دستورِ ہند کی دفعہ ۳۵ الف کے ساتھ چھیڑچھاڑکی کوششوں کا توڑ کرنے کے لئے جموں میں رائے عامہ نئے سرے سے منظم ہورہا ہے اور اس اہم قومی مسئلے پر فکر و شعور کو نئی جہت مل رہی ہے۔ اس وجہ سے لگتا ہے کہ بی جے پی کا مشن کشمیر اور ریاست کی خصوصی آئینی پوزیشن برباد کر نے کے دیرینہ خواب تتر بتر ہوتے جا رہے ہیں۔ مرکز میں حکمران پارٹی اب جموں عوام کو نئے سرے سے للچانے کیلئے مستقبل میں ریاست میں اپنے بل پر حکومت قائم کرنے اورایک ہندو وزیراعلیٰ سامنے لانے کے شوشے چھوڑ نے لگی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس پس منظر میںپا رٹی کے قومی جنرل سکریٹری و کشمیر معاملات کے نگران رام مادھو جی اور یونین منسٹر جتیندرا سنگھ کی پریشانیاں خاص طور سے بڑھنے لگی ہیں، جو مہاراجہ ہری سنگھ کا نام لے لے کر کشمیری لیڈروں پر برس پڑتے رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کشمیری اب مہاراجہ ہری سنگھ کے نام کو اپنے سیاسی اغراض کی تکمیل کیلئے استعمال میں لانے لگے ہیں۔ جتیندرا سنگھ نے بھاجپا سے فرنٹ ممبرانِ قانون سازیہ اور پارٹی اراکین کے خلاف سنگین نوعیت کا ایکشن لینے کا بیان دے کر اپنی ذہنی پریشانی کا بر ملا مظاہرہ کیا ہے۔ آر ایس پورہ کے ممبر اسمبلی گگن بھگت نے آرٹیکل ۳۵ ؍الف کی حمایت کرتے ہوئے کئی روزقبل اعلان کیا تھا کہ جموں کے لوگوں کو ۳۵ِ الف کی آئینی دفعہ کی چھتر چھایا میں بہت زیادہ تحفظ حاصل ہے لیکن جموں کے مفادات کیلئے کشمیری لڑائی لڑ رہے ہیں جس کے لئے مرحبا وآفرین کے مستحق ہیں۔ گگن بھگت کا کہنا تھا کہ بی جے پی قیادت کی نظریں باقی ریاستوں پر مرکوز ہیں اور جموں کے مفادات اور دو پارلیمانی نشستوں کو قربان کرکے یہ لوگ اپنی کھیر پکا رہے ہیں۔ ریاست کے جموں صوبے میں اس طرح کی نئی سوچ اُبھر آنے کے نتیجے میں وہاں کی سیاسی صورت حال میں زبردست ہل چل مچ گئی ہے۔ یہ تبدیلی محب ریاست تمام عوامی حلقوں کیلئے اطمینان کی باعث ہے اور اس طرح سے ۳۵؍ الف کو تحفظ دینے سے متعلق عوامی سطح پر جاری مثبت کوششوں کو کنارہ ملنا یقینی لگتا ہے،لیکن ریاستی عوام کو کامیابی ملنے کی آخری گھڑیوں تک چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ بہت سارے لوگوں کا یوں بھی کہنا ہے کہ ۳۵؍ الف کے معاملے میں کامیاب ہوگئے تو جینے کی اور جدوجہد میں رہنے کی تمنا باقی رہے گی۔ دوسری صورت میں یہ سوچ خودبخود اُبھر آتی ہے کہ جئیں گے تو کیوں اور کس مقصد کو لے کر جیا جائے۔ جینے کا موقع ملا تو آگے کیلئے جینے کی راہ کو سنوارنا پڑے گی۔ راستے سے ہر پتھر اور کنکر کو ہٹا کر عزت اوروقار کے ساتھ ریاست کے ہر پشتینی باشندے کو جینا ہوگا۔
ہم نامساعد سیاسی حالات کے بھنور میں جیسے بھی پھنس گئے ہیں اور جب تک پھنس کر رہنا ہے، ہم پر حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا لازمی بن جاتا ہے۔ وقت حالات کو بدلنے پر کبھی بھی مجبور کرسکتا ہے ۔ قانون قدرت بھی یہی سبق سکھاتا ہے لیکن انسان سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا بھی مطلوب نہیں ہے۔ بھاجپا کے قومی نیتا رام مادھو کا ماننا ہے کہ اب جب کہ بی جے پی کو کشمیر میں برسر اقتدار ہوجانے کا ایک موقع ملا ہے، پارٹی کو آگے بھی اپنا یہ رول ادا کرنے پر تیار رہنا ہوگا۔ اس کا یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اگر ۳۵؍ الف معاملے کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے حل نہ کیا جاسکا تو بھاجپا اقتدار میں رہتے ہوئے اس معاملے کو آگے حتمی طور حل کرنے کی اہل ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں رام مادھو کا ماننا ہے کہ ۳۵ ؍الف یا پھر۳۷۰ میں کسی قسم کی تبدیلی لانے یا ان دفعات کو ہٹانے کا مناسب اور آسان راستہ ریاست جموں کشمیر کے قانون سازیہ کی دہلیز سے گزرتا ہے۔ ممکن ہے کہ کشمیر وادی سے باہر کے لوگ اس بات کو اب ماننے لگے ہیں لیکن کشمیر کے اندر رہنے والے بچے نوجوان بزرگ، سب لوگ پہلے سے ہی اسی بات کی پرچھائیاں بھاجپا راج نیتی میں دیکھتے رہے ہیں۔ اگر رام مادھوکا یہ سنگھی فارمولہ حقیقت کے قریب تر ہے تو۳۵؍ الف کا تحفظ کرنے کیلئے کوشاں تمام افراد اور انجمنوں کو اپنی دفاعی صفوں میں کوئی زلزلہ پیدا کرنا ضروری بن جاتا ہے۔ آئین و قانون کے ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ دفعہ ۳۷۰ یا دفعہ ۳۵؍ الف میں کسی بھی نوعیت کی تبدیلی لانے کا واحد راستہ ریاستی قانون سازیہ سے ہوکر گزرتا ہے اور قانون سازیہ کے کسی بھی فیصلے کے خلاف کوئی اُنگلی اُٹھے بھی تو اپنے آپ نیچے ہوجائے گی۔ کانگریس نے ماضی میں ہماری لاعلمی، ساد گی اور بکھری ہوئی سیاسی سوچ سے ناجائزفائدہ اُٹھا کر قانون سازیہ کی دہلیز کو ہی ہمارا تشخص تحلیل کر نے کے ضمن میں استعمال میں لایا تھا اور دفعہ ۳۷۰؍ میں شگاف در شگاف ڈالنے کیلئے یہی راستہ اختیار کیا ہوا تھا۔ تاہم تب ریاست کے قانون سازیہ میں گھس جانے کیلئے غیر جمہوری راستہ اختیار کیا گیا تھا یعنی قدم قدم پر ریاست کی انفرادیت کے ساتھ آئینی فراڈ کھیلا جاتا تھا اور حکمران ٹولہ اپنے ہی بنائے گئے قوانین کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے مسمار کرتا رہتا تھا۔ بخشی نیشنل کانفرنس کے ٹکٹ پر الیکشن دھاندلیوںکے ذریعہ منتخب ممبران اسمبلی کو صادق زور زبردستی کانگریس کا چولا پہناکر ۳۷۰ ؍میں تبدیلیاں لانے کی سیڑی بنا دیا تھا۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں دفعہ ۳۷۰؍ تین کوڑی قیمت کی ضمانت بھی نہیں رہتی ہے ۔ صدر ریاست اور وزیراعظم کے عہدوں کو گورنر و وزیر اعلیٰ کے نام دئے گئے اور اُن کے آئینی اختیارات میں تخفیف کی جاتی رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں مرکزی ایجنٹوں کو ریاست کی انفرادیت کے اول ترین منبع یعنی ریاست کے الگ آئین تک رسائی مل گئی۔ تب تک ہمارا اپنا الگ آئینی نظام موجود تھا جو سپریم کورٹ آف انڈیا کے زیر نگران نہیں تھا۔ یہی حال الیکشن کمیشن کا تھا اور مرکزی سرکار کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ تب مرکز کے زر خرید ایجنٹوں نے ہی اس مفروضے کو عام کردیا تھا کہ ریاست میں فراڈ الیکشن ہوتے رہتے ہیں اور اس کا علاج انڈین الیکشن کمیشن کا دائرہ ریاست تک بھی بڑھانے میں مضمر ہے، لیکن اس تبدیلی کے بعد ۱۹۶۷ء کے اسمبلی انتخابات میں صادق اور مفتی کی رہنمائی میں دنیا بھر کی جمہوریتوں کو رُسوا ہونا پڑا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومتوں کے ہاتھوں کچھ بھی ممکن بنایا جاتا رہا ہے اور ابھی بھی یہ راستہ کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے دشمنوں کے لئے کھلا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اب تک کافی نام کمایا ہے اور اس تنظیم کے ماتھے کو داغ دار بنانے کی داستانیں عام ہوجانے کے بعد سب سے بڑی جمہوریت کی وقعت باقی نہیں رہ سکتی ہے۔
اب ہم رام مادھو صاحب کے’’ ریاست جموں کشمیر میں اپنی یا پھر دیگر حمایتیوں کے ساتھ حکومت قائم کریں گے‘‘ چلنج کا کس طرح سے مقابلہ کرسکتے ہیں؟ بائیکاٹ کال کا حشر ہم ایک نہیں درجنوں مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ ۲۰۰۸ء کی ایجی ٹیشن کے دوران ۱۱۹؍ کشمیریوں نے سینے پر گولیاں کھا کھا کر اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھالیکن اُسی سال کے اخیر پر بائیکاٹ کال کو ووٹروں نے اپنے قدموں تلے لتاڑتے ہوئے بہت سارے ووٹ ڈال کر حکومت کا قیام عمل میں لانے میں سرکارِہند کی دو طریقوں سے مدد کی تھی: اول بائیکاٹ کال کی معتبریت کو ٹھیس پہنچائی گئی اور دوئم یہ این سی اور کانگریس کو ملی جلی سرکار قائم کرنے کا موقع ہاتھ لگا تھا۔ اس حکومت کا پہلا سال قدرے معمول کے حالات میں گزرالیکن دو برس بعد یعنی ۲۰۱۱ء میں سرینگر اور مضافاتی علاقوں میںمسرت عالم کے زیر قیادت جو رگڑو ایجی ٹیشن شروع ہوئی تھی، اُس میں بھی ایک سو دس سے زیادہ لوگوں کو شہید کیا گیا تھا۔ ان میں کم سن اور جوان سال کشمیری بچوں کی ایک اچھی خاصی تعداد شامل تھی۔ ایک سال پہلے بھی ۲۰۱۰ء میں شوپیان کی رہنے والی آسیہ اور نیلوفر نام کی دو مظلوم خواتین کے قتل اور جسمانی بے حرمتی کے ردعمل میں شوپیاں سمیت کشمیر میں زبردست عوامی ایجی ٹیشن شروع ہوئی جو سال بھر جاری رہی اور شوپیان کے لوگ ابھی بھی سال ہا سال ۳۰؍ مئی کو آسیہ اور نیلوفر کی مظلومیت کی یاد میں حزنیہ تقاریب کا اہتمام کر کے اپنا غم غلط کرتے ہیں۔ اس دوران بھی کچھ شہریوں کی جان چلی گئی اور مزید لوگوں کو قید و بند کی اذیتیں سہنا پڑیں اور سال کا سال عالم افراتفری اور دہشت میں گزر گیا۔ اتنے عرصے کے جانی نقصانات اور بدامنی کا نوٹس لیتے ہوئے مرکزی سرکار نے کشمیری عوام کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے اور راحت پہنچانے کے نام پر تین ممبران پر مشتمل پڈگائونکر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا۔طویل وقت گزر جانے پر کمیٹی نے کچھ وزن دار اور کچھ فضول قسم کے بہت سارے راحتی اقدامات کی سفارشات پر مشتمل اپنی رپورٹ مشتہر کردی لیکن ڈاکٹرمن موہن سرکار نے کسی ایک بھی سفارش پر عمل نہیں ہونے دیا۔ اس پر بحث کرنا بھی فضول ہے۔ تاہم اس ایک نقطہ کو زیر غور لایا جائے تو کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔پڈگائونکر کمیٹی کے تیسرے ممبر ایم ایم انصاری کو کشمیر کی انفرادیت کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنے کی ذمہ داری ملی۔ ریاست کی آئینی انفرادیت کی بحالی کے حق میں چند ایک مرتب سفارشات کو مرکز نے خاص مصلحت کے تحت وصول کرنے کے بجائے اس رپورٹ کو ریاست کی ملی جلی سرکار کے سپرد کیا ۔ وہاں این سی اور کانگریس کے ممبران پر مشتمل ایک سب کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ این سی ممبران اپنی جماعت کے منشور کے مطابق انصاری رپورٹ کے حق میں تھے، جب کہ کانگریس کے ممبران کانگریس اقتدار کا جنازہ نکلنے تک اس کی مخالفت کرتے گئے۔ ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں بہت سارے کشمیریوں نے بائیکاٹ کال کو نظر انداز کرکے ووٹ تو دئے لیکن اجتماعی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حق میں۔ یوں تو کہہ سکتے ہیں کہ ’’کیں فرق پیندا‘‘ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ کہیں بھی اور کبھی بھی متحد نہیں رہے ہیں۔ ہم پر بجا طور الزام لگایا جاتا ہے کہ چالیس لاکھ شیر کشمیر کے ساتھ ہیں، اُسی دم چالیس لاکھ بخشی صاحب کے ساتھ ہیں اور باقی جو بھی آیا، چالیس کے چالیس لاکھ اُسی کے ساتھ رہے ہیں، لیکن اس بار یہ سوانگ نہیں چلے گا کیونکہ ہمیں رام مادھو سے نپٹ لینا ہے۔ وہ ریاست کو بی جے پی حکومت کی براہ راست سپردگی میںدینے نکلے ہیں۔ یعنی ابھی جو سلوک۲۰ کروڑ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، کچھ دیر بعد وہی سلوک جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ بھی ہوگا۔ یہاں رام جی کو بس ایک دقت کا سامنا ہے کہ یہاں ۳۷۰ اور ۳۵ الف دفعات لگے ہیں اور ان دفعات کا خاتمہ کرنے کے لئے جس دروازے سے گزرنا ضروری ہے ، اُس کی چوکھٹ پر اپنا پہرہ لگانا مطلوب ہے۔ ہم بائیکاٹ کریں تو رام مادھو کا کام آسان ہو گا۔ ہم بکھرے رہیں گے تو مقابلے میں کمزور پڑ جائیں گے اور جب یکجہتی کو پروان چڑھائیں گے توکم سے کم وہ سب کچھ بچاسکیں گے جس کے لئے ابھی ہم سر پر کفن باندھے سر راہ نکلنے کے لئے آمادہ ہیں۔