شیخ سجاد احمد
اپنے بارے میں ایسا بھی نہیں کہتا کہ کسی موضوع پہ لکھنے بیٹھوں تو الفاظ ہمہ تن نیاز ہو کر مجھ سے پوچھیں کہ ہمارا انتخاب کیجیے بلکہ لکھنے کے لیے بہت سارے کنویں جھانکنے کے بعد لفظوں کی منت سماجت کر کے انہیں صفحہ قرطاس پہ رقم کرنا پڑتا ہے۔خیر آج جس موضوع پر مغز ماری کر رہا ہوں، ذہن میں آتے ہی اس کا دماغی عمل شروع ہو جاتا ہے، نام ہے کشمکش۔وہی کشمکش جس کا سفر روز ِازل سے جاری ہے اور جس کا ہم اور آپ روز مشاہدہ کرتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ آپ کے تمام حواس بیدار ہوں۔
بچہ جنم لیتا ہے تو ہر طرف آنے والے مہمان کے لئے مبارکبادی کی صدائیں بلند ہوتیں ہیں ، فوراً والدین آدم زاد کو پالنے کی کشمکش میں لگ جاتے ہیں۔ہر شے سے محفوظ رکھنے کی حتی الامکان کوششیں کی جاتی ہیں۔ چند سال بعد بچے کا داخلہ اسکول میں ہوتا ہے اور حصولِ علم کی کشمکش شروع اور اس حصولِ علم کی کشمکش کو برقرار رکھنے اور پائے تکمیل تک پہنچانے میں کئی کرداروں کی انتھک کوششیں شامل ہوتی ہیں۔ اِدھر تعلیم مکمل ہوئی اور اْدھر کئی مسائل زندگی کو کشمکش کے دائرے میں پھر سے لاتے ہیں ۔
دورِ جوانی میں یہ کشمکش زور پکڑتی ہے۔ شادی ہوئی اور مزید ذمہ داریوں نے اپنی آمد کا احساس دلایا۔ گھر میں بچے کی ولادت میں یہ جوان پھر اسی کشمکش کے بندھن میں آجاتا ہے جس بندھن کو اس کے والد صاحب طویل عرصے سے نبھاتے آئے ہوئے ہیں۔ کچھ اس حالات کے ساتھ۔۔۔
کہاں گئی کدھر گئی جوانی میری
جس کو ڈھونڈ رہا ہوں کمر جھکائے ہوئے
لفظ کشمکش کے معنی اس باپ سے پوچھیں، جس نے دو چار بچوں کی کفالت کرتے کرتے اپنے سیاہ بالوں کو سفید ہوتے دیکھا، بارونق چہرہ زرد پڑ گیا ہو ، آنکھوں کی بینائی ماند پڑ گئی ہو ، قوتِ سماعت نقص کا شکار ہوئی ہو۔ بہر صورت یہ کشمکش ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ لفظ کشمکش کی تفسیر اس ماں سے سماعت کیجیے جس نے بچوں میں اپنی جوانی تقسیم کر کے منتقل کر دی اور اْن کے لیے تندرستی اور اپنے لیے ناتوانی کا انتخاب کیا۔ قریب سے کشمکش کا مشاہدہ کرنا ہو تو ایک مزدور کو اپنے پسینے کے عوض اہل خانہ کے اخراجات پورے کرتے دیکھو۔ کسی حادثے میں زخمی ہو کر جب یہی مزدور ٹھیک ہونے لگتا ہے تو پھر سے زندگی کی تگ و دو شروع۔ زندہ رہنے کی کشمکش ،سماج میں برابری کی کشمکش اور چین و سکون پانے کی تلاش میں ایک طویل عمر بیقراری کے سپرد ہو جاتی ہے۔شاید کچھ یوں زندگی کا مقدر، سفر در سفر،آخری سانس تک بیقرار آدمی۔
بہرحال یہی کشمکش ہے جس نے اس دنیا میں رنگینیاں برقرار رکھی ہے، جس کی بدولت دنیا رنگ بدلتی رہتی ہے اور مزین ہو کر اہلِ دنیا کو دعوتِ بصر پیش کرتی ہے۔ ان تغیرات کے لیے انسان مسلسل جستجو کرتا رہتا ہے اور مختلف سمتوں سے آئے ہوئے حالات سے ملاقی ہونے کے لیے چوکس رہتا ہے اور رہنا پڑتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جستجو کے اس تسلسل کو کچھ لوگ سہہ نہیں پاتے اور ہار مانتے ہوئے دوسرے عالم کا افسوس ناک سفر شروع کرتے ہیں۔
اگر اس موضوع کو مزید محسوس کرنا ہو تو پھر اْس آنچ کو بھی محسوس کریں جو لفظ ’کشمکش ‘میں پوشیدہ ہے ، جس آنچ کو کم کرنے کا علاج سوائے خواہشات کو محدود رکھنے کے لیے اور کچھ نہیں۔ ورنہ کشمکش ڈراؤنی صورت اختیار کر کے آپ کو مذہب سے بیزار کرے گی اور آپ ہر خواہش کو حقیقت میں بدلنے کی ضد میں تقدیر سے پہلو تہی اختیار کریں گے۔
دارِ فانی سے جاتے جاتے بھی انسان اسی کشمکش میں ہوتا ہے کچھ مہلت اور ملتی تو باقی ماندہ خوابوں کی تعبیر بھی مل جاتی۔ خیر خواہشات کی ڈور قبر میں ختم ہوتی ہے اور اتنی کشمکش کے باوجود بھی انسان ہزاروں خواہشیں سینے میں دفن کر کے منوں مٹی کے نیچے دوزخ سے بچنے اور جنت پانے کی کشمکش میں سرگرداں رہتا ہے۔
رابطہ ۔ 6005119147