مشتاق احمد ملک
اب وقت آگیا ہے کہ جموں و کشمیر میںسیاسی مسائل سے اوپر اُٹھ کر ترقیاتی مسائل پر بات کی جائے۔ خاص طور پر اگر ہم دیہی علاقوں کی بات کریں تو ان میں پسماندگی دورکرنےکی بہت ضرورت ہے۔آج بھی ایسے کئی علاقے ہیں جہاں سڑک جیسی بنیادی سہولت تک میسر نہیں ہے۔ ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک لورن کی پنچایت لوہیل بیلا کے تین گاؤں بیلا سیٹھیؔ ڈوگیا،اگاناڑیؔ اور سٹیلاں ؔوارڈ نمبر چار پانچ اور چھ ہے جو اس جدید دور میں بھی سڑک سے محروم ہے۔اس سلسلے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس جدید دور اور ڈیجیٹل انڈیا میں بھی ہمیں اپنا گھریلو سامان کندھوں پر اُٹھا کراُس سڑک سے پیدل چل کر لانا پڑتا ہے۔بقول ان کےاُنہیں لنک سڑک کا پوائنٹ براچھڑؔ اسکول سے دیا گیا ہے، وہاں سے اس سڑک کو لگ بھگ پانچ سو میٹر تک نکالا گیا ہے۔اس سڑک کی تعمیرکا کام آج سے ایک سال قبل شروع کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد نا معلوم وجوہات پر اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔اس سڑک کو لوہیل بیلاؔ تا ناگاناڑیؔ کے نام سے منظور کروایا گیا ہے۔ یہ سڑک لوہیل بیلا براچھڑؔ سے گزر کر لورنؔ کی طرف جاتی ہے۔انہی کے بیچ سے یہ سڑک نکالی جارہی ہے۔چنانچہ ابھی یہ سڑک محض پانچ سو میٹر تک نکالی گئی تھی کہ اس کا کام روک دیا گیا اوراس کے بعدآج تک اس سڑک کا کام دوبارہ سے شروع نہیں کیا گیا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم سب دیہاتی اور پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں،شائد اسی لئے اس سڑک کی تعمیر کو ادھورا چھوڑ دیاگیا۔بقول ان کے جب یہاں بارش ہوتی ہےتو ہمیں خراب و خستہ راستوں پر چلنے پھرنے میں زبردست مشکلیں پیش آتی ہیں،جبکہ ان دیہاتی علاقوں میں سردیوں کےموسم میں بہت زیادہ برف باری ہوتی ہے۔جس کے نتیجے میں گاؤں والوں کو برف سے ڈھکے ان خراب راستوں سے ہو کر لوھیل بیلا براچھڑ اسکول کی ہائی وے سڑک تک جانے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،گویا اس جدید دور اور ڈیجیٹل انڈیا میں بھی ہم پرانے دور میں جی رہے ہیں۔ سڑک کی موجودگی سے ہی گاؤں اور دیہات ترقی کی جانب بڑ ھ سکتے ہیں، اگر ان تمام گاؤں کے اندر سڑک ہوتی تو یہ بھی ترقی کر سکتے اور یہاں کے باشندے بھی آسانی کے ساتھ ز ندگی گزار سکتے۔ لیکن سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقے پچھڑے ہوئے ہیں۔ جس جس گاؤں میں سڑک نکلی ہے، وہ ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیںجبکہ اس گاؤں کے لوگ سڑک کی عدم دستیابی سےپریشان حال ہیں۔ ان گاؤوں کے طالب علم آج کے اس ڈیجیٹل انڈیا میں اپنے گھروں سے سڑک تک پیدل پانچ کلو میٹر تک کا سفر کر کے اسکول پہنچتے ہیں۔ اس سلسلے میں پنچایت لوہل بیلا کے چوکیدار محمد اسلم بتاتے ہیں کہ ہماری پنچایت کی کسی بھی وارڈ میں سڑک نہیں ہے۔ جبکہ محض تین وارڈوں کے لئے سڑک کی منظوری ہو چکی ہے اور براچھڑؔ اسکول سے یہ سڑک لگ بھگ پانچ سو میٹر نکالی توگئی ہےلیکن اس کے بعد اس سڑک کا کام بند پڑا ہے اورآج تک اس کا کام دوبارہ سے شروع نہیں کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ چوکیدار محمد اسلم کہتے ہیں کہ میری مقامی انتظامیہ اور ایل جی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت سے بھی پرزور اپیل ہےکہ اس سڑک کا کام جلدی سے شروع کروایا جائے تا کہ یہاں کے لوگ بھی ترقی کی راہ پر آ سکیں۔
اسی حوالے سے وہاں کے رہائشی طالب علموں یاسر حمید، ندیم احمد، رضوان مجید، محمد زاہداورشاہد افضل وغیرہ کہتے ہیں کہ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے طالب علموں کو پیدل پانچ سے چھ کلو میٹر کا سفر طے کر کے اسکولوں تک جانا پڑتا ہے۔ جبکہ بارشوں کے دنوںمیںتمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں کی خستہ حالی کے باعث اکثر طالب علم وقت پراسکول نہیں پہونچ پاتے۔ان تمام طالب علموں کو روزانہ اسکول آنے جانے میںزبردست مشکلات پیش آتی ہیں۔اس کی وجہ سے ان کی پڑھائی ادُھوری رہ جاتی ہے۔ طالب علموں کا زیادہ تر وقت آنے جانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ان تمام طالب علموں کی بھی ڈسٹرکٹ انتظامیہ ایل جی انتظامیہ اور سرکار سے یہی گزارش ہے کہ اس سڑک کا کام جلدی سے شروع کروایا جا ئے تا کہ انہیں درپیش مشکلوں میں راحت آئے۔ ایک مقامی باشندہ ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر قمردین احمد شیخ کے مطابق یہاں کئی گاؤں اوردیہات پسماندہ ہیں، یہاں کے اسکولوں میں مختلف جگہوں سے اساتذہ پڑھانے کے لیے آتے ہیں۔سڑک نہ ہونے کی وجہ سے اُن تمام ا ساتذہ کو پیدل چل کر اسکولوں میں آنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے ان کو روزانہ آنے جانے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بارشوں میں یہاں کے راستے بہہ جاتے ہیں۔ سڑک جو نکالی گئی ہے، وہ ایسی سڑک ہے جس میں لوگ پیدل چلنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے علاقوں کی طرف سرکار اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ کو توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ اس علاقے کے اندر سڑک کا ہونا بہت ضروری ہے۔تاکہ یہاں کے بچوں اور ان گاؤں میں قائم اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ اکرام کو درپیش مسائل سے چھٹکارا مل سکے۔اس لئے اس سڑک کی تعمیر کا کام جلد از جلد شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ایک اور مقامی رہائشی طارق بھٹ کے مطابق اُن کےگاؤں میں ایک سال پہلے سڑک نکلی ہے لیکن اس پر اب کوئی بھی توجہ مرکوز نہیں کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ کچھ سال پہلے ان گاؤں کے اندر کچھے راستے بنائے گئے تھے،آج وہ راستے بھی درہم برہم ہو چکے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں برف باری اور بارشوں کے دوران یہاں کے باشندوں کو اشیائے ضروریہ لانے میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت زیادہ برف باری میں بیماروں کاعلاج و معالجہ انتہائی دشوار کُن معاملہ بن جاتا ہے۔ جب کوئی ان گاؤں میں بیمار ہو جاتا ہے تو سبھی گاؤں والوں کو جمع ہو کر اس شخص کو چار پائی پر اُٹھا کر سڑک تک لے جانا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے آج کے دور میں سڑک کا ہونا اشد ضروری ہے۔سڑک سے لوگوں کو بہت سارے فائدہ ہوتے ہیں۔ میری حکومت سے مودبانہ گزارش ہے کہ ان تمام دیہاتی علاقوں میں بھی سڑک دی جائے تا کہ پسماندہ لوگ بھی ترقی کی راہ دیکھ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ بارشوں میں یہاں کے راستوں پر سفر کرنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو جاتا ہے۔ حکومت کے بڑے بڑے دعوے صرف نیوز تک ہی محدود رہتے ہیں۔ زمینی سطح پر سڑکوں کی کٹنگ تو ہو جاتی ہے لیکن ان کا پورا کام نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ کسی ایک سڑک کی کہانی نہیں ہے بلکہ ضلع پونچھ میں 80 فیصد سڑکوں کی یہی صورت حال ہے بلکہ پورے ڈسٹرکٹ پونچھ میں سڑکوں کا ایسا ہی حال دکھائی دے رہا ہے۔ جن پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا ہے۔ مقامی باشندوں کو امید ہے کہ اب جبکہ حالات بدل رہے ہیں اور سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ آگیا ہے تو اب دیہی علاقوں کی ترقی پر دھیان دیا جائے گا اور دیہی علاقے بھی ’سب کا ساتھ، سب کا ویکاس‘ کے تحت سڑک جیسی بنیادی ضرورتوں سے پورے ہونگے۔
رابطہ۔منڈی پونچھ،جموںوکشمیر