الف عاجز اعجاز
عادل ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہائشی تھا۔ زندگی کی مشقتیں اور مشکلات اُس کے روزمرہ کا حصہ تھیں لیکن دل میں ایک عجیب سی بیزاری نے گھر کر لیا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی زندگی میں کسی ایسی تبدیلی کی تلاش میں رہتا تھا جو اُسے سکون دے سکے لیکن یہ سکون اُسے کبھی میسر نہ ہوا۔ وہ روزانہ کی معمولی زندگی میں مگن تھا لیکن اندر سے خالی اور بے چین تھا۔
ایک دن، گاؤں میں سالانہ میلہ لگا ہوا تھا۔ عادل بھی اُس میلے میں گیا، مگر دل میں وہی بیزاری تھی۔ لوگوں کی خوشی، چہل پہل اور رنگ برنگی روشنیوں نے بھی اُس کے دل پر کوئی اثر نہ ڈالا۔ اُسے سب کچھ بے معنی لگ رہا تھا۔
اسی دوران، عادل کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو ایک چھوٹے سے اسٹال پر کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اُس کے چہرے پر ایسی سادگی اور مسکراہٹ تھی جس نے عادل کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ وہ لڑکی صبا تھی، جو اپنے دوستوں کے ساتھ میلے میں آئی تھی۔ صبا کی مسکراہٹ میں کچھ ایسا تھا جو عادل کے دل میں ہلچل مچا گیا۔ وہ پہلی بار کسی انسان کی مسکراہٹ سے اتنا متاثر ہوا۔
عادل نے صبا کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا۔ جیسے ہی وہ قریب پہنچا، صبا نے اُسے دیکھا اور دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ سلام کیا۔ عادل نے تھوڑا سا جھجھکتے ہوئے سلام کا جواب دیا اور کچھ دیر تک اُن کے درمیان رسمی بات چیت ہوتی رہی۔ لیکن اس مختصر گفتگو نے عادل کو اندر تک جھنجھوڑ دیا۔ صبا کی باتوں میں زندگی کی حرارت تھی، اور اُس کی آنکھوں میں خوشیوں کی چمک تھی۔
اُس دن کے بعد عادل اور صبا کے درمیان دوستی کا آغاز ہوا۔ وہ دونوں اکثر ملتے، باتیں کرتے اور زندگی کے بارے میں اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے۔ عادل کو صبا کی باتوں سے یہ محسوس ہوا کہ زندگی کی خوبصورتی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ صبا نے اُسے سکھایا کہ ہر لمحہ جینا چاہیے اور خوشیوں کو دل سے اپنانا چاہیے۔
لیکن عادل کی زندگی میں ایک مسئلہ تھا۔ وہ خوشیوں کو دل سے اپنانا چاہتا تھا، مگر اُس کی بے چینی اور بیزاری اُسے ہمیشہ پیچھے کھینچ لیتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ بھی صبا کی طرح زندگی کو خوشی سے جئے لیکن اُسے لگتا تھا کہ وہ کبھی بھی اُس کی طرح خوش نہیں رہ سکتا۔
صبا نے یہ بات محسوس کی کہ عادل کے دل میں کوئی اندرونی کشمکش ہے جو اُسے سکون نہیں لینے دے رہی۔ اُس نے عادل سے اس بارے میں بات کرنے کی کوشش کی لیکن عادل نے ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ “میں ٹھیک ہوں، بس تھوڑا سا وقت چاہیے۔”
ایک دن عادل اور صبا دونوں جھیل کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ موسم خوشگوار تھا، ہوا میں ہلکی ہلکی سردی تھی اور جھیل کا پانی پرسکون تھا۔ صبا نے عادل سے کہا، “عادل، تم ہمیشہ کہتے ہو کہ تم ٹھیک ہو، لیکن میں دیکھ سکتی ہوں کہ تمہارے دل میں کچھ ہے جو تمہیں پریشان کر رہا ہے۔ کیا تم مجھے اپنے دل کی بات بتاؤ گے؟”
عادل نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی اور پھر آہستہ سے بولا، “صبا، میں زندگی سے بیزار ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہے۔ میں تمہاری طرح خوش نہیں رہ سکتا۔ تمہاری مسکراہٹ میں ایک ایسی روشنی ہے جو مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے، لیکن میں اُس روشنی کو اپنی زندگی میں نہیں دیکھ پاتا۔”
صبا نے عادل کی بات غور سے سنی اور پھر نرمی سے بولی، “عادل، زندگی میں خوشی کے لیے مقصد کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ خوشی ایک کیفیت ہے جو ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم دل سے خوش رہنے کا ارادہ کریں، تو زندگی میں کوئی بھی چیز ہمیں خوش رہنے سے نہیں روک سکتی۔”
عادل نے سر ہلایا، لیکن اُس کے دل میں ابھی بھی وہی بے چینی موجود تھی۔ وہ جانتا تھا کہ صبا صحیح کہہ رہی ہے، لیکن اُس کے دل کی حالت کچھ اور تھی۔ اُسے اپنی زندگی میں وہ سکون نہیں مل پا رہا تھا جو صبا کی معیت میں اُس نے محسوس کیا تھا۔
کچھ دن بعد، صبا نے عادل کو بتایا کہ اُس کے والدین نے اُس کی شادی طے کر دی ہے اور اُسے جلد ہی شہر جانا ہوگا۔ یہ سن کر عادل کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے اُس کی زندگی سے وہ واحد روشنی چھن جانے والی ہے جس نے اُس کے اندھیروں کو تھوڑا سا روشن کیا تھا۔
صبا نے عادل کو تسلی دیتے ہوئے کہا، “عادل، تم ایک مضبوط انسان ہو۔ میری رفاقت تمہیں خوشی دیتی تھی لیکن اصل خوشی تمہارے دل میں ہے۔ تمہیں اپنی خوشی خود تلاش کرنی ہوگی اور میں جانتی ہوں کہ تم یہ کر سکتے ہو۔”
عادل نے اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کو ضبط کرتے ہوئے سر ہلایا لیکن اُس کے دل میں ایک طوفان برپا تھا۔ صبا کے جانے کا خیال اُسے وحشت میں مبتلا کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ صبا کے بغیر وہ کیسے جی پائے گا۔
صبا کے جانے کے بعد عادل نے خود کو بہت تنہا محسوس کیا۔ لیکن اُس نے صبا کی باتوں کو دل میں بسا لیا۔ اُس نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو بھرپور انداز میں جینا شروع کیا۔ اُس نے خوشی کو اپنی زندگی میں داخل ہونے دیا اور ہر اُس لمحے کو اپنانا شروع کیا جو اُس کے پاس تھا۔
کچھ مہینے بعد، عادل نے خود کو ایک نئی زندگی میں ڈھال لیا تھا۔ اُس نے اپنی بے چینی کو خوشیوں میں بدل دیا اور زندگی کے ہر لمحے کو بھرپور انداز میں جینے لگا۔ صبا کی یادیں اُس کے دل میں بسی تھیں اور وہ ہمیشہ اُس کی باتوں کو یاد رکھتا تھا۔ صبا نے اُس کی زندگی کو جس طرح بدل دیا تھا، اُس کا اثر ہمیشہ اُس کے دل میں رہا۔
عادل نے سیکھا کہ زندگی میں مخلص رفاقت کا مطلب کیا ہوتا ہے اور کیسے ایک خوش مزاج انسان کی معیت زندگی کی تلخیوں کو مٹھاس میں بدل دیتی ہے۔ اُس نے خود کو زندگی کی خوشیوں میں غرق کر دیا، اور کبھی بھی زندگی سے بیزار اور بے چین ہونے کا نہیں سوچا۔
صبا کی رفاقت نے عادل کی زندگی کو وہ روشنی دی تھی جس کی اُسے ضرورت تھی اور اُس روشنی نے ہمیشہ اُس کی زندگی کا راستہ روشن رکھا۔ عادل نے سیکھا کہ خوشی کوئی بیرونی چیز نہیں، بلکہ دل کی کیفیت ہے جو ہمیں خود پیدا کرنی ہوتی ہے۔
���
طولی نو پورہ کولگام
[email protected]