زبانیں اللہ تعالیٰ کی نعمت ِعظمیٰ ہیں ۔ احساسات، جذبات، خیالات اور مافی الضمیر بیان کرنے کیلئے سب سے اہم و اولین ذریعہ زبانیں ہی ہوتی ہیں ۔ زبانیں انسانی تاریخ ، تمدن و تہذیب کی امین ہوتی ہیں ۔ قوموں کی شان و شوکت کی داستانیں ان کی زبانوں میں رقم کی جاتی ہیں ۔ نہ صرف انسانی زبانیں بلکہ حیوانات اور چرند و پرند کی زبانیں ان کے تنوع (Diversity) کو قائم رکھنے کے لیے اہم اور ضروری ہیں ۔ زبان انتہائی اہم سرمایہ ہے اور اس کی حفاظت نہایت درجہ اہم ہے ۔ایک دوسرے زاؤیہ نگاہ سے اگر غور کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہر زبان کسی خاص قوم یا ملت سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اس ملت کی تاریخ ، تہذیب و تمدن کی امین سمجھی جاتی ہے اور اس قوم کی شان و شوکت اس کی زبان سے وابستہ ہوتی ہے ۔ بر صغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش و کشمیر کے مسلمانوں کی زبان اردو ہے ۔ ارود زبان کی یہ آفاقی مقبولیت ہے کہ داغؔ دہلوی کو کہنا پڑا ؎
اردو ہے جس کا نام ہم جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
اگر ہم کسی عام آدمی یا کسی لسانیات کے ماہر یا محقق سے بھی یہ سوال پو چھیں کی آیا اُردو ریاست جموں و کشمیر میں اپنا جائز مقام حاصل کر چکی ہے باوجود اس کے کہ اس ریاست میں اُردو کوئی مادری یا علاقائی یا گروہی زبان ہے ہی نہیں بلکہ سرکاری زبان ہے ، تو وہ بھی ضرور اُردو زبان کی یہاں آئینی برتری وبالا دستی تسلیم کر کے اسے اپنا جائز مقام کی بات زور دے کر کہے گا ۔ کسی اَن پڑھ سے پوچھئے کہ وہ بی بی اردو سروس کا شہر بین اور شب نامہ کیوں سنتا ہے ، وائس آف امریکہ ا ردوسے ریڈیو آپ کی دنیا ، ریڈیو زاہدان کو کیوں بڑے شوق سے سنتا ہے ، ریڈیو ڈانچے ولے جرمنی کی ارود سروس کو کیوں پسند کرتا ہے، تو وہ ان پڑھ بھی کہے گاکیوں کہ مجھے اُردو آسانی کے ساتھ سمجھ آتی ہے اور یہ بڑی پیاری زبان ہے ۔ ریاست کے شعراء اور ادباء اور قلم کار حضرات کو غیر ریاستی قومی یا بین الا قوامی شہرت اور اعزازات اُن کی اُردو خدمات سے حاصل ہوئے ۔ ریاست کے کئی شہروقصبہ جات ، اضلاع، تحصیل اور نئی کالونیاں کے نام زیادہ تر اُردو میں لکھے اور بولے جاتے ہیں ۔ہمارے یہاں زیادہ تر کتابیں اُردو میں شائع ہوتی ہیں ، مقامی اخبارات اور رسالے اُردو میں ہیں ، نصاب میں دسویں جماعت تک اُردو ایک اہم مضمون ہے، مشاعرے اُردو میں ہورہے ہیں ، دُعائیں اُردو میں ہوتی ہیں ، مباحثے اُردو میں منعقد کئے جاتے ہیں، گفتگو ئیں اُردو میں ہوتی ہیں ، الیکٹورل اور دیگر سرکاری فہرستیں اُردو میں ہیں ، اس لئے اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ لیہہ سے لکھن پور تک اور کرناہ سے کوکر ناگ تک رعوام الناس میں اُردو بالا دست رابطے کی زبان بلکہ تینوں خطوں کی مرکزی زبان ہے ۔ لہٰذا اُردو جموں و کشمیر میں اپنا وہ جائز دینا حکومت اور سماج دونوں پر واجب ہے ۔ ؎
کیا خبر ہے آپ کو اُردو ہے کتنی نا گزیر
گفتگو اُردو میں ہوتی ہے نہایت دل پذیر
اس لئے مقصود ہے ہم کو اُردو کا وقار
اس کا ہر اک حرف ہے تہذیب کا آئینہ دار
شوکت سبزاروی کہتے ہیں کہ یہ اُردو کی فطرت ہے کہ اس نے اپنی اور پرانی ہر زبان سے استفادہ کیا اور اس طرح بول چال کی زبان سے ترقی پاکر اس نے ایک اعلیٰ علمی اور تہذیبی زبان کا درجہ حاصل کر لیا ۔اب چونکہ ہمارا موضوع اُردو کا جنم اور اس کی ارتقاء پذیری اور فروغ ہے ،اس لئے پہلے میں یہ بات عرض کر تا چلوں کہ اُردو ہندو پاک کی مشہور و معروف زبان ہے بلکہ اس نے اپنے بولنے اور سمجھنے والے روس ، کنیڈا ، مشرقی وسطیٰ، جاپان، امریکہ ، برطانیہ اور چین کے کئی کئی علاقوں میں اپنا خاصامقام بنا لیا ہے ۔
جموں و کشمیر کی بات ذرا دلچسپ ہے کیونکہ یہاں اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور آئین ہند میں بھی اسے آٹھویں Scheduleمیں شامل کیاجا چکا ہے ۔ جموں و کشمیر کے بعض محکمہ جات میں اب بھی سرکاری کام کاج اُردو میں تحریر کیا جاتا ہے ۔ محکمہ مال کے تمام اندراجات اُردو میں ہی قلم بند کئے جاتے ہیں ۔ پولیس کا روزنامچہ خالص اُردو میں تحریر کیا جاتا ہے ، عدالتوں میں اُردو کا دور دورہ ہے۔ ایوان ہائے قانون سازیہ میں اُردو اپنے عروج پہ ہے اسکولوں ، کالجوں ، یو نیور سٹیوں ، دفاتر جہاں سنئے بس اُردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اگر غیر ریاستی شخص کشمیر ، لداخ یا پھر جموں آئے تو وہ بھی اُردو کا سہارا لیتا ہے ۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست کے تینوں صوبہ جات کے رہنے والے اگر ایک دوسرے صوبہ میں جائیں تو اپنی صوبائی زبان علاقائی زبان اور وہاں کی زبان جہاں وہ جائیں بھول کر وہ بلا جھجک اُردو میں ہی بات کرتے ہیں ۔ لداخی کشمیر وارد ہو یا کشمیری جموں جائے بس اُردو سے ہی کام چلا لیتے ہیں اور اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جو ہمارے ہاں نئی نسل آرہی ہے اُردو ہی بول اور سیکھ رہی ہے ۔ موجودہ لسانی منظرنامے میں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کی تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرے میں نئے تقاضوں اور نئے مطالبات کے سامنے یہ زبان کیا کردار ادا کا سکتی ہے ؟میری ذاتی رائے ہے کہ اردو زبان کو معاشی نظام سے وابستہ کرنے کی شعوری کوشش اور ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں اردو کو سرکاری زبان کا در جہ تو کیا گیا لیکن عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے ۔ اردو زبان کے حوالے سے ادبی قدر و قیمت کے تعین کے مسئلے کو جس طرح اہمیت دی جاتی ہے اسی طرح زندگی کے تمام شعبوں سے منسلک رہنے والی اس زبان کے عملی پہلوئوں پر غور و فکر کر ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکیں ۔ مثلاً اردو زبان سے جڑے ٹی وی، ریڈیو ، صحافت اور لسانی تربیت کے کورسزاور ایسے کئی ایک شعبے ہیں جن میں امکانات ِ روزگار ڈھونڈ کراردو زبان کو ترویج وفروغ یا جاسکتا ہے ۔اردو سے جڑے تہذیبی اور ثقافتی اداروں کو مضبوط کیا جائے۔ ارود ترجمہ کاری کے نئے ادارے کھولے جائیں ، نئے تجارتی کورسز، فیشن ڈیزائننگ، انفار میشن ٹیکنا لوجی وغیرہ کو اردو زبان میں متعارف کیا جائے۔ اردو اداروں سے فارغ طلبہ و طالبات کو وظیفے دئے جائیں ، نیز اردو زبان سے وابستہ طلباء وطالبات کا حق نہ مارا جائے،اس کے لئے ارود ٹیچرز کی اسامیاں وضع کر نے کے علاوہ پٹواری، گرداور، نائب تحصیل دار تحصیل دار جیسی ملازمتوں میں اردو کو ہرحال میں لازمی مضمون قراردیا جائے ۔ با لخصوص طلباء کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اردو تعلیم کا مطلب صرف کالج اور اسکول میں استاد بننا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ اس سے وسیع دنیا میں نئے مقامات اور منازل طے کرنے کی کوششیں کی جاسکتی ہیں ۔ اس حوالے سے آئی اے ایس کے مسابقتی ا متحان میں اردو کا بھی مقرر کیا جانا ایک ا ہم پیش رفت ہے ۔ اس زبان سے وابستگی میں معاشی کشش کو نظر انداز نہ کیا جائے تاکہ ارود زبان وادب سے وابستہ ذہین لوگ روزگار کے میدان میں اطمینان محسوس کر سکیں ۔ اگر ہم اردو کی ترقی کیلئے یہ بہترین نظام وضع کر سکیں تو یہ اردو کی خدمت بھی ہو گی اور اس وسیلے سے ہماری معاشرت و معیشت میں اردو دوست حضرات کو ایک بہتر مقام اور اعتبار حاصل ہو سکتا ہے ۔ آخر پر یہ شعرمحبانِ اردوکی نذر ہے ؎
مشرق کی وادیوں میں ، مغرب کی محفلوں میں
ہر سمت نغمہ خواں ہے اردو زباں ہماری
اک حسنِ جاوداں ہے ، اک رنگِ بے خزاں ہے
ہر لحظ نوجواں ہے اردو زباں ہماری
رابطہ: سرہامہ ۔۔۔بجبہاڑہ ، اسلام آباد
فون نمبر :9797052494
ای میل [email protected]