مقصوداحمدضیائی
وقت کی پکار ہے کہ آج اُمتِ مسلمہ وحدت کی طرف لوٹے اور مل کر انقلابِ تازہ پیدا کرے ،ورنہ تاخیر’’ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی ‘‘کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ حالات کا تغیر و تبدل ہمیں کچھ کہہ رہا ہے ، آج جس قسم کے حالات سے عالمِ اسلام دو چار ہے، اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پوری ملت ذہنی طور پر منتشر ہوچکی ہے، کوئی خطہ اور قبیلہ ایسا نظر نہیں آرہا ہے جس میں دینی اور سماجی اتحاد باقی رہا ہو، اسلامی ممالک اور مسلم سماجوں میں، ہر سُو نفرت کی بو آرہی ہے۔ جس قوم کو پیغمبراسلام نے اُمّتِ واحدہ بنا کے چھوڑا تھا، وہ اُمت ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر نفرت و عداوت کی مثال بن گئی ہے۔ عرب کا وہ سماج جو رنگ و نسل میں تقسیم درتقسیم تھا، جہاں صرف نفرتوں کی سوداگری تھی، پیغمبراسلام نےاُسے ایک لڑی میں پرو کر محبت و بھائی چارگی کی ایسی مثال قائم کی تھی کہ رہتی دنیا تک ایسا کارنامہ کوئی پیش نہیں کرسکتا ۔اسلام ایک مستقل ضابطہ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے۔اسلام بنی نوع انسان کے لئے ہر محاذ پر واضح ہدایات رکھتا ہے۔ قرآن اسلام کی آئینی کتاب ہے، اسلام برداشت اور بردباری کی تعلیم دیتا ہے، خود کو سنوارنے اور دوسروں کے لئے دعائیں کرنے اور تڑپنے کا ہنر پیغمبراسلام کے ذریعے ہی دنیا کو ملا ہے۔ تمام انسان خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں ،اسی لئے اُسے ربّ العالمین کہا جاتا ہے ،جس نے اپنے محبوب پیغمبرمحمد ؐ کو رحمت للعالمین کے خطاب سے نوازا۔ اس وقت پوری امت مسلمہ روبہ زوال ہے اور ہر آنے والا دن ایک نئے زوال کو جنم دے رہا ہے، ہماری ذلت و پستی کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے مساجد کو ویران کر کے آپسی بھائی چارگی کو فراموش کردیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ منتشر قوموں کا مقدر رُسوائی ہی ہوتی ہے۔ اگر آج بھی اُمتِ مسلمہ قرآن و حدیث کے تحت ایک کلمے کی بنیاد پر باہمی رشتوں کو استوار کرلیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں زیر نہیں کرسکتی۔ ہمارے ہمارے سماج کا بااثر نوشتہ دیوار کو پڑھیں اور امت کو جوڑنے کی کوشش کریں۔ آج فرد فرد سے، جماعت جماعت سے ،ادارہ ادارے سے، نظام نظام سے ٹکرا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وہ شخصیات جو کہ معمار قوم کی حیثیت رکھتیں تھیں ، حالات نے انہیں بھی اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ وہ بھی آج ذرا ذرا سی بات پر باہم دست وگریباں ہیں۔ کسی شاعر کا یہ شعر حسبِ حال معلوم ہوتا ہےکہ؎
وہیں دست و گریباں پائوگے اللہ والوں کو
جہاں ذکرِ خدا زیادہ اور خوفِ خدا کم ہے
یہ خواص کا باہم دست و گریباں ہونا ،یہ قدورتیں، یہ ناچاکیاں، یہ کمزوریاں، یہ غلطیاں اور آپس کی گالیاں غیروں کی تالیاں ہیں۔ آمدم برسرمطلب ! ملت اسلامیہ اس وقت طرح طرح کے مصائب و مشکلات سے دوچار ہے جن کے اثرات سے زندگی مکدر ہو رہی ہے۔ مصائب مختلف صورتوں میں آتے جاتے رہتے ہیں، ان کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ چونکہ مصائب قدرت کے تکوینی نظام سے تعلق رکھتے ہیں، کوئی انسان انہیں تبدیل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مصائب کے نزول پر لوگوں کے رویے مختلف ہوتے ہیں ،ایسے موقعوں پر بعض لوگ ایمانی کمزوری کے باعث جزع فزع کرنے لگتے ہیں، ہنگامہ اور واویلا مچانے لگتے ہیں ،رونے دھونے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں اور بعض مرتبہ مصائب دیکھ کر ایسی باتیں کر بیٹھتے ہیں کہ جن سے اُن کا ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے۔ ان کے برعکس اہل ایمان نوشتہ دیوار کو تقدیر مان کر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں، کوئی ایسی بات یا ایسا کام نہیں کرتے جو اللہ کی ناراضی کا باعث بنتا ہو، ایسے ہی لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے جو مصیبت اور آفت کے وقت صبر کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ہی خدا ترس اور صادق قرار دیا ہے۔واضح رہے یہاں صبر کے بارے جو فرمایا گیا ،اس صبر کا مفہوم یہ قطعاً نہیں ہے کہ انسان کسی کو کچھ بھی نہ کہے۔ ابن منظور افریقی لسان میں فرماتے ہیں، التثبت علی الخیر صبر کا مفہوم یہ ہے کہ انسان خیر کے کام میں ہرحال میں اٹل رہے۔صاف بات یہ ہے کہ آج امت مسلمہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہے۔ اگر اہل ایمان آج بھی اسلام کی تعلیمات پرعمل پیرا ہوجائیں تو دنیا خود بخود امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گی، اس لئے سطح ارض پر جہاں جہاں امت مسلمہ کا درد رکھنے والے بندگان خدا بستے ہیں، ان کی اعلیٰ اور اولیں ترجیحات یہی ہونی چاہئیں کہ کس طرح سے فرقہ بندی اور تعصب سے مسلم معاشرہ کو پاک اور صاف کیا جائے ۔اس لیے ضرورت ہے کہ ہر ایمان والا اپنے گھر سے اصلاح کا کام شروع کرے، اپنے نوجوان بچے بچیوں اور خواتین کی اسلامی تربیت کرے ،سماجی خرابیوں اور سماجی جرائم کی نشاندہی کرے تاکہ ہماری آئندہ نسل تباہی سے بچ سکے اور قوم مسلم کو موجودہ اضطراری کیفیت سے باہر نکالا جاسکے ۔آج کے پرآشوب اور انحطاط کے دور میں جس طرح سماجی خرابیوں نے پائوں پسارے ہیں، اس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل کے لئے بہت زیادہ مشکلات کھڑی ہو گئیں ہیں، ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جس میں شرافت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہورہا ہے۔ ہمارا نوجوان جو ہماری جان و جگر اور ہمارا مستقبل ہے،اُس کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہماری ذمہ داری ہے اور اُن کوبُرے ماحول اور غلط عادات سے بچانا اور خطرات سے آگاہ کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ جس معاشرے میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اچھے اخلاق اور اچھے کردار کے مالک ہوتے ہیں وہ معاشرہ صحیح معنوں میں دنیا میں جنت کہلانے کا حق دار ہے۔ آج بے حیائی، بے پردگی ، شراب نوشی اور دیگر منشیات نے ہماری نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ وقت کی ضرورت اور حالات کا تقاضاہے کہ بالعموم پوری قوم مسلم اور بالخصوص علماء کرام واعظین اور ملت کے ذمہ داران سب مل کر اپنی نوجوان نسل بچے اور بچیوں کی فکر کریں، ایسے مشکل ترین حالات میں قائدین ملت زعمائے قوم اور روسائے قوم کے اوپر یہ واجب ہے کہ نئی نسل کو کیسے راہ راست پر لگایا جائے تاکہ ہمارا معاشرہ خرابیوں،بُرائیوں اور جرائم سے پاک ہو، ایک ایسا معاشرہ کہ جس میں بڑوں کا ادب ،والدین کا احترام ہو ،کمزوروں سے پیار ،چھوٹوںسے شفقت ،پڑوسیوں کے ساتھ ہمدردی ہو۔ایسی تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ کرنے کی کوششیں کی جائیں جو ان کو لامذہبیت کے عمیق گڑھے میں جانے سے بچاکر دین اسلام کے خوشگوار سایہ دار درخت کی چھائوں تلے جمع کر دے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے ذہن و دماغ کو اس قدر تقویت دی جائے کہ مادیت کے دام ِفریب کو تار تار کرکے روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوجائیں تاکہ اس ترقی کے دور میں ہر طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار رہیں۔ شریعت اسلامیہ کے ایسے درس دیئے جائیں کہ خدا اور رسول کی اطاعت ان کے رگ و ریشے میں پیوست ہو جائے تاکہ کسی نئی تہذیب و تمدن کے چمک دمک ان کو اپنی طرف مائل نہ کر سکے۔ یہ ہر ایمان والے کی ذمہ داری ہے اور ان کی بھی ذمہ داری ہے جنہیں خالق کائنات نے دنیاوی مال و دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے ،یقینا ًایک ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے کل قیامت کے روز خدائے تعالیٰ ہم سب سے ضرور پوچھیں گے کہ تم نے ان برائیوں کو روکنے کے لیے کیوں کوشش نہ کی۔اسی امید کے ساتھ کہ ہماری اس قلمی کاوش سے اس وسیع و عریض زمین پر کسی بھی خطہ میں صالح معاشرہ کی تعمیر کے لیے بندگان خدا میں شاید کہیں پر جذبہ بیدار ہو اور کہیں تو ظلمت کے بادل چھٹیں ،کسی شاعر نے یہ ناصحانہ شعر شاید ایسی ہی صورتحال کے پیش نظر کہا تھا کہ ؎
ظلم بچے جن رہا ہے ہر کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے