روزے کی مشق کا اصل مقصد!

بشارت بشیر
نفس کے سرکش ،بے لگام اور ڈھیٹ گھوڑے کو لگام دینے اور اسے زیر کرنے کے لئے گردش سالانہ کے بعد ایک بار پھر ماہِ صیام و قیام جلوہ گر ہے۔بساط ارضی کے ہر گوشے میں ایمان و اسلام کے متوالے اِس عرصۂ رحمت کی آمد کے لئے گیارہ ماہ چشم براہ رہے۔صیام ،صوم سے نکلا ہے اور اس کے لغوی معنیٰ کسی شئے سے رُکنا یا اُسے ترک کرنا ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ اہل عرب اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو بھوک پیاس کا عادی بنانے کے لئے باقاعدہ ان کی تربیت کرتے تاکہ مشکل اوقات میں وہ زیادہ سختی برداشت کرنے کے قابل بن جائیں،اس طرح وہ اپنے گھوڑوں کوتُندہواؤں سے نبردآزماہونے کی تربیت بھی ایسے ہی کر دیتے ۔یہ عمل سفر اور جنگ میں جبکہ ہوا کے تندو تیزتھپیڑوں کے ساتھ سابقہ پیش آئے انہیں ثابت قدم رہنے اور اپنا کا م احسن طور انجام دینے کا اہل بناتا تھا ۔فاقہ اور پیاس کے عمل سے گذر نے والے اس گھوڑے کو فرس صائم کہا جاتا تھا اور اصطلاح شرعی میں صوم یا روزہ اُسے کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو کھانے پینے اور عمل زوجیت سے روکے رہے ۔اسی طرح  روزے کے دوران غیبت ،فحش گوئی،بدزبانی اور تمام گناہوں سے باز رہنے کی بھی تاکید ہے۔

ہاں یہ روزہ جہاں جسم و بدن کی بیماریوں کا زود اثر علاج ہے وہاں اس سے ساری امت میں اولوالعز می ،ثابت قدمی اور ضبطِ نفس کی روح تازہ ہوتی ہے۔وحد ت امت کے لئے لازم تھاکہ یہ حُکم ایک ساتھ ایک معینہ مدت کے لئے ساری اُمت کو دیا جاتا ۔علم الاجتماع کے مبصر ین جانتے ہیں کہ وحدت امت ،تنظیم ملت اور ایک مثالی ڈسپلن کے پُر و قار اظہار کے لئے سب ایک ساتھ اس روحانی تربیت میں شامل ہوں۔مغرب کے چند مادہ پر ستوں کا یہ اعتراض کہ روزہ کے عمل سے انسان کی صلاحیت کا ری اور اس کے عزم و ہمت میں کمی واقع ہوتی ہے اور معاشرہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، وہ یہ بات جان کر چلیں کہ انسان نرے تن و توش کا نام نہیں بلکہ اصل جوہر اس کی روح ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے بدن کو فربہ ،چُست،توانا اور صحت مندرکھنے کے لئے انسان ساری عمر لذیذ و مرغن غذاؤں اور مقوی ما کولات و مشروبات کا اہتمام کرتا رہتا ہے اور پیٹ کی اس آگ کو بجھانے کے لئے حرام و حلال کی کسی تمیز کے بغیر شب و روز بر سر جدو جہد رہتا ہے تو کیا روح کی طاقت و توانائی ، تازگی اور شادابی کے لئے کسی غذا،کسی علاج اور کسی دوا کی ضرورت نہیں؟اور اگر جواب یہ جانتے ہوئے اثبات میں ہے کہ انسان کے اندر روح کا جو ہر ارضی نہیں بلکہ آسمانی ہے تو اس کی غذائیں یہ مائو لحم نہیں بلکہ اپنے خالق سے یہ روح جتنی قریب تر ہو اُتنا ہی نشو ونما پائے گی۔روح کو تویہ چاہیے کہ دن بدن لطافت کی جانب محو پر واز ہوا ور وصل و وصال کا وہ سرور ازلی حاصل کرسکے ،جس کا نام شریعت کی اصطلاح میں جنت ہے۔اور یہ تبھی ممکن ہے جب یہ تن و توش کے جذبات و میلانات سے آزاد ہو، اور جب تک یہ روح سفلی پابندیوں کی اسیر رہے گی ،فطری بلند پروازیاں اس کے نصیب میں نہیں آپائیں گی جو اس کی اصل مطلوب و مقصود ہیں۔

روزہ دراصل انسان کے اندر بے مثال قوتِ ارادی پیدا کردیتاہے ،شہوات و منکرات کے بادسموم کا کوئی جھونکا اور شروانتشار کی کوئی بلند تر طاقت بھی اپنے مقام سے اُسے ذرابر ا بر ہلانے میں کامیاب نہیں ہوتی ۔وہ خواہشات کے ’’بادشاہ‘‘کے سامنے غلام بے دام بن کے جی حضوری کے کام میں نہیں لگارہتا ہے۔یہی عمل اس کے اندر ـصبر و تقویٰ کے اعلیٰ ترین صفات پیدا کردیتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا اجردوں گا‘‘ہاں۔یہ آفتاب ذرّے سے نہیںشاہ گداسے نہیں بلکہ معبود عبد سے خالق مخلوق سے کہہ رہا ہے۔بقول ایک عظیم اسلامی مفکر کے کہ’’زمینوں اور آسمانوں کی ساری بادشاہتیں ‘ساری برکتیں مل کر کیا اس اجر کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں؟کیسی درد ناک نادانی ہوگی کہ اتنے ارزاں سودے کو بھی اپنی غفلت و بُرائی کی نذر کردیا جائے‘‘۔حق بات تو یہ ہے کہ انسان اپنے تن و توش کی توانائی کے لئے جس قدر سامان کرے گا، اس کی روحانی صفات اتنی ہی مضمحل اور کمزور ہوتی جائیں گی ۔فاقہ مستی اور بھوک کا روحانی ارتقا میں ایک خاص مقام ہے۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ میں اس مقدس ماہ کو شہر صبر سے موسوم کیا گیا ہے اور صبر کا خاص مفہوم ردعمل کا اظہار کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود ردعمل کے اظہارسے باز رہنا ہے۔یہ بہت صبر آزما کام ہے اور اسکی شدت وہی جانیں جو اس عمل سے گذریں ۔یوں سمجھئے کہ روزہ ایک سپیڈ بریکر ہے کہ جب ہم جذبات سفلی کی گاڑی میں سوار ہوں تو اس کی رفتار کو توڑ دیتا ہے،اس لئے اسلام نے اس عمل کو جہنم سے ڈھال قرار دیا ہے۔ہاں بات صبر کی چلی ہے تو یہ کیا کہ لذیذ و مرغن غذائیں آنکھوں کے سامنے ہیں،منہ میں بھی پانی بھر آتا ہے کوئی دیکھنے بھالنے والا بھی نہیں لیکن بڑے تو بڑے چھوٹے بچے بھی ہاتھ لگانے سے کتراتے ہیں؟یہ کیا کہ پیاس کی شدت کا یہ عالم کہ زبان ہونٹوں پہ آتی ہے پُر لطف مشروبات سامنے پڑے ہیں ،کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں لیکن ہاتھ اُسطرف جاتا ہی نہیں۔یہ کیا کہ ہر سو عیش و تنعم اور حسن و جمال کی دلفریبیاں ہیں لیکن اس جانب آنکھ اُٹھانا تو در کنار واپسی اُلٹے پاؤں شروع ہوتی ہے؟کوئی پہرے دار اور چوکیدار بھی نہیں۔بات اصل میں یہ ہے کہ قلب و ذہن میںیہ خیال رچا بسا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور پس اللہ دیکھ رہا ہے کا تصور ہی تقویٰ کہلاتا ہے اور یہی روحِ روزہ ہے ۔

یادر ہے جنت کوئی ہماری بنائی ہوئی پارک یا تفریح گاہ نہیں کہ زندگی ساری بے قید گذاردی ،اب تھوڑا بہت نذرو نیاز دیکر اس کا ٹکٹ حاصل کیا جائے۔سود خواری اور حرام خوری وطیرہ رہا ہو۔نمازوں سے غفلت تو رہی ہی رہی، اُلٹے نمازیوں کے کردار میں کیڑے نکالنے میں مصروف رہے ۔روزہ کی پُر بہار فصل ہو،یا تو بیمار بن جائیں یاروز ہ داروں کی کردار کشی، ان کی خامیوں کو اسلئے گننا شروع کریںکہ اپنے گناہ عظیم پر پردہ پڑا رہے ۔ہوشیار رہئے یہ نفاق کا عمل ہے۔یادر کھئے کہ اگر کوئی مسجد کی نماز باجماعت میں شامل نہ ہونے کے لئے یہ عذر پیش کردیتا ہے کہ میں اپنی نماز کی نمائش نہیں چاہتا تو سنئے یہ بھی نفاق ہے۔اگر کوئی فریضۂ حج سے یہ کہہ کر دامن جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے کہ بھئی مجھے ’حاجی‘کہلانے کا کوئی شوق نہیں ،یہاں بھی تو’حج‘کرنے کے بے شمار مواقع ہیں۔نیکیوں کے بہت سارے میدان ہیں،خبردار !یہ بھی نفاق ہے۔ جی ہاں فرائض کو ٹالنا اور ان سے جی چرانے کے عمل کے لئے احکام کی نت نئی تاویلیں کرنا صریحاً نفاق کے زمرے میں آتا ہے۔فرائض تو فرائض ہیں ،اس ذمہ داری سے برأت کا کوئی راہ وراستہ نہیں اور کوئی عالم و فاضل یا پیر فقیر فرائض سے سند آزادی دینے کا اختیار نہیں رکھتا ۔اور صوم تو’’صوم‘‘ہے بس یہ فاقہ مستی کا نام نہیںبلکہ حدو دقیود کے حصار میں رہنا ہے اور اگر آنکھ،زبان و دل بے لگام رہے تو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے الفاظ میں ’’پھر بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں‘‘۔اصل میں صوم کی اس مشین میں اللہ اپنے بندوں کو ڈال کران کے اندر ون وبیر وں کی تزئین و آرائش کرنا چاہتا ہے ۔ان کے دل میں رحم ،شفقت اور صبر کے بوئے بیجوں کی سینچائی کا عمل تو روزہ سے ہی کرنا چاہتا ہے ان کے دلوں سے حرص،خود غرضی،اناپرستی ،نفاق،ریا،بے شرمی اور ظلم و جبر کے صفات رزیلہ کو نکال کر دلوں کی تطہیر اورروحوں کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے۔

روزہ ،یہ کتنا مقدس اور پاکیزہ عمل ہے کہ چودہ سو برس گذر نے کے بعد بھی مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کی خشکی و تری میں یہ روحانی تربیت پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔اس تربیت کی سختیاں اور قواعد و ضوابط کی شدت کے ہوتے ہوئے بھی اس کے عامل اس کی پابندی کیسے ہنسی خوشی کرتے ہیں۔مَلک و فلک بھی رشک کرتے ہوںگے۔اس تربیت سے متاثر ہوکر سر ولیم مور جیسا شخص بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ’’روزہ کی سختیاں بد ستور قائم ہیں خواہ وہ کسی موسم میں بھی پڑیں اور آج تک مشرق کے میدانوں میں چلچلاتی دھوپ اور جھلساتی ہوئی بادسموم میں گرمیوں کے لمبے لمبے دنوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پیر و صبح سے شام تک پانی کا ایک قطرہ حلق کے نیچے نہیں اُتار تے ۔اتنی سخت ریاضت قوت ایمانی اور ضبط نفس کا پورا امتحان ہے۔(لائف آف محمد۔۱۹۳)

واقعی یہ مہینہ رحمت و مغفرت کا مہینہ بھی ہے ۔علماء و واعظین بے شک اللہ کے بندوں کو اس کی دہلیز پر لا کر اُن کے اندر گناہوں پر ندامت کے جذبات پیدا کرکے انہیںرُلادیں کہ رونا بھی دل کے امراض کا علاج اور گناہوں کی مغفرت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن ساتھ ہی اُنہیں ماہ صیام و قیام کے تقاضوں سے بھی آشنا کریں ۔حقوق اللہ و حقوق العباد سے آگاہ کریں اور ان کے ذہن و دل میں یہ بات اُتاریں کہ اگر روزہ کے عمل سے گذر تے ہوئے ایک دوسرے کو پچھاڑ نے،خوردونوش کی چیزوں میں ملاوٹ،ذخیرہ اندوزی،کذب بیانی،بہتان تراشی ،منافقانہ طرز عمل ،حق سے دوری اور باطل سے قربت ،چوک چوراہوں اور خلوتوں جلوتوں میں شرم و حیا کی دھجیاں بکھیرنے ،شراب و شباب کی محافل کا انعقاد یا ان میں شرکت،گل و بلبل کے ترانے گانے اور حسن و عشق کی داستانیں سننے سنانے،ناچ رنگ کی محفلوں کی زینت بننے ،سود لینے یا دینے،حق تلفیاں کرنے ،رشوت کی گرم بازاری،مسیحائی کا دم بھر تے  ہوئے مریضوں کو لوٹنے ،والدین کو دھتکار نے اور صرف دوستوں اور بیویوں کی ناز برداری کرنے،اقرباء کو چھوڑ کر دور کے لوگوں پر چند پیسے خرچ کر کے ناموری کی کاوشیں کرنے ،ہمسایوں اور معذوروں کے حقوق پامال کرنے اور ہمچو قسم کی دیگر برائیوں سے باز نہیں رہے تو کو نسا روزہ اور کہاں کی تراویح ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ اللہ کے خوف سے لرزاں لوگ عید کی خوشیوں میں شامل ہوں اوران لوگوں کے حصے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ آئے نہیں اور وہ جو اس صبر آزما کا م کی غایت یعنی’’لعلکم تتقون‘‘ہے وہ بہت محنت کرنے کے بعد بھی حاصل نہ ہو۔یادر کھئے!دین کے دائر ے میں پورے کے پورے داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہے(بقرہ)اس کے ہر حکم کی اطاعت پر جزا کی خوشخبری اور انکار پر سزا کی وعید ہے، یہاں نفس کی حکمرانی نہیں چلتی۔دین کی من مانی تاویلیں کا م نہیں آتی ہیں۔ہر امر کی اطا عت اور نہی سے پر ہیز،یہی روح دین ہے۔؎

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

      حاصل کلام یہ کہ بڑے مقصد کے حصول کے لئے بڑی قربانیاں ہی دینا پڑتی ہیں۔جنت خالی آرزووں سے حاصل نہیں ہوتی ۔اس کے ارد گرد خار دار جھاڑیاں ہیں اور اعمال حسنہ کی بنیاد پر ہی انہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔سارے سال فاحشات و منکرات کے سمندر میں ڈوبے رہے اور رمضان میں مساجد کی اگلی صفوں میں آکر اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہوئے ائمہ کرام کو منٹوں ساعتوں کا پابند بنے رہنے کا درس دینے سے جنت حاصل نہیں ہوتی ،یہ تب ہی ممکن ہے جب بدیوں اور شرکی قوتوں کے خلاف اس عرصۂ جنگ میں اپنے روح و دل کو مطہر کرنے میں کامیاب ہوں ۔ایسا ہوگا تو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں پھر روزہ دار جنت کے خاص درواز ے باب الریان سے داخل ہوگا،روزہ اس کی شفاعت کرے گا۔اس لئے لازم ہے کہ خود کو روزہ کے حصار میں قید کرے اور نفس کے سرکش گھوڑے کو زیر کرنے کی ربانی ہدایات پر عمل پیرا ہو۔تو پھر نفس لوامۃ  نفس مطمئنۃ  کا روپ دھارن کرے گا،درست بات ہے۔؎

نہنگ واژدھا و شیر نر مارا تو کیا مارا 

بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا 

(رابطہ۔7006055300)