوجاتی ہے، پھرپولیس تھانوں سے متعلقہ انتظامیہ تک رپورٹیں چلی جاتی ہیں،اور اس طرح ریلیف ملنے میں بہت تاخیر ہوجاتی ہے یا پھر مل ہی نہیں پاتی ہے اور جس کسی کو معاوضے کی رقم مل بھی جاتی ہے ،وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوتی ہے۔ الثر بحالی کے منصوبے فائلوں میں دفن ہوتے رہتے ہیں اور متاثرین خود کو لاوارث اور بے سہارا سمجھتے ہیںاور یہی سوال کرتے رہتے ہیں کہ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں یا ہمیں جان بوجھ کر بھلا دیا جاتا ہے؟
بظاہریہ مسئلہ صرف عارضی کھیت کھلیان اور رہائشی مکانوں کا نہیں ہے بلکہ یہاں کی روحانی اور تہذیبی زندگی بھی چناب دریاکی زد میںبرباد ہورہی ہے۔ صدیوں سے بھبر اور قریبی دیہات کے لوگ اپنے مرنے والےعزیزوںکی آخری رسومات دریائے چناب کے کنارے ادا کرتے آئے ہیں۔ مگر آج وہ مقامات بھی دریا چناب کی نابود کردیئے ہیں۔ حال ہی میں ایک بزرگ خاتون جس کا نام شریمتی بھدیا دیوی عرف چاچی جی تھا، کی موت پر یہ دُکھ سب کی آنکھوں میں آنسو ٹپتے ہوئے سامنے آیا۔ روایت کے مطابق اُن کی چتا کا آخری سنسکار چناب کے کنارے ہونا چاہیے تھا، مگر وہ جگہ اب موجود ہی نہیں۔ مجبوراً اُن کے آخری سنسکار کے لئے کسی دوسرے زمین دار کی عارضی جگہ پر یہ رسم ادا کی گئی۔ یہ صرف ایک خاندان کا معاملہ نہیں بلکہ پوری برادری کا مسئلہ ہے۔ لوگوں نے یہ سوال پھر اُبھرکے آتا ہےکہ اگر برسوں پہلے بھبر گجیّہ کائی دیوتا کے مقام پر دریا کے کنارے حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی ہوتیاوردریا کے کنارے کسی اونچی جگہ پر شمشان گھاٹ بنایا گیا ہوتا،تو آج عوام کو اس افسوسناک مرحلے سے نہیں گذرنا پڑتا۔ تعجب کا مقام ہے کہ اس سلسلے میں آج تک کئی دعوے کئے گئے ،فوٹو بھی کھنچوائے گئےمگر سرکاری انتظامیہ کے کسی بھی ادارے نے اپنے فنڈز سے اتنا سا کام تک نہیں کیا کہ ایک عدد شمشان گھاٹ ہی یہاں ہوتا،تاکہ یہاں کے لوگوں کو اپنے عزیزوں کو آرام سے آخری سنسکار کرلینے میں کوئی دشواری پیش نہ آتی۔اور ہاں!گجیّہ کائی دیوتا کھیربھڈ، زیارت ڈیرہ بابا گورودوارہ کی جگہیں محض ایک نشان نہیں بلکہ یہ گاؤں والوں کا مرکزِ زیارت دیو ستان ہے۔ یہاں دیہاتی اپنی فصلوں کی خوشحالی اور اپنے بچوں کی بھلائی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔اِس کے ساتھ نیچے کُچھ دوری پر کھیربھڈ زیارت شریف اور گورودوارہ ہے جو چناب دریا کے قریب ہیں،خدشہ یہی ہے کہ آنے والے وقت میں یہ بھی سیلاب کی زد میں آسکتے ہیں،جبکہ یہ جگہیں یہاں کے لیے عقیدت اور یکجہتی کی علامت ہیں، مگر اب یہ مقامات بھی خطرے میں ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ سوچنا نا قابلِ برداشت ہے کہ اگر کائی دیوتا کی عارضی جگہ سے لے کر ڈیرہ بابا تک کی جگہ کو بھی چناب نے نگل لیا تو اُن کی صدیوں پرانی ثقافتی شناخت بھی مٹ جائے گی۔حالیہ اگست 2025 کی بارشوں سےبھی یہاں مزید نقصان ہوا ہے۔ زمین بہہ گئی، مکانات منہدم ہو گئے، کئی گھرانے بے گھر ہو گئے، پولیس انتظامیہ کے ساتھ، پٹواری صاحبان نے موقع کا معائنہ کیا، تحصیلدار صاحبان بھی آئے، دیہاتیوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔ان سرکاری اداروں نے یہاں سے رپورٹیں بنا کرپھرریاسی کے انتظامیہ کو سونپ دی ہیں، جس میں ڈیرہ بابا سیری کے مقام پر عوام کے مکان زمین کے نیچے دب رہے ہیں،بھی زیر غور لائے گئے ہیں۔تاہم یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایک ہی سوال اُٹھ رہا ہے کہ کیا اِس بار بھی یہ سب کچھ ،رپورٹوں اور وعدوں تک محدود رہے گا؟انہیں یا د ہے کہ 1989 سے لے کر آج تک، ہر سیلاب کے بعد یہی سب کچھ ہوتا چلا آرہا ہے۔
دوسری جانب حال ہی میں 9 اکتوبر کو ضلع ترقیاتی کمشنر ریاسی محترمہ ندھی ملک ڈیرہ بابا بندہ تشریف لائیں، اُن کا دورہ حوصلہ افزا تھا کیونکہ اعلیٰ افسران شاذ و نادر ہی یہاں کی بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ لوگوں نے اپنی پریشانیاں بیان کیں، ٹوٹے ہوئے مکانات دکھائے۔ مگر اُن کے دلوں میں یہ خدشہ بھی چھپا ہوا تھا کہ کہیں یہ دورہ بھی محض سابقہ دوروں کی طرح محض ہمدردی تک محدود نہ رہ جائے۔
پینتیس( 35)سال کے صبر کے بعد اب ان دیہات کے لوگ مزید انتظار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہر سیلاب انہیں مایوس کر دیتا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ہماری زندگیاں کسی حساب کتاب کے قابل نہیں ہیں؟ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سارے عرصے میں ان لوگوں نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا۔ انہوں نے کبھی سڑکیں بند نہیں کیں، کبھی نعرے بازی نہیں کی۔ ہمیشہ امن و قانون کے دائرے میں رہ کر فریادیں کیں، جمہوریت پر اعتماد کیا۔ اِن کی شرافت اور ضبط لائقِ تحسین ہے مگر ان پر مزید ظلم روا رکھنا انصاف کے بالکل خلاف ہے۔آج ان کی مانگ بالکل واضح ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ فوری طور پر بھبر گجیّہ کائی دیوتا سے چُمبیاں تک ایک مضبوط حفاظتی دیوار تعمیر کی جائے،جو صرف اینٹ اور پتھر کا ڈھانچہ نہ ہو بلکہ ان کی عزت، ان کا مستقبل اور ان کی نسلوں کی محافظ ہو۔ وہ حکومت سے ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ انہیں یتیم نہ چھوڑو، انہیں بے گھر نہ ہونے دو،اور اُنہیںاپنیروایات اور عقیدت سے محروم نہ کرو۔
بے شک یہ محض انفراسٹرکچر کی اپیل نہیں بلکہ عزتِ نفس، ثقافت اور بقاء کی دلیل ہے۔ اگر حکومت نے اب قدم اٹھا لیا تو کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اگر پھر تاخیر کی گئی تو نقصان صرف زمینوں اور مکانوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ لوگوں کے حوصلے اور برادریوں کی جڑیں بھی ٹوٹ جائیں گی۔اہلِ بھبر، برہمناں، رسیالاں، چُمبیاں اور ڈیرہ بابا بندہ ادب کے ساتھ عاجزانہ التجا کرتے ہیں کہ حکومت اس باران کی داد رسی ہوکیونکہ 1989 سے اب تک وہ مسلسل صبرو تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ مزید پینتیس سال صبر نہیں کر سکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بغیر خوف کے اپنے گھروں میں سکون اور تحفظ سے رہ سکیں، وہ اپنے آبائی کھیتوں میں عزت کے ساتھ زندہ رہیں، نہ کہ در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئےچناب کی لہروںاور موجوں میںگم ہوجائیں۔اس وقت بھی ان گاؤں کے عوام کے لئے دریائے چناب ہر موج ایک نئی آزمائش ہے۔ ہر طغیانی ان کے صبر کی کسوٹی ہے اور پھر بھی وہ اُمید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ حکومت اگر چاہے تو انہیں بچا سکتی ہے۔ وہ اب بھی دعا کرتے ہیں کہ ان کی دُہائی سنی جائے گی، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔
رابطہ۔ 7006089850, 9419223325