بر صغیرمیں ریاست جموں وکشمیر اب اردو کا ایک اہم دبستان بن گیا ہے ۔یہاں بولی جانی والی تمام زبانوں میں اردو کو مرکزیت حاصل ہورہی ہے۔یہاں کے بیشتر قلم کار اپنی اپنی مادری زبانوں کو چھوڑ کر زیادہ تر اسی زبان میں اظہار خیال کررہے ہیں،جس کے نتیجے میں یہاں اُردو ادب کی اس قدر ترویج ہوئی ہے کہ اس دبستان کی ایک الگ جامع تاریخ بن سکتی ہے۔ہمارے فکشن نگاروں نے شروع سے ہی اردو کی تمام تحریکوں اور جحانات کا ساتھ دے دیا ہے اور ہمیشہ عصری ضرورتوں کے پیش نظر فکشن تخلیق کرتے رہے۔جن میں ریاست کی خواتین افسانہ نگار بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ہر دور کا ادب اپنے سماجی ،معاشی اور سیاسی نظام اوراس سے پیدا ہونے والی مثبت و منفی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔یہ خاصیت ریاست کی معاصر خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔انھوں نے آج کے مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنا کرمؤثر افسانہ نگاری کا حق ادا کیا ہے۔ زیادہ تر خواتین نے روایتی عشق و محبت کی داستانیں نیز سراسر تجریدی اور علامتی حکایتیں بیان کرنے سے گر یز کیا ہے۔انہوں نے بیانیہ انداز اختیار کرکے اپنی کہانیوں میں زندگی کے مختلف رنگوں کو فطری انداز میں اُبھارنے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹر ترنم ریاضؔ، نعمیہ احمد مہجوؔر،سیدہ نسرین نقاشؔ، زنفر کھوکرؔ،ڈاکٹر نکہت نظرؔ،ڈاکٹر نیلوفر ناز نحویؔ،واجدہ تبسمؔ،تبسم ضیا،شبنم بنت رشیدؔاور رافعیہ والی ؔوغیرہ ریاست کی وہ معاصر خواتین افسانہ نگار ہیں جن کی تخلیقات موضوعاتی اور ادبی سطح پر بحث کا موضوع بنی ہیں۔ان افسانہ نگاروں کے یہاں، فنی اور موضوعاتی دونوں سطحوں پر، نئی پرانی روایتوں کا حسین امتزاج اور کہانیوں کا نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔
ڈاکٹر تر نم ریاض
ریاست جموں وکشمیر میں اردو افسانے کو نئی جہت دینے اور نت نئے تجربوں سے آشنا کرنے والی خواتین افسانہ نگاروں کی صف میں ترنم ریاض کا نام سہر فہرست ہیں۔ ترنم ریا ضؔ کا اصلی نام فریدہ ترنم ہے۔آپ سرینگر کشمیر میں تولد ہوئیں۔اردو ادب میں ترنم ریاضؔایک شاعرہ،ناول نگار،افسانہ نگار،تبصرہ نگار،محقق ونقاد کی حیثیت سے اپنی لیاقت و قابلیت کا لوہا منواچکی ہیں۔ان کی تصانیف اعلی ادبی معیار کی حامل ہیں۔ترنم ریاضؔ کی تصانیف تا حال جو منصہ شہودپر آچکی ہیں ان میں آٹھ افسانوی مجموعے :یہ تنگ زمین(1998 )،ابا بیلیں لوٹ آئیں گی(2000)،یمبرزل (2004 )،میرا رخت سفر(2008 )،ناول مورتی(2004 ) برف آشنا پرندے(2009)، نرگس کے پھول ،صحرا ہماری آنکھوں میں شامل ہیں جبکہ شعری مجموعوں، پرانی کتابوں کی خوشبو،بھادوں کی چاند تلے، زیرسبزہ محو خواب(2015) اورچاند لڑکی ادبی دنیا میں خاصی پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ترنم ریاضؔ کی بیشتر کہانیوں میں نسائی شعور،نسائی تہذیب و ثقافت کی بھر پور جھلک ملتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقیات میں مرد اساس معاشرے کے جبر کے خلاف ان کے احتجاج کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انھوںنے افسانہ باببل، حور،کانچ کے پردے اور میرا پیا گھر آیا میںعورت ،اس کی اہمیت وافادیت ،اس کے تحفظ اور حقوق پر کھل کربات کی ہے۔
نعیمہ احمد مہجور
موجو ہ افسانوی منظر نامے میں ایک اہم نام نعیمہ احمدمہجور کا بھی ہے۔آپ بمقام ڈل گیٹ بچھوارہ سرینگر کشمیر میں تولد ہوئیں۔ آپ کے افسانے ریاست کے اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ان کے تخلیق کردہ افسانے آگ،سیاہ رات کی چاندنی،اس بستی کی رات اور سفید چاندنی ہیں۔ان کا ایک ناول بہ عنوان’’دہشت زادی‘‘بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ نعیمہ احمدمہجور بھی اپنی کہانیوں میں عورت کو مرکزی حیثیت دیتی ہیں۔ان کے افسانوں میں جہاں عورت کے حالات و کوائف سے متاثر ہوتے سماجی و سیاسی حالات و مسائل کے رنگ ہیں تو وہیں سماجی و سیاسی قید وبند سے برسر جہد باغی مزاج کی عورت بھی ہے۔ان کے ناول میں نئی نسل کی تعلیم یافتہ لڑکی کی سرکشی ،بے باکی،خودآگہی اور خود اعتمادی کی تصویروں کی جھلک بھی ملتی ہے۔
سیدہ نسرین نقاش
کشمیر میں اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں سید نسرین نقاش کا نام بہت معتبر سمجھا جاتا ہے۔سیدہ نسرین نقاش سرینگر سے تعلق رکھتی ہے۔اُنکا تخلیقی سفر بہت پرانا ہے جو 80کی دہائی میں شروع ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’دھوکہ ‘‘ماہنامہ روشن ادب میں 1987 میں شائع ہوا ہے۔ان کا افسانوں مجموعہ’’ سلگتی لکریں‘‘منظر عام پر آچکا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں متوسط طبقے کی گھریلو زندگی کو پیش کیا ہے۔خانگی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اکثر ان کے افسانوں کا موضوع ہوتے ہیں۔سیدہ نسرین نقاش ایک باصلاحیت ادیبہ ہیں جن کا قلم بیک وقت شاعری ،افسانہ نگاری اور مضمون نگاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھاتا ہے۔
زنفر کھوکر
ریاست کی خواتین افسانہ نگاروں کی کہکشاں کا ایک اور تابندہ ستارہ ہیں زنفر کھوکر۔زنفر کھوکرکا تعلق راجوری سے ہے۔ ان کی پہلی کہانی’’نصحیت ‘‘ماہنامہ تشکیل میں 1888 میں شائع ہوئی ہے۔اب تک ان کے چار افسانوی مجموعے(خوابوں کے اس پار1999،کانچ کی سلاخ 2003، عبرت2010 اور ہم سب ایک ہیں2017)شائع ہو چکے ہیں۔ان کے افسانے آج کل،انشاء تریاق اور شاعر جیسے جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ماہنامہ شاعر نے مارچ2013 میں ان پر ایک خصوصی گوشہ بھی شائع کیا ہے۔ان کے زیادہ تر افسانوں کا موضوع عورت ہے۔وہ عورت کے دکھ درد کو جتنی اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ اُتنی ہی چابکدستی سے اُسکو افسانوں میں پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔انھوں نے اپنے سماج میں عورت کی بدحالی اور تباو حالی کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عورت کے ایثار اور قربانی کے جذبے کو بھی اپنے متعدد افسانوں میں پیش کیا ہے۔جس کی مثال ان کا ایک نمائندہ افسانہ’’خیرات‘‘ہے۔ ان کی کہانیوں میں انسانی جذبات ،تعلقات اور سماجی حالات کا بیان بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی
نیلوفر نازنحوی کاشمار ریاست کے معروف افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔نیلوفر ناز سرینگر سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کے بھی اب تک تین افسانوی مجموعے(چنار کے برفیلے سائے2013 ،خاموش آسمان2015 اور روزن پہ میرے چاند2018 )منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کی کہانیاں ریاست کے مختلف اخبارات اور رسائل وجرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔نیلوفر ناز نحوی کے افسانوں میں مخصوص سماجی و تہذیبی تناظر ،عورت و مرد کے تعلقات،سیاسی گراوٹ، معاشی بدحالی،گھریلو مسائل اور ازدورجی زندگی کے اُتار چڑھائو کا بیان جابجا دیکھنے کو ملے گا۔ان کے افسانوں میں عورت مختلف روپ میں دیکھائی دیتی ہے۔کہیں وہ زمانہ جاہلیت کی عورت ہے جو مرد کی بے جا زیادتیاں سہتے ہوئے بھی مرد کو مجازی خدا کا درجہ دیتی ہے۔خوشبو،ایک خط۔۔ماں کے نام،بھوک،خاموش دھڑکن اور بے رنگ خون ان کے ایسے افسانے ہیں جن میں عورت بحثیت ماں،بیوی ،بہن اور سہیلی کے طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔
ڈاکٹر نکہت فاروق نظر
نکہت فاروق نظرریاست کے افسانوی افق پر ابھرتا ہو اایک اور نام ہے۔ان کا تعلق بھی سرینگر سے ہے۔مقامی جرائد اور رسالوں میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’نیلے آسمان کا‘‘2008 میں منتہ ٔ شہود پر آگیا۔ان کے افسانوں میں زندگی کے نشیب وفراز اور روز شب کے تمام حالات کی ترجمانی ملتی ہے۔ان کے یہاں تہذیبی وقار ،خاندانی میل جول کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور سماجی رشتوں کے درمیان دوری کا احساس، خونی رشتوں کے ٹوٹتے ہوئے کرب کا اظہار ،نسائی نفسیات کی پیش کش اور سماجی ناانصافی کی شکار عورتوں کے لئے صدائے احتجا ج نظر آتا ہے۔جس کی عمدو مثال ان کا افسانہ’’ریزہ ریزہ وجود ‘‘ہے۔
واجدہ تبسم گورکھو
معاصر افسانوی ادب کے منظر نامے پر واجدہ تبسم بھی ایک اہم نام ہے۔واجدہ تبسم بھی سرینگر سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کی پہلی کہانی ’’آہ کے اثر ہونے تک‘‘روزنامہ چنار1972 میں شائع ہوئی ہے۔’’ڈولتی نیا‘‘کے عنوان سے1973 میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔ایک اور مجموعہ ’’آج بھی دل روتا ہے‘‘زیر ترتیب ہے۔عورتوں کے مسائل،عورتوں کی جذباتی دنیا،اس کی خوشیاں اوراس کے غم،اس کی محبت،اس کی ممتا ،اس پر ہونے والے مظالم،اس کو مجبور کرنے والی باتیں اور اس کی سماجی حیثیت وقار کی مکمل تصویرکشی واجدہ تبسم کے افسانوں میں ملتی ہے۔ایک عورت کا سب سے انمول لمحہ ماں بننے کا ہوتا ہے۔ اپنے وجود سے ایک نئے وجود کی تخلیق ہی اس کی تکمیل کا سبب ہوتی ہے۔ان کا افسانہ’’ماں‘‘عورت کی اس نفسیات کو قاری کے سامنے رکھ دیتی ہے۔
تبسم ضیاء
ریاست کی خواتین افسانہ نگاروں کی فہرست میں ایک نام تبسم ضیا کا بھی ہے۔تبسم ضیا اگر چہ کم لکھتی ہیں لیکن خوب لکھتی ہیں۔شہر خاص کے کاٹھی درواے سے تعلق رکھتی ہیں۔ان کا پہلا مجموعہ’’رمق2016 ‘‘میں شائع ہوا ہے۔مقامی روزناموں میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کی کہانیوں میںزندگی، بالخصو ص عورتوں کی زندگی، کی مختلف جہات پر توجہ ملتی ہے۔عورت کے استحصال اور جہیز کے بڑھتے لین دین کے ساتھ اس کے ذہنی انتشار ،الجھنوں اور طبقہ نسواں کی بکھرتی زندگی کے مسائل کا بھر پور احاطہ ان کے افسانوں کا خاصہ ہے۔انھوں نے عورتوں کے دکھ سکھ ،خوشیوں اور بنتے بگڑتے رشتوں کو اپنے مشاہدے اور تخیل سے اس طرح پیش کیا ہے کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔مثلا۔’’گھر‘‘،’’پرکھ‘‘،’’پرس‘‘،اور’’ ضد‘‘وغیرہ جیسی ان کی کہانیاں ہمیں آج کی بدلتی ہوئی زندگی اور نئے سماجی تناظر سے روبرو کراتی ہیں۔
شبنم بنت رشید
شبنم کا تعلق جنوبی کشمیر کے پہلگام علاقہ سے ہے اور کچھ عرصہ سے انکی افسانوی کاوشیں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ خاص کر اخبار کشمیر عظمیٰ کے ہفتہ واری ادب نامہ میں انکی متعدد کہانیاں شائع ہوچکی ہیں، جو نہ صرف فنی اعتبار سے چست درست ہیں بلکہ اُنکا موضوعاتی تنوع قاری کو غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ شبنم کی کہانیوں میں جہاں عالمی سطح پر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سے روایتی سماج کی اُکھاڑ پچھاڑ کا ذکر ملتا ہے، وہیں تصادم آرائیوں کے حامل خطوں میں ابھرنے والی نفسیات اور عام انسان پر پڑنے والے اسکے اثرات کا واضح نقشہ نظر آتا ہے، جسے وہ خوبصورت زبان اور بیان کی مدد سے حقیقی رنگوں میں کھنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔
عذرا بنت گلزار
سرینگر کے شہر خاص سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ ہیں، جنہوں نے تازہ تازہ ہی افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا ہے۔ انکی کہانیوں میں سماجی اور نفسیاتی مسائل کا ذکر، جس خوبصورت انداز میں ملتا ہے اُس سے صاف دکھ رہاہے کہ مشق و تجربہ کی راہ پر گامزن ہوکے رہگذار ادب میں انکا مستقبل روشن ہوگا۔
ریاست کے افسانوی افق پر اور بھی کئی خواتین افسانہ نگاروں کے نام ہیںجن کے قلم فعال ہیں اور اردو افسانوی ادب میں اضافہ کر رہی ہیں۔ان میں رافعیہ ولی،میت کور،زبیدہ گلزا ر اور شمیمہ صدیقی کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ نوجوان قلم کار اردو افسانے کو نئی جہتوں سے روشناس کر وارہی ہیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کے منظر نامے میں خواتین افسانہ نگاروں کا مستقبل تابناک ہے۔
رعناواری سرینگر۔۔رابطہ9697330363: