ریاست جموں و کشمیر کی دنیا کے بابا ئے صحافت ، عظیم رہنما پدم شری ملک راج صرافؔ کی اردو دوستی کو فراموش نہیں کیا جاسکتاہے ۔ انہوں نے ریاست میں صحافت کے میدان میں قدم رکھ کر بانی کے فرائض انجام دئے ہیں ۔ ملک راج صراف ؔنے ۲۴ جون ۱۹۲۴ ء کو جموں سے پہلا اردو اخبار ’’رنبیر ‘‘ جاری کیا۔ اسی اخبار سے ریاست میں ادبی صحافت کا بھی آغاز ہوا۔اس اخبار میں ادبی صحافت کے متعدد نمونے منظر عام پر آئے جن کو کافی سراہا گیا ۔’’رنبیر ‘‘اخبار ریاست میں اردو نثر کی ترقی کے لیے مفید ثابت ہو ا۔اس اخبار میں نئے نئے قلم کاروں کو اپنی تحریر یں پیش کر کے اپنی صلاحیتیں اُبھارنے کا مواقع ملا ۔ملک راج صراف جو ریاست میں اردو زبان کے خواہاں تھے نے ’’رنبیر ‘‘ اخبار کے پہلے ہی شمارہ میں اخبار کے مقاصد واضح بیان کئے ،جس میں انہوں نے اردو کی ترقی ،تعلیمی ترقی ،اصلاح اور بہودی ،مالی اور تجارتی ترقی ،آمدرفت اور صحت عامہ کی استواری وغیرہ کو شامل کیا ۔ ان مقاصدکو عمومی سطح پرعملی جامہ پہنانے میں ’’رنبیر ‘‘ اخبارنے واضح طور پر اہم کردار نبھایا ۔انسانی اور صحافتی قدروں کی آبیاری کے دوش بدوش ’’رنبیر ‘‘ نے اردو ادب کے فروغ میں لائق تحسین رول ادا کیا ۔اخبار کے پہلے شمارے سے اس کی ادبی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں ہر کشن لال حبیبؔ وزیر آبادی کی یہ نظم صفحہ اول میں چھپی تھی ۔اس نظم کے چند مصرعے ملا خط فرمائیں ؎
ہوائے اوج پہ ہے بخت ساز گار وطن
فروغ بخش نظر پھر ہوئی بہار وطن
ہے جلوہ پاش ضیا ئے محاسن رنبیر
پرتاب جس کا ہے خود باعث وقار وطن
کھلیں گی اس سے فلاح وطن کی شاہراہیں
بنے گا حسب طلب پھر سے روزگار وطن
زبان خامہ سے بس اس کی یہ صداہوگئی
سبنھل سبنھل بھی اب اے قلب بے قرار و طن
( نقوش رنبیر ،ملک راج صراف ص ۱۱)
’’رنبیر ‘‘ کا شمارہ ۲۴ جوں ۱۹۲۴ ء میں سید ذوالفقار علی نسیمؔ کے چند اشعار ملا خط فر مائیں ؎
آؤ پیداکریں پھر مل کے وہ آن رنبیر
پھر سے عالم کو دکھا دیں وہی شان رنبیر
اس کے آنے سے سدھر جا ئے گئی حالت اپنی
خیر مقدم کو بڑھو آیا ہے جو ان رنبیر
اس کو آنکھوں پہ بٹھائو کر و عزت اس کی
پرزہ کاغز کا نہیں یہ نشان رنبیر
ہے یہ ہاتھوں میں تمہا رے کرو مل کر ا و نچا
ری دنیا کے مکانوں سے مکان رنبیر
( رنبیر ،شمارہ، ۲۴ جون ،۱۹۲۴ء صفحہ ۱ )
’’رنبیر ‘‘اخبار کی سلور جوبلی ۲۴ جوں ۱۹۴۹ ء کو منائی گئی جب رنبیر اخبار کے پچیس برس پورے ہوگئی ۔اس موقعہ پر شیخ محمد عبداللہ اور گورنر جنرل سی راجگوپال آچاریہ اور ملک کے سر کردہ صحافی بھی شامل تھے ۔انہوں نے اپنے پیغامات میں رنبیر کی ادبی خدمات کو سراہا ۔سلورجوبلی کے موقعہ پر کشنؔ سمیل پوری کی ایک نظم ’’لالہ ملک راج صراف سے ‘‘ جو رنبیرکے شمارے میں شائع ہوئی تھی، چند اشعار یہ ہیں ؎
جو ولو لے تیرے میں تھے چٹکیاں لیتے
اے ملک راج مبارک وہ رنگ لا کے رہے
پلیٹ فارم اور پریس ہو اآزاد
تیرے بلند ارادے اثر دکھاکے رہے
تو نے رعایا کو ہیں حقوق اتنے
کہ لوگ تجھ کو سر آنکھوں پہ ہیں بٹھا کے رہے
مناتے خیر سے ہو اس کی نقرئی جوبلی
دعا ہو سونے کی بن جائے کاش یہی جوبلی
( رنبیر ،شمارہ ۲۴ جون ۱۹۴۹ ء میں )
ریاست میں رنبیر اخبار سے ادبی صحافت کا سلسلہ شروع ہو ا۔اس اخبار کے ساتھ نئے شاعروں اور ادیبوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو ۔جن کی نگارشات ’’رنبیر ‘‘میں شامل کی جاتی تھیں ۔اس کے لکھنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہا تھی، جن میں لالہ ہنس راج وکیل ،سردار بد ھ سنگھ ، ہر کشن لال حبیبؔ ،سید ذالفقار علی نسیمؔ ،مولوی محمد زین العابدین ، ڈاکٹر بر کت رام ،حبیب اللہ ،شری رام ،ارجن سنگھ عرش،بنسی لال سوری ،قیس شیروانی ،میرزا مبارک بیگ ،ماشٹر زندہ کول ثابت ،پنڈت لوک ناتھ شر ما ،سردار مہنہ رو سنگھ ،پنڈت پنڈی داس گو سوامی، اثر صہبائی ،وید پرکاش صرافؔ،امن ؔ لکھنوی،جان محمدگلزار،ؔسورج پر کاش نقارؔ،گلزار سیالکوٹی،غلام رسول نازکیؔ،علی محمد طاریق کاشمیری ؔ،فیض لدھیانوی ، نیاز ؔکاشمیری،ہدایت اختر ؔ،یاس ؔبخاری،مولانا طفر ؔعلی خا ن ،ساحر ؔلدھانوی،گوپال متلؔ،جگر مردآبادی ؔ،جوشؔ میلح آبادی ،آغا حشرؔکاشمیری،سردار دلیپ سنگھ ،منشی تلوک چند محروم ؔنند لال کول طالبؔ،منشی محمد دین فوقؔ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ان قلم کاروں نے ’’رنبیر ‘‘اخبار کو اپنی تحریروںسے سجا یا ۔ان لوگوں نے ۱۹۴۷ ء کے فسادات ،آلام و مصائب خلاف سینہ سپر ہو کر پورا منظر بیان کیا۔اپنی شاعری میں ان چیزوں کی مزاحمت کی ۔اس طرح سے ’’رنبیر ‘‘اخبار صحافتی تاریخ میں مشترکہ فکر و عمل کی انمٹ دستاویز ہے ۔ ۱۹۲۵ ء میں جب ’’رنبیر ‘‘اخبار کا قلم کاروں کے شہ پاروںکا اسپیشل نمبر نکلا ۔اس کو دیکھا کر مشہور مورخ منشی محمد الدین فوق نے لکھا :
’’ایک ایسی سر زمین سے جہان علم و ہنر کی قدر دانی مفقود ہو ۔ایسےواہرات کا دستیاب کرنا صراف ہی کا کام تھا‘‘
( میری پاکستان یاتر ،ملک راج صراف ص ۵۱)
جان محمد آزاد ’’رنبیر ‘‘ کی ادبی صحافت کے بارے میں رقم طراز ہیں :
’’رنبیر کے منظر عام پر آتے ہی مقامی ادیبوں اور شاعروںکو تشہیر و ترغیب کا ایک ایسا وسیلہ مل گیا جس کی کمی کو وہ ایک عرصہ سے محسوس کرتے آرہے تھے ۔’’رنبیر ‘‘اب ایک اخبار نہیں رہا اس نے بتدریج ایک ادبی دبستانکا درجہ حاصل کر لیا ۔چنانچہ اخبار میں خبروں کے علاوہ تبصرے ،کہانیاں ،مضامین ،اور نظمیں وغیرہ بھی پابندی سے شائع ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔گویا رنبیر کی صحافت پر مقامی ادیبوں کی ایک پوری نسل پروان چڑھی۔‘‘
(جموں و کشمیر کے اردو مصنفین ، جان محمد آزاد ،ص ۴۰۲)
ریاست کے مشہور افسانہ نگارشری پریم ناتھ پردیسی ’’رنبیر ‘‘کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ طالب علمی کے دور میں ’’رنبیر ‘‘ بڑی دلچسپی سے پڑھتا تھا ، پھرمیںنے بھی اس کے لیے افسانہ وغیرہ لکھنے شروع کئے ۔جب میں نے پہلی بار اپنا نام ’’رنبیر ‘‘میں دیکھا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ رہا میں نے یہی سمجھا کہ میں ایک عظیم انسان بن گیا ہوں ۔مشہور فکشن نگار کرشن چندر کہتے ہیں کہ جب میں پونچھ میں تھا تو میں نے’’رنبیر ‘‘پڑھنا معمول بنا یا تھا۔کرشن چند کو عظیم افسانہ نگار بنانے میں ’’رنبیر ‘‘نے اہم رول ادا کیا ۔الغرض اس اخبار نے نئے ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی اور منجھے ہوئے ادیبوں کی خدمات بھی حاصل کیں ۔یہ اخبار لاتعداد اصلاحی خوبیوں کامالک ہے اور اس نے اپنے وقت میں تنقید کے جوہر بھی پیش کئے ۔
ملک راج صراف نے بچون میں اردو ادب کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے رسالہ ’’رتن ‘‘ ۱۹۳۴ ء میں جاری کیا ۔یہ دیدہ زیب ،مصفا ، قابل پذیرائی اور لائق رسالہ تھا ۔’’رتن‘‘ کے پہلے ایڈیٹر شانتی سروپ نشاط ؔتھے۔ ’’رتن ‘‘کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ اس سر کولیشن ۴۵ ہزار تک پہنچ گئی ۔جو شاید اس وقت اس رسالہ کا ریکارڈ رہا ۔ اس کا تذکرہ ملک راج صراف نے اپنی خود نوشت سوانح ’’ففٹی ایرز ایزاے جرنلسٹ ‘‘میں کیا :
’’ان ریاستوں اور بر طانوی ہند میں جہان اردو بولی جاتی ہے ، ارباب تعلیم نے اسے منظور رسائل کی فہرست میں شامل کر لیا تھا ۔‘‘
(بحوالہ کشمیر میں اردو ،پروفیسر عبدالقادر سروری ؔ ص ۵۴۴ )
اردو ادب میں ’’رتن ‘‘ کو ہندوستان کے ادبی حلقوں میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کی اصلی وجہ یہ تھی اس رسالہ میں بچوں کے ذہنی سطح کے ادبی مضامین،شعر و شاعری ، افسانے اور شاہکار نظمیں شائع ہوتی تھیں ۔یہ رسالہ ریاست سے باہر حیدر آباد ، بھوپال،رام پور ،لاہور تک پہنچتا تھا ۔تقسیم ملک کے بعد یہ رسالہ بند ہوگیا ۔اس کے بعد ’’رتن‘‘کو ہندی کا روپ دے کر ۱۹۶۵ ء میںدبارہ شائع کیا گیا لیکن بہت جلد بند ہوگیا ۔
رابطہ : ریسرچ اسکالر پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ ڈورو اننت ناگ کشمیر پن ۲۲۱۱
فون نمبر9596444868