آج سے گیارہ بارہ برس قبل جو حاجی صاحب بیت اللہ سے مشرف ہوچکاہو،اگر آج وہ حرم کعبہ میں داخل ہوگا تو بیت اللہ شریف کو پہچاننے کے سوا اُسے سارا ماحول، حرم شریف کا سارا بیرونی حدود اربعہ اور اِرد گرد کا جغرافیہ عجیب سا لگے لگا۔اندازہ کرنے اور انداز ے سے بتانے کے باوجود بھی صحیح تقدس مآب مقامات کے محل وقوع اورزم زم کی باولیاں ،صحن پاک سے ملحق خلیفوں کی دوکانیں ، بازار ، ہوٹل ، سڑکیں ، بستیاں ،بس سٹینڈ،ہسپتال وغیرہ کی نشاندہی نہیں کرپائے گا۔ سعی ٔ عمرے یا حج کا ایک خاص رُکن ہے ۔صفاؔ پہاڑی کے ایک سرے سے دوسری طرف مروہ ؔپہاڑی کے سرے تک جانا ،دوڑ لگانا،حضرت ہاجرہؑ کی اُس سعی کی یاد تازہ کرتی ہے جو اُنہوں نے ننھے دودھ پیتے بچے کے لئے پانی کے چند قطروں کی تلاش میں کی تھی ۔ حجاج کی سہولت کی خاطر صفاؔ پہاڑی سے مروہؔ پہاڑی تک سارا حصہ بہترین ماربل کے فرش سے مزین کیا گیا ہے۔ صفاؔ پہاڑی کا ایک حصہ کھلا رکھا گیا تھا، آج وہ بھی ایک موٹے شیشے کی دیوار کے پیچھے بند ہے اور سعی کرنے کی ایک کے بجائے تین جگہیں یا تین کوری ڈور یا گردشیں بنائی گئی ہیں ۔یہ دُرست ہے کہ حجاج کرام کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے ایسا کرنا ناگزیر ہوگیا مگر یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ آپ اُس جگہ پر سعی نہیں کرتے جہاں حضرت ہاجرہؑ صادقہ نے سعی کرکے رب کعبہ کی نظروں میں اپنا ایسا مقام بنایا کہ اُس عمل کو رب ِ کریم نے ’’شعائراللہ‘‘ ٹھہرا کر قیامت تک آنے والے خداپرستوں کے لئے حج کا ایک لازمی عمل یا رُکن قرار دیا۔
صفاؔ پہاڑی سے مروہؔ پہاڑی کی طرف دوڑ کر جانا،پھرواپس آنا،پھر جانا،اُس مایوسی ، نامُرادی، بیچارگی اور کسمپرسی کی یاد کو تازہ کرنا جہاں ایک ماں انتہائی لاچاری میں اپنے معصوم بچے کی تڑپ دیکھ کر لاچارگی وبے بسی کی حدتک جاکرکبھی اِدھرکبھی اُدھردوڑ لگاتی ہے ۔ ایک بے کس ماں کی یہ مجبوری اور لاچاری محسوس کرکے ،اُس کے دردوکرب کواپنے وجود میں سمیٹ کر ، اپنے دل کے ہزار ٹکڑے کرکے جب ایک حاجی ربِ کعبہ کے حضور پیش کرتاہے تو وہ اُس شکستہ دل کی قدر کرکے حاجی کے گناہ بخش دیتاہے ۔ کیونکہ بہ الفاظ حکیم الامت ؎
تو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے
تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر
ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
مگر ہم اُسی سمت یا ڈائرکشن میں سعی کرتے ہیں مگر اصل اوریجنل جگہ پر نہیں کرتے ہیں تو پراکسی (Proxy)کی اُس سعی کو مثلِ سعی کہیں گے ۔ بسا اوقات ہم پر وہ کیفیت بھی طاری نہیں ہوتی جوہونی چاہئے تھی ۔ ہم کو فقط چکر پورے کرنے کا فکر لگا رہے گا مگر اس عمل کے وجود میں آنے کا واقعہ شاید ہمارے ذہن میں کوئی یاد تازہ نہیں کرپائے گا ۔
سابقہ ایام میں آپ اورہم کو حرم کعبہ کے آس پاس کے محلہ جات میں دورانِ حج قیام کرنے کو جگہ ملتی تھی ۔اذان ہوتے ہی یا اذان سے چند منٹ قبل حسب فاصلہ آپ اور ہم حرم کی جانب چل پڑتے تھے ۔جماعت نماز میں شرکت کرکے آپ ایک ہزار نمازوں کا ثواب پاتے تھے ۔آج کل کے زمانے میں عام طور پرآپ کو عزیزؔیہ کے مقام پر جگہ مل جاتی ہے اور عزیزیہ گرچہ زیادہ دُور نہیں مگر خیال رکھنا چاہئے کہ بالکل پاس بھی نہیں ہے ۔ اب ہرایک حاجی کے لئے خصوصاً مستورات اور عمررسیدہ لوگوں کے لئے دن میں پانچ بار عزیزیہؔ سے آنا ممکن نہیں ہے ۔ایک صورت یہ بھی ہے کہ صبح سے رات تک حرم کی زیارت سے سیراب ہوتے رہیں اور رب غفورورحیم سے اپنے خطائوں کے لئے معافی طلب کرتے رہیں مگر رب نے انسان کو کھانے پینے اور نہانے دھونے کی بھی ضرورت ساتھ میں رکھی ہے، اس لئے سارا وقت حرم میں گزارنا بھی ممکن نہیں ہے ۔سابقہ کئی برسوں سے ہمارا تقریباًہر دوسرے برس بفضل تعالیٰ زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہونے کا موقعہ ملتا رہا ہے، اس لئے ہم بغیر کسی رورعایت کے کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کے کئی ایک حاجی صاحبان نزدیک تر ہوتے ہوئے بھی حرم کی باجماعت نمازوں سے بُخل کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ عزیزیہؔ میں رہنے والے کیا کرتے ہوں گے ۔ ہمارے ایک عزیز نے کہاکہ وہ ہرروز لگ بھگ تین اوقات پر نمازیں عزیزیہؔ میں ہی ادا کرتے تھے ۔
آج سے گیارہ بارہ برس قبل حرم کعبہ میں ہی مرد وزن کے لئے زم زم پینے کے لئے دو الگ الگ جگہیں بنی تھیں ،جہاں چشمے کا منبع بھی نظر آتا تھا۔ چند سیڑھیاں نیچے بطن ارض کی جانب اُتر کر زم زم نوش جان کرنے والے کا چہرہ خود بخود خانہ کعبہ کی جانب رہتا تھا۔ لوگ خوب زم زم پی کر کچھ اپنے سروں پرانڈیلتے تھے اور بڑے اطمینان سے دعا کرکے عمرے کا ایک رُکن پورا کرلیتے تھے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ حرم کعبہ سے باہر کئی دیواروں میں نلکے لگے ہیں ۔ کافی سارے ڈرم رکھے گئے ہیں ۔ حاجی زم زم پی تو لیتاہے مگر اُس کا چہرہ اکثرحالات میں بیت اللہ کی طرف نہیں رہتا۔ اسی سال کچھ عرصہ قبل راقم نے احرام میں ملبوس کئی لوگوں کو نیچے بیٹھ کر اور دوسری جانب چہرہ کئے زم زم پیتے دیکھا اور ازراہِ انسانیت (کیونکہ زبان سے ناواقفیت تھی) میں نے بازوئوں سے پکڑ کر کئی ایک زائرین کو کھڑا کیا اور اشاروں سے سمجھایا کہ زم زم کھڑے ہو کرپینا اور منہ خانہ کعبہ کی طرف کرنا واجب ہے مگر اس طرح کتنے ایک دو،دس نہیں سینکڑوں لوگ صحیح رُکن عمرہ اداکرنے سے رہ جاتے ہوں گے ۔
حرم کعبہ میں جو بھی ایزادگی ،کشادگی یا جو بھی نئی تعمیرات ہوتی ہیں وہ کرنے کے لئے سربراہانِ حکومت مجبور ہیں کیونکہ دن بدن حجاج اور زائرین میں اضافہ ہوتا جارہاہے مگر یہ بھی بتادوں جتنی بھی جگہ حرم میں دستیاب ہے وہ بہت کافی ہے، اگر حکومت کے اہلکار تھوڑی سی فرض شناسی کاثبوت دیں ۔ مختلف ممالک سے اگر سالانہ بیس لاکھ حاجی آتے ہیں اُس سے زیادہ تعداد دوسرے طریقے سے آنے والے لوگوں کی ہوتی ہے ۔ اگر چیک پوائنٹس(Check Points) کو ذرا سا سخت کیا جائے گا تو حرم کعبہ میں جگہ کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا ۔ جوصاحبان آگے ہی حج بیت اللہ سے مشرف ہو چکے ہیں ، انہوں نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ منیٰ اور عرفات میں جائز طریقے سے آنے والے حجاج نصب شدہ خیموں میں ٹھہرتے ہیں جب کہ بغیر اجازت او ردوسرے ذرائع سے آنے والے لوگ سڑکوں پر اپنا ڈیڑہ جماتے ہیں اور وہ سینکڑوں ، ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہوتے ہیں اور حج کے چوتھے روز جووہاں طوفانی بارش اکثر ہوجاتی ہے ،اُس میں بھی وہی لوگ زیادہ نقصان اُٹھاتے ہیں ۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ چیک پوائنٹس کوحقیقی معنوں میں اسم باسمیٰ بنایا جائے تاکہ بیت اللہ شریف اور حج وعمرہ کی اصلیت و سالمیت برقرار رہے اور حاجی صاحبان بھی عبور ومرور کی تکالیف او رطواف میں دھکم پیل سے محفوظ رہ سکیں ۔ ورنہ دل برداشتہ ہوکر یہی کہنا پڑے گا ؎
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالیؒ نہ رہی
رابطہ:- پوسٹ باکس :
691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995